یک نہ شد‘ سہ شد

یہ مودی کس کے کھونٹے پر ناچ رہا ہے؟
یک نہ شد دو شد‘ بلکہ دو بھی کہاں؟ سہ شد۔ پہلے بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پاکستان کے خلاف دل کے پھپھولے پھوڑے‘ پھر نریندر مودی نے ڈھاکہ میں پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور پراکسی وار کا اعتراف کیا‘ اب مودی کے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات کرنل (ر) راجیہ وردھن سنگھ راٹھور کو زکام ہوا ہے۔
یہ پاکستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے خلاف ردعمل ہے‘ چین پاکستان اقتصادی راہداری پر اظہار ناراضی؟ افغانستان کی خفیہ ایجنسی اور آئی ایس آئی کے مابین مفاہمت پر سراسیمگی ہے یا بنیا قیادت ایک بار پھر حالات کو سازگار پا کر کسی سازشی منصوبے کی تکمیل کے درپے ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ آپریشن ضرب عضب‘ اقتصادی راہداری‘ افغان پاکستان تعاون اور پاکستان میں سیاسی افراتفری کی بنا پر پائی جانے والی مایوسی اور بے چینی بھارتی قیادت کے جارحانہ موڈ کا سبب ہو۔
اقتصادی راہداری کی تکمیل کے لیے پاکستان اور چین کا تعاون اقتصادی ترقی و خوشحالی کا ایک ایسا سنگ میل ہے‘ جو ہمارے تمام اندرونی و بیرونی دشمنوں کے لیے سوہان روح ہے اور دائمی ناکامی کا پیش خیمہ۔ اسی بنا پر بھارت میں ہاہاکار مچی ہے۔ نریندر مودی نے دورہ چین میں شکایت کی‘ جسے چینی قیادت نے شکایت بے جا قرار دیا۔ گزشتہ روز لاہور میں 90 شاہراہ فاطمہ جناح پر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے سیمینار کا اہتمام کیا‘ جس میں چینی سفیر اور ماہرین نے منصوبے کی جُزئیات سے صحافیوں‘ دانشوروں‘ طلبہ‘ اساتذہ اور کاروباری حضرات کو آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ہر سوال کا جواب دیا اور ہر ایک کی تشفی کی۔
کاش وفاقی حکومت یہی اہتمام چند ماہ قبل کرتی اور قوم پرست جماعتوں کے علاوہ ہر معاملے کو شک و شبے کی نظروں سے دیکھنے اور صوبائی تعصبات اور علاقائی منافرتوں کی بھینٹ چڑھانے کے شوقین دانشوروں کو منفی پروپیگنڈا کرنے کا موقع نہ دیتی مگر اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ اقتصادی راہداری منصوبے کے مخالفین نے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں یہ بات منوا لی ہے کہ پہلے مغربی روٹ تعمیر ہو گا پھر وسطی اور مشرقی روٹ کی باری آئے گی۔ حکمران اور راہداری کی تکمیل کے خواہش مند اس پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں مگر اس قومی اتفاق رائے میں بھی شرارت کا عنصر نمایاں ہے۔
مغربی روٹ تربت‘ خضدار‘ ژوب‘ جنوبی وزیرستان اور ٹانک جیسے شورش زدہ اور دشوار گزار علاقوں سے گزرے گا‘ جہاں کسی قسم کا انفراسٹرکچر موجود ہے نہ امن و امان کی صورتحال تسلی بخش اور نہ صوبائی حکومت کی رٹ موثر۔ درمیان میں سات ساڑھے سات ہزار فٹ بلند پہاڑ بھی موجود۔ یوں اس روٹ کی تکمیل کے لیے غیر معمولی وسائل اور وقت کے علاوہ سکیورٹی درکار ہے اور جب تک قابل اعتماد اور مثالی سکیورٹی کی گارنٹی نہیں ملتی چینی کارکن اور فنی ماہرین ان علاقوں کا ہرگز رخ نہیں کریں گے۔ اتحادیوں سے بلیک میل ہونے کی حکومتی روش نے مخالفین کو ترپ کا پتہ کھیلنے کی سہولت فراہم کی اور کچھ علم نہیں کہ آغاز کار میں مزید کس طرح کی رکاوٹوں کا سامنا ہو گا۔
آپریشن ضرب عضب میں مصروف پاک فوج اقتصادی راہداری کے تعمیری مراحل میں سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے‘ جس پر بھارت اور اس کے پاکستان میں موجود گماشتے حد درجہ پریشان ہیں؛ چنانچہ اندرون ملک سکیورٹی فورسز پر حملے‘ کراچی اور بلوچستان میں نسلی و لسانی بنیادوں پر دہشت گردی اور ملک کے دوسرے حصوں میں تخریب کاری کا ایک مقصد تو یہ ہے کہ پاک فوج اور اس کے ذیلی ادارے پھنسے رہیں‘ اور چین ناکافی سکیورٹی کی بنا پر مزید پیش رفت میں دقت محسوس کرے‘ دوسرے حکومت بھی یکسو نہ ہونے پائے۔ نریندر مودی‘ منوہر پاریکر اور کرنل راٹھور کے بیانات حکومت اور فوج پر دبائو بڑھانے کی حکمت عملی نظر آتی ہے۔ پاکستان کو اقتصادی ایجنڈے سے بھٹکا کر دفاع اور سلامتی کے معاملات تک محدود رکھنے اور پاکستانی قوم کو ماضی کی تلخ یادوں کی اذیت میں مبتلا کرنے کی برہمنی حکمت عملی۔
میانمار کے علاقے منی پور میں بھارتی فوج کا حملہ (جس میں مبینہ طور پر بیس عسکریت پسند مارے گئے) ہمسایہ ممالک کی خود مختاری اور آزادی کو پامال کرنے کی کارروائی ہے‘ لیکن نریندر مودی کی ڈھاکہ میں بیان کردہ پالیسی کا عملی اظہار‘ جس کے مطابق بھارت ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور Hot Pursuit کے نام پر فوجی جارحیت کو اپنا حق سمجھتا ہے۔
منی پور میں بھارتی فوج کے حملے کو بھارتی وزیر مملکت برائے اطلاعات کرنل (ر) راجیہ وردھن راٹھور نے نریندر مودی سرکار کی Hot Pursuit پالیسی قرار دیا۔ ان کے اپنے الفاظ میں Unprecedented and extremely bold ۔ آپریشن سے پہلے بھارتی آرمی چیف دلبیر سنگھ نے دورہ نیو یارک منسوخ کیا اور مشیر سلامتی اجیت ڈول مودی کے ساتھ ڈھاکہ نہ گئے۔ جب سوال کیا گیا کہ کیا اس طرح کے حملے مغربی سرحد (پاکستان) پر بھی ہوں گے تو بھارتی وزیر کا جواب تھا: ''مغربی سرحد پر خلل اندازی سے بھی اسی انداز میں نمٹیں گے‘‘ اور ساتھ ہی کہا:
"The operations were message to all such neighbours who harbour terror groups and use them against India. This message should go to everyone"
مشرقی پاکستان میں بھی بھارت کا انداز فکر اور انداز کار نریندر مودی‘ منوہر پاریکر اور راٹھور سے ملتا جلتا تھا۔ منفی پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کو شورش زدہ علاقہ ڈکلیئر کرو، انسانی حقوق کی پامالی اور بنگالیوں کی نسل کشی کے پروپیگنڈے سے مغربی پاکستانیوں کو احساس جرم میں مبتلا رکھو کہ یہاں امن و سلامتی ہے‘ استحکام و وحدت فکر نہ انسانی حقوق کا احترام اور نہ ہمسایوں سے ہم آہنگی۔ اندرون ملک اپنے ایجنٹوں اور تخریب کاروں کے ذریعے حکومت اور فوج کو الجھائے رکھو اور اپنے آپ کو خطے کے چوکیدار کے طور پر ''گرم تعاقب‘‘ کا حقدار۔
1971ء میں پاک فوج آپریشن پر تب مجبور ہوئی جب فوجی بھگوڑوں‘ مکتی باہنی‘ مجیب باہنی‘ علیحدگی پسندوں‘ غداروں اور غیر ملکی ایجنٹوں نے ڈھاکہ‘ چٹاگانگ‘ کھلنا‘ کومیلا‘ جیسور اور دیگر شہروں و دیہات میں پاکستان کے وفادار بنگالیوں اور غیر بنگالیوں‘ فوجیوں‘ پولیس افسروں‘ انتظامی عہدیداروں اور ان کے اہل خانہ کو قتل و غارت گری‘ آبرو ریزی‘ آتش زنی اور تشدد کا نشانہ بنا کر نسل کشی کے ریکارڈ قائم کیے۔ کراچی‘ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی طرز پر کارروائیاں جاری ہیں۔
امریکی اخبار واشنگٹن ایوننگ سٹار نے 12 مئی 1971ء کو اپنے نمائندے مارٹ روزن بام کی رپورٹ شائع کی ''اصفہانی جوٹ مل کے کلب میں 180 غیر بنگالی‘ عورتوں اور بچوں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا‘ جنونی باغیوں نے قتل و غارت سے قبل لوٹ مار اور عورتوں کی آبروریزی کی۔ مقامی باشندوں نے بتایا کہ بستیوں اور بازاروں میں غیر بنگالیوں کا پیچھا کر کے مارا گیا 350 غیر بنگالی نوجوانوں کو زندہ جلا دیا گیا‘‘ ڈیلی ٹیلی گراف‘ نیو یارک ٹائمز‘ دی سنڈے ٹائمز (لندن) اور دیگر غیر ملکی اخبارات نے بھی ایسی ہی رپورٹیں شائع کیں مگر معتبر صرف وہی سمجھا گیا جو عوامی لیگ کے تشہیری مواد کا حصہ بنا۔ پاکستان کے خلاف نفرت اور جھوٹ پر مبنی انسانیت سوز مواد۔
بھارت کو رام کرنے کی ہماری کوششیں منطقی انجام کو پہنچ چکی ہیں۔ یہ کیکر پر انگور چڑھانے کی احمقانہ کاوشیں تھیں جو ہر گچھے کو زخمانے پر منتج ہوئیں۔ بھارت اگر مسئلہ کشمیر امن و مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا خواہش مند ہوتا تو 1972ء سے 1989ء کے دوران (ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاء الحق اور میاں نواز شریف کے پہلے دور میں) حل کرتا‘ جب پاکستان نے عسکریت پسندی کا راستہ چھوڑ کر مذاکرات اور مفاہمت کی راہ اپنائی جبکہ میاں صاحب تو بھارت پر اس حد تک ریشہ خطمی ہوئے کہ انہوں نے تجارت اور اقتصادی روابط کو اپنی اولین ترجیح تک قرار دے ڈالا‘ جس کے بعد ان کے خیال میں مسئلہ کشمیر حل کرنا آسان ہوتا‘ مگر بھارت نے کبھی مان کر نہیں دیا۔ یہ اس کی پاکستان دشمن‘ متعصب و متکّبر قیادت کی عادت ہے‘ مخالف کمزور ہو تو اسے نیست و نابود کرنے پر تل جائو اور طاقتور لگے تو چین کی طرح آگے بچھ جائو '' مہاراج شما کیجئے‘‘۔
بھارت کا مقابلہ ہو‘ اقتصادی راہداری کی تعمیر یا آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہر معاملے میں قومی اتحاد و یکجہتی اور حکومت و دیگر اداروں کی یکسوئی از بس ضروری ہے‘ مگر ہمارے ہاں تو الا ماشاء اللہ ہر طرف دال جوتیوں میں بٹ رہی ہے اور سیاسی اتفاق و استحکام مفقود ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اور اس کے جنگجو ساتھیوں کو یاوہ گوئی کا حوصلہ کیوں نہ ہو؟ کمزوری ہمیشہ جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔ ہم کمزور ہرگز نہیں مگر تاثر یہی دے رہے ہیں۔ ورنہ بھارت اور عالمی برادری کے سامنے ہمارا لب و لہجہ جنگجویانہ نہ سہی غیرت مندانہ اور دلیرانہ ضرور ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں