ایمبولینس چور

شاعر مشرق ؒ کو شیخ حرم سے شکوہ تھا ؎
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہراؓ
پاکستان میں مگر یہ کام ہمارے حکمرانوں، ان کے عزیز واقارب اور چیلے چانٹوں نے سنبھال رکھا ہے۔ گزشتہ روز ایف آئی اے نے مرد حرکے قریبی عزیز علی حسن زرداری کی اقامت گاہ پر چھاپہ مارا تو سیلاب زدگان کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کی غرض سے ملنے والی سات ایمبولینسیں برآمد ہوئیں جنہیں مسافر وین میں تبدیل کرکے مختلف روٹس پر چلایا جارہا تھا۔اب کراچی اور تھر میں اموات کی حقیقی وجہ معلوم ہوئی ہے۔
علی حسن زرداری کون ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟ کس کے بل بوتے پر ایک نہ دو پوری سات ایمبولینسیں مسافر وین میں تبدیل کرکے مختلف روٹس پر چلا رہے تھے، یہ سارے سوالات اہم ہیں مگر پورے پانچ سال تک اس مکردہ دھندے کی خبر ایف آئی اے اور دیگر ریاستی اداروں کو کیوں نہ ہوئی؟ اگر آپریشن ضرب عضب کی تکمیل کے لئے فوج لٹیروں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کا دائرہ سندھ اور بلوچستان تک وسیع نہ کرتی تو علی حسن سے کون پوچھتا؟
جس شخص نے مریضوں، زخمیوں اور مُردوں کی ہسپتالوں اور مردہ خانوں میں منتقلی کے لئے ملنے والی ایمبولینسوں کو مسافر وین میں تبدیل کرکے کمائی کا ذریعہ بنایا اسے خدا کا خوف دلانا عبث اور سنگدلی کا تذکرہ فضول ہے۔ جہاں جعلی ادویات اور زائد المیعاد ادویات فروخت کرنے کی آزادی ہو، قبرستانوں پر قبضے کی روایت زندہ و تابندہ،ناقص پل اور فلائی اوورتعمیر کرنا اور ناکارہ گیس سلنڈربیچنا روز مرہ کا معمول ہو، وہاں علی حسن زرداری ایمبولینس کو مسافر وین کے طور پر کیوں نہ چلائے کہ یہی اس معاشرے کا چلن ہے اور باعث صد افتخار۔ لوگ سٹیل ملز، ریلوے، پی آئی اے اور کئی دوسرے سرکاری ادارے ڈکار چکے ہیں، ڈھانچہ البتہ چھوڑ دیا ہے کہ ہاضمہ خراب نہ ہو۔ کے ڈی اے کے ایک ادنیٰ اہلکار نے گواہی دی کہ کراچی میں سرکاری اور نجی زمینوں پر قبضوں سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ دبئی میں اہم سیاسی شخصیت کو بھیجا جاتا تھا جبکہ اس سے پہلے لندن میں مقیم ایک اہم شخصیت کے حوالے سے ان کے ساتھی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ نہ صرف کراچی اور حیدر آباد میں بھتے اور اغوا برائے تاوان بلکہ بھارت سے موصولہ رقوم بھی اس کے اکائونٹس میں منتقل ہوتی رہیں۔
کراچی اور اندرون سندھ سے گرفتار ہونے والے سرکاری افسروں کے انکشافات پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی زینت بن رہے ہیں اور چند شخصیات زیر بحث ہیں ورنہ یہ کاروبار پورے ملک میں جاری ہے۔ کہیں قبرستان بااثر افراد کی رہائش گاہوں اور رہائشی کالونیوں کا حصہ بن چکے ہیں، کہیں سکول اور مراکز صحت ارکان اسمبلی اور وڈیروں کے ڈیرے یا جانوروں کے باڑے کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، کہیں بیت المال، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور معذوروں، پنشنروں، بوڑھوں کے لئے مختص فنڈز سیاسی کارکنوں، ووٹروں اور حکمرانوں کے چہیتوںمیں تقسیم کئے جارہے ہیں اور کہیں جان بچانے والی ادویات اور تھر کے لئے موصولہ کمبل اور سامان خورو نوش بازاروں میں فروخت ہو رہا ہے۔
یہ کام کوئی ایراغیر انتھو خیرا، معمولی درجے کا کوئی نو سر باز اور عادی چور نہیں کرتا بڑے بڑے بااثر دولت مند اور بااختیار لوگ کرتے ہیں، بزعم خویش خاندانی رئیس اور پشتینی مالدار کیونکہ وہی قانون کی گرفت سے بچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ریاست کا کوئی ادارہ ان سے باز پرس کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس مال حرام کی اس قدر فراوانی ہے کہ ان کی اگلی دس نسلیں اگر چاہیں تو ہاتھ پائوں ہلائے اور مزید لوٹ مار کئے بغیر عیش و عشرت کی زندگی بسر کر سکتی ہیں مگر حرص وہوس اور کثرت کی خواہش نے انہیں بائولا کر دیا ہے اور وہ صبح ، دوپہر ، شام اس مفلوک الحال ، لاغر اور بے آسرا قوم کا باقیماندہ خون چوسنے اور ملک کے بچے کھچے وسائل و اثاثے ٹھکانے لگانے میں مشغول ہیں۔
گزشتہ روز ایک ریٹائرڈ فوجی افسر دکھ سے بتا رہے تھے کہ فلاں علاقے میں سندھ ہائی کورٹ نے سرکاری رقبوں کی ملکیت تبدیل کرنے پر پابندی لگا دی ہے تاکہ زرداری صاحب نے ہر جگہ موجود سرکاری رقبے تھوک کے حساب سے کوڑیوں کے مول اپنے چہیتوں کو الاٹ کرنے کا جو وتیرہ اختیار کر رکھا ہے اس کی روک تھام ہو۔ یہ کاروبار عرصہ دراز سے جاری ہے، سندھ کے ایک سابق وزیر اعلیٰ جام صادق مرحوم نے کراچی میں جب ہر سرکاری پلاٹ اور عمارت من پسند افراد میں تقسیم کرنے کا آغاز کیا تو ایک دن مرحوم پیر صاحب پگاڑا نے ازرہ تفنن جام صاحب سے کہا : ''ذرا خیال کرنا، مزار قائد ؒ کسی کو الاٹ نہ کر دینا، یہ ہمارے لئے احترام کی جگہ ہے‘‘۔
سرکاری زمینوں کی لوٹ سیل لگانے والے جام صادق جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سکندر اعظم کی طرح ان کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور ان کی نوازشات بے جاسے مستفید ہونے والوں میں کئی نے نماز جنازہ میں شرکت بھی گوارا نہ کی۔ یہ اکیلے جام صادق کا المیہ نہیں خدا کو بھول کر خلق خدا کو آزار پہنچانے، جائز و ناجائز کی پروا کئے بغیر سرکاری وسائل خرد برد کرنے اور حلال و حرام کی تمیزروا رکھے بغیر نجی املاک، سرکاری اموال ذاتی و گروہی تصرف میں لانے والے ہر غاصب کو دوسرے لوگوں کی طرح خالی ہاتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہونا پڑتا ہے۔ مال و دولت ساتھ جاتی ہے نہ خدا م و حشم اور نہ لوٹ مار میں شریک ہالی موالی قبر میں دست گیری کرتے ہیں ؎
وہ بندے مٹ گئے نازک بہت اندام تھے جن کے
گلاب و مشک میں گوندھے ہوئے اجسام تھے جن کے
بہت بے آبرو ہو کر اٹھے دنیا کی محفل سے
زمانے میں بہت اعزاز اور اکرام تھے جن کے
کہیں بھولے سے کوئی نام اب لیتا نہیں ان کا
زبان خلق پر اذکار صبح و شام تھے جن کے
سکندر جب دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کرکے واپس یونان لوٹا تو مجذوب فلسفی دیو جانس کلبی کے پاس حاضر ہوا۔ مجذوب نے سکندر کو کھانے کے لئے تھال میں ہیرے جواہرات پیش کئے، سکندر ہکا بکا رہ گیا، کہا: ''میں یہ کیسے کھائوں‘‘؟ کلبی بولا ،میں تو سمجھا تھا کہ تم سونا چاندی کھانے کے عادی ہو، تبھی مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کو فتح کرنے نکلے ہو، اگر عام انسانوں کی طرح گندم کی روٹی، چاول اور سبزی گوشت ہی کھانے ہیں تو اس کے لئے پوری دنیا کو تاراج کرنے کی ضرورت نہیں، خلق خدا کو آزار پہچانے کا فائدہ ؟ یہ تو گھر بیٹھے آسانی سے مل سکتی ہے۔
لوٹ مار کا یہ کلچر اب فیش بن گیا ہے۔ حکمرانی کا مزہ لوٹ مار سے دوبالا ہوتا ہے اور قانون شکنی سے دو آتشہ۔ روک تھام کی ہر کوشش اب تک اس لئے ناکام رہی کہ عشروں سے ہم نے بعض افراد اور خاندانوں کو مقدس گائے بنا دیا ہے۔ ہر طرح کی مراعات کے حقدار، جملہ قوانین سے بالاتر، ہر دور کے لئے ناگزیر اور احتساب و مواخذے سے محفوظ ۔
سامری کے ان گئوسالوں کا ناپاک وجود ، بے تحاشہ کرپشن اور قانون شکنی ہمارے لئے قابل قبول بلکہ باعث افتخار ہے۔ اس سے ملک کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے نہ قوم کنگال، ہم پر بس ان کی پوجا واجب ہے کیونکہ ان میں سے کوئی وفاق کی علامت ہے اور کوئی جمہوری نظام کی بقا اور ملک کے استحکام کی ضمانت، بیس کروڑ عوام جائیں بھاڑ میں۔ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویراں کنند
جب اس قبیلے کا کوئی فرد مشکل میں ہو، اپنے کرتوتوں کے باعث قانون کی گرفت میں آئے اور سانحہ ماڈل ٹائون کے ارتکاب، چائنہ کٹنگ ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، سرکاری رقبوں کی چہیتوں کو الاٹ منٹ اور کے ڈی اے، محکمہ فشریز، محکمہ تعلیم، سٹیل ملز، پی آئی اے، ریلوے اور دیگر اداروں میں لوٹ مار کے جرم میں پکڑا جائے اور اپنے سرپرست کے کالے کرتوت اگل دے تو چاروں طرف سے ہمیں اندیشے گھیر لیتے ہیں، ملکی سلامتی اور وحدت خطرے میں محسوس ہونے لگتی ہے اور بسیار خور، عوام دشمن جمہوریت کا بوریا بستر گول ہونے لگتا ہے اور ہم ڈر کے مارے احتساب و مواخذے کی بساط لپیٹ کر مفاہمت و ملی بھگت کی داغدار چادر اوڑھ لیتے ہیں۔
کوئی یہ سوچنے پر آمادہ نہیں کہ ایمبولینس چور، سرکاری فنڈز خور اور قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک اکائونٹس اور اثاثے بڑھانے والے قومی وحدت ، سیاسی استحکام اور جمہوری بقاء کے ضامن نہیں، یہ ندیدے ملک کو کنگال اور عوام کو بدحال کرکے پاکستان کی چولیں ہلا دیتے ہیں۔ ان سے نجات میں ترقی و خوشحالی اور بقاء و استحکام کاراز پوشیدہ ہے، انسان کبھی ناگزیر تھا، ہے نہ ہو گا۔ بڑے بڑے قیصر و کسریٰ، فرعون و قارون اور ہلاکو و چنگیز تاریخ اور وقت نے اپنے پائوں تلے روند ڈالے، رفتار زمانہ سست نہیں ہوئی اور اس دنیا کا نظام پوری آب و تاب سے چل رہا ہے۔ آئندہ بھی چلتا رہے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں