ایک زرداری جمہوریت پہ بھاری

سابق صدر آصف علی زرداری کی مایوسی اور بے چینی قابل فہم ہے۔ اندرونی اور بیرونی دبائو اُن کے اعصاب پر اثرانداز ہوا ہے۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ پاک فوج کو دہشت گردوں‘ عسکریت پسندوں اور سایوں کے تعاقب میں دھکیل کر وہ اپنا پسندیدہ کاروبار اطمینان سے جاری رکھ سکیں گے ان سے کوئی بھول ہوئی تھی۔
سیاستدانوں نے جذباتی نعروں‘ الزام تراشی اور منفی پروپیگنڈے کی تکنیک عوام کو بے وقوف بنانے‘ ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے اور مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کی اور اکثر و بیشر کامیاب رہے مگر 'ہر شب شب برات نیست کہ حلوہ خورد کسے‘۔ اب پانی سر سے گزر چکا ہے اور عوام کے علاوہ ریاستی اداروں کو بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ بلیک میلنگ کی سیاست ملک کے مستقبل اور استحکام کے لیے تباہ کن ہے۔ بعض سیاستدان ابھی تک بسم اللہ کے گنبد میں بند پرانی تکنیک آزمانے پر مُصر ہیں۔ ان کی یادداشت اور ذہانت 1970ء اور 1990ء کے عشرے کی اسیر ہے۔
آپریشن ضرب عضب شروع ہوا تو سیاستدان بھرپور سپورٹ فراہم کرنے کے بجائے باہمی دھینگامشتی میں مصروف ہو گئے۔ سانحہ ماڈل ٹائون‘ لانگ مارچ اور دھرنا اسی دور کی یادگار ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان تشکیل پایا تو ابتدا میں اس کا دائرہ قبائلی علاقوں اور مخصوص گروہوں تک محدود کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر جب واضح ہو گیا کہ ہر نوع کے دہشت گردوں کے علاوہ ان کے معاونین‘ سہولت کاروں اور اندرون و بیرونی سرپرستوں کا قلع قمع بھی ضروری ہے تو کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کی منظوری دے دی گئی۔
اس آپریشن کی راہ میں رکاوٹ نام نہاد ''سیاسی قوتوں‘‘ اور صوبائی حکومت نے ڈالی ورنہ اپیکس کمیٹی بنانے اور 230 ارب لوٹنے والے مگرمچھوں کی فہرستیں سامنے لانے کی ضرورت نہ تھی۔ اگر صوبائی حکومت اور اس کی ماتحت پولیس اور انتظامیہ کی کارگزاری تسلی بخش ہوتی‘ وہ کراچی میں بھتہ خوروں‘ لٹیروں‘ اغوا کاروں‘ ٹارگٹ کلرز اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا فرض خوش اسلوبی سے ادا کرتی تو رینجرز کو آنے اور کارروائیاں کرنے کا موقع کیوں ملتا؟
زرداری کی قیادت میں بطور جماعت پیپلز پارٹی کی سیاسی محاذ پر کارکردگی قابل رشک نہیں۔ پنجاب‘ بلوچستان‘ خیبر پختونخوا میں وہ بُری طرح پٹ چکی ہے‘ گلگت بلتستان کے حالیہ انتخابات میں اس کی بری کارگزاری نے پارٹی کے مخلص کارکنوں کو مایوس اور شرمندہ کیا ہے‘ جبکہ سندھ حکومت کے بارے میں ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے۔ اگر کراچی اور تھر کے عوام کو پینے کا پانی اور غریب سندھیوں کو جان و مال کا تحفظ میسر نہیں تو حکومت کا وجود‘ عدم وجود برابر ہے۔
آپریشن ضرب عضب میں مصروف فوجی قیادت کو بخوبی یہ احساس ہے کہ جب تک شہروں میں موجود مافیاز کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاتا‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ مافیاز اپنی لوٹ کھسوٹ جاری رکھنے کے لیے بدامنی‘ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اسلحہ مافیا‘ لینڈ مافیا اور بھتہ مافیا کا سارا کاروبار بدامنی اور دہشت گردی کی وجہ سے پھلتا پھولتا ہے اس لیے ان میں سے کوئی نہیں چاہتا کہ ملک بطور خاص پاکستان کی اقتصادی شہ رگ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو اور قانون کی عملداری فروغ پائے۔
جب تک آپریشن مخصوص علاقوں اور طبقوں تک محدود رہا پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور دوسری جماعتیں زور شور سے حمایت کرتی رہیں‘ مگر جب آپریشن کی زد سیاست کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردوں اور اُن کو سہولتیں فراہم کرنے والوں پر پڑی تو الطاف حسین کی طرح آصف علی زرداری بھی آپے سے باہر ہونے لگے حالانکہ یہ چاہتے تو ان جرائم پیشہ افراد سے اعلان لاتعلقی کر کے آپریشن کو سپورٹ کر سکتے تھے‘ مگر چونکہ ہمارے ہاں جرم اور سیاست ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو چکے ہیں‘ سیاسی جماعتوں کو لینڈ مافیا‘ اسلحہ مافیا‘ سمگلنگ مافیا‘ منشیات مافیا‘ پانی مافیا‘ بھتہ مافیا اور اغوا کاروں نے یرغمال بنا لیا ہے‘ اس لیے بہت کم سیاسی جماعتوں کی قیادت آزادانہ فیصلے کرنے اور ان مافیاز کا قلع قمع کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔
ایان علی کیس عزیر بلوچ کیس‘ واٹر ہائیڈرنٹس اور بلڈنگ کنٹرول کے معاملات فوج سامنے لائی‘ نہ بظاہر یہ کسی سازش کا حصہ لگتے ہیں۔ کراچی میں مختلف دھڑوں سے تعلق رکھنے والے جو مجرم پکڑے گئے‘ انہوں نے اپنے اعترافی بیانات میں بعض سیاسی شخصیات کو ملوث کیا‘ ابھی تک ان اعترافی بیانات اور فراہم کردہ ثبوتوں کی بنا پر کوئی سیاسی گرفتاری ہوئی نہ کسی نے سیاسی شخصیات کا نام لیا گیا؛ البتہ وزیر اعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ یا بالفاظ دیگر آصف علی زرداری کے اتفاق رائے سے مقرر ہونے والے چیئرمین کی سرپرستی میں نیب نے اگر ایف بی آر کے سابق سربراہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ہے‘ تو یہ قانونی راستہ اور تقاضا ہے‘ جس پر کسی کو ناک بھوں چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ گند زرداری صاحب خود اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں صاف کر لیتے یا موجود حکومت دو سال پہلے صفائی کا آغاز کر دیتی تو رینجرز‘ فوج یا کسی دوسرے ادارے کو ملوث ہونے اور ہدف تنقید بننے کی ضرورت نہ تھی۔
میاں نواز شریف نے اچھا کیا‘ سابق صدر سے ملاقات نہیں کی کیونکہ زرداری صاحب نے براہ راست اس آرمی چیف کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ جو جنرل کیانی کی طرح فوج کو سیاست سے دور رکھنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ویسے میری اطلاع کے مطابق دو تین روز بعد یہ ملاقات ضرور ہو گی۔ جنرل راحیل نے سابق آرمی چیف کیانی کے دو بھائیوں کے خلاف نیب کی تحقیقات میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی اور قوم توقع کر رہی ہے کہ ان کے دور میں بعض سابق جرنیلوں کے خلاف جی ایچ کیو‘ نیب اور ایف آئی اے میں پڑی فائلیں بھی اپنا سفر فطری رفتار سے شروع کریں گی۔ اگر میاں صاحب اس موقع پر زرداری صاحب سے ملتے تو آپریشن میں مصروف فوج اور کراچی کی صفائی میں مشغول رینجرز کو یہی پیغام جاتا کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو محض سیاسی مصلحتوں کی بنا پر لٹیروں اور ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
فاٹا سے کراچی تک ملک کو بند کرنے کی دھمکی دے کر زرداری صاحب نے اپنے کارکنوں کے علاوہ میاں نواز شریف کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ مایوس‘ دل شکستہ اور مسائل و مشکلات کا شکار کارکن زرداری صاحب کی اپیل پر ملک کیوں بند کریں گے؟ جبکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ یہ مال مسروقہ ہضم کرنے کی تدبیر ہے‘ جمہوریت کے استحکام کی سعی نہیں۔ جبکہ میاں صاحب فی الوقت پچھلے سال کے احسان کا بدلہ بصورت احسان چکانے کی پوزیشن میں نہیں‘ وہ ہزار مصلحت پسند سہی مگر زرداری صاحب کی خوشنودی یا چند لٹیروں بھتہ خوروں اور اغوا کاروں کی خاطر فوج سے بگاڑ سکتے ہیں نہ آپریشن کی ناکامی میں حصہ دار بننے پر آمادہ۔
رہی لوٹ مار میں ملوث فوجی جرنیلوں کی فہرستیں طشت از بام کرنے کی دھمکی تو اسے عملی شکل دینا ضروری ہے مگر یہ محض سودے بازی کی پیشکش نظر آتی ہے جو شاید موجودہ فوجی قیادت قبول نہ کرے کیونکہ جنرل راحیل شریف جنرل پرویز مشرف نہیں کہ این آر او پر آمادہ ہوں اور اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیں۔ اصولاً اور اخلاقاً سابق صدر کو یہ فہرست اس وقت منظر عام پر لانی چاہیے تھی‘ جب وہ ایوان صدر میں براجمان اور قومی مفادات کے محافظ تھے۔ اب مقصد حکومت اور فوج کو ڈرا دھمکا کر اپنی شرائط پر آمادہ مصالحت کرنا ہے‘ جو سیاست نہیں محض اور محض کاروباری انداز فکر ہے جو کسی کنڈولیزا رائس کے میسر آنے کی صورت میں ہی پروان چڑھ سکتا ہے۔
فوج کے لیے آپریشن سے پیچھے ہٹنا آسان ہے نہ رینجرز کے لیے کراچی میں پسپائی ممکن کیونکہ اگر سیاسی دبائو پر فوج یا رینجرز نے ایک قدم پیچھے ہٹایا تو پھر اسے کہیں کھڑے ہونے کو جگہ نہیں ملے گی۔ ''را‘‘ موساد اور ان کے سرپرست یوں چڑھ دوڑیں گے‘ جیسے کسی کمزور بھیڑ پر بھوکے بھیڑیے یا ہرن کے بچے پر خونخوار چیتے۔ فوج کو اشتعال دلانے کا مقصد اسے براہ راست سیاسی مداخلت پر آمادہ کرنا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح فوج سے معاملہ کرنا آسان ہو گا‘ وہ ہمارے دشمنوں کے علاوہ پاکستانی سیاستدانوں کے رحم و کرم پر ہو گی‘ جنہیں ہر فوجی حکومت کے بعد اقتدار میں آنے کا چسکا ہے یوں ان کی پرانی لوٹ مار بآسانی ہضم ہو جاتی ہے بلکہ ہیرو بننے کا موقع مل جاتا ہے اور لوٹ مار کا دیرینہ کاروبار نئے سرے سے شروع کرنے میں آسانی۔
زرداری صاحب نے پینڈورا بکس کھولا ہے اور میاں نواز شریف‘ جنرل راحیل شریف اور اپنی پارٹی کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ دیکھیں کون پہلے آنکھ جھپکتا ہے۔ جمہوریت کو خطرہ اب فوج سے نہیں‘ بلیک میلنگ کی سیاست سے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں