شاباش

میاں نوازشریف گزشتہ روز سندھ حکومت کو شاباش دینے کراچی گئے تھے کیا؟ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا دعویٰ یہی ہے کہ وزیر اعظم سندھ حکومت کی کارگزاری سے مطمئن لوٹے۔
وزیر اعظم نے کراچی میں گرمی سے ہلاکتوں کے ذمہ دار اداروں کے احتساب کی بات کی‘ کراچی آپریشن منطقی انجام تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی اور صوبائی حکومت کی جائز شکایات دور کرنے کا وعدہ کیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم کراچی گئے کیوں تھے؟ جو باتیں اعلیٰ سطحی اجلاس میں ہوئیں وہ تو اسلام آباد میں بیٹھ کر بآسانی اور زیادہ سلیقے سے ہو سکتی تھیں۔
وزیر اعظم کے پاس اگر ہسپتالوں میں پڑے مریضوں کی عیادت اور ہلاکت شدگان کے پسماندگان سے افسوس کرنے کا وقت نہ تھا تو وہ کراچی کا رخ ہی نہ کرتے‘ کے فور منصوبے کی جلد تکمیل کے اعلان سے کیا متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھا گیا؟ کیا ذمہ داروں کا احتساب سندھ حکومت کرے گی جس کے سربراہ سید قائم علی شاہ نے اجلاس کے بعد کھل کر کہہ دیا کہ گرمی سے ہلاکتیں انسانی غلطی ہے نہ کسی ادارے کی کوتاہی۔ یہ قدرتی آفت ہے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔
وزیر اعظم کی بہ عجلت اسلام آباد واپسی پر اپنی عیادت کے منتظر مریضوں کا ردعمل کیا تھا؟ میڈیا نے اس پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ توجہ دیتا تو ممکن ہے کہیں کوئی دل جلا اسے گنگناتا مل جاتا ؎
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
کئی دن سے وزیر اعظم کی کراچی آمد کا چرچا تھا۔ قومی سانحات اور قدرتی آفات پر میاں نواز شریف کا ردعمل عموماً فوری اور ہمدردانہ ہوتا ہے۔ کئی بار انہوں نے اپنے غیر ملکی دورے تک ملتوی یا منسوخ کئے مگر کچھ عرصہ سے وہ سست روی کا شکار ہیں؎
ارادے باندھتا ہوں‘ سوچتا ہوں‘ توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے‘ کہیں ایسا نہ ہو جائے
کراچی میں بگاڑ وفاقی اور صوبائی حکومت کی اسی بے نیازی‘ بے عملی اور ناقص کارگزاری کا نتیجہ ہے ۔ ایم کیو ایم کے سوا کسی سیاسی جماعت نے شہری مسائل پر توجہ دی نہ حل کی تدبیر کی۔ ایم کیو ایم نے مسائل کاادراک کیا مگر کئی بار بلدیہ کراچی کا مکمل انتظام و انصرام سنبھالنے کے باوجود ڈھنگ سے کوئی مسئلہ حل نہیں کیا۔ ہر شہری ادارے میں اپنے کارکنوں کی بے تحاشہ بھرتی اور ''تنخواہ ادارے سے کام جماعت کا‘‘ کے اصول کی بنیاد پر سرپرستی سے حالات سدھرنے کے بجائے مزید خراب ہوئے۔ اتنے زیادہ کہ پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کے باسیوں کو امن میسر ہے نہ پانی‘ بجلی اور نہ سماجی انصاف۔
جب پانی کی ترسیل کا سرکاری نظام بھی حکمرانوں اور ان کے چہیتے کارکنوں کی آمدنی کا ذریعہ ہو زکوٰۃ و فطرانہ بھتہ اور وزیر اعظم کو کراچی آ کر کے خود منصوبے کی تکمیل کے لیے ہدایت جاری کرنی پڑے تو شہری اداروں اور صوبائی حکومت کی شرمناک کارگزاری کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے روبرو وزیر اعلیٰ نے وسائل کی کمی اور وفاق کی عدم توجہی کا رونا رویا مگر وزیر اعظم مروت‘ لحاظ یا مفاہمتی سیاست کے سبب بزرگوں سے یہ نہ پوچھ سکے‘ قبلہ! یہ جو 230ارب روپے سالانہ مختلف مدات میں لوٹ لیے جاتے ہیں اور کرنسی نوٹوں کی بوریاں بھر کر کبھی کسی ایان علی اور کبھی لانچوں کے ذریعے بیرون ملک بھیجی جاتی ہیں انہیں بجلی اور پانی کے منصوبوں پر خرچ کرنے میں رکاوٹ کون ہے وفاق‘ رینجرز یا فوج؟ ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔!
ہمارا اصل المیہ یہ ہے کہ انسانی جان کی قدرو قیمت ٹکے برابر نہیں۔ عسکریت پسندوں‘ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف کارروائی بھی اس بنا پر نہیں کی جاتی کہ یہ وحشی پرامن شہریوں کی جانوں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں اور مرد عورت‘ بوڑھا بچہ ان کی گولی‘ بم یا باروی جیکٹ کا نشانہ بنتا ہے۔ یہ لوگ جب ریاست اور حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے اور حکمران اشرافیہ کے عیش و عشرت میں خلل ڈالتے ہیں تو گردن زدنی ٹھہرتے ہیں اور جب یہ اشرافیہ کے لیے خطرہ نہیں رہتے تو ان کے خلاف ہر آپریشن یکایک بند ہو جاتا ہے۔
اگر معصوم انسانی جانوں کا اتلاف جرم ہوتا اور ریاست یا حکومت کو عام شہری کی جان کی فکر ہوتی تو جعلی اور جان لیوا ادویات کا کاروبار حکمرانوں اور ان کے چہیتوں کی مرضی اور بیورو کریسی کی اجازت سے پھل پھول نہ رہا ہوتا۔ کراچی میں پانی کی بوند بوند مہنگے داموں نہ بکتی۔ جگہ جگہ منشیات فروش اور اسلحہ سمگلر موت نہ بانٹ رہے ہوتے۔ سرکاری ایمبولینس مسافر وینوں کے طور پر استعمال کرنے والوں کو یوں کھلی چھٹی نہ ملتی۔ اگر بھوک کا ستایا کوئی غریب آدمی کسی امیر کے کتے کے بسکٹ بھی چوری کر لے تو سخت سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے اور کوئی شاہ زیب اپنی کنواری بہن کو چھیڑنے پر کسی امیر زادے سے احتجاج کی گستاخی کر بیٹھے تو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے مگر عوام کے ووٹوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے اور قومی خزانے سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والے خود موت بانٹیں ‘ جان لیوا بھوک پیاس یا غربت اور بیماریاں ان سے باز پرس ہو سکتی ہے نہ انہیں انسانی جانوں کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی طرح سنگین جرم کی عبرت ناک سزا ملتی ہے۔
گزشتہ روز گوجرانوالہ کے قریب ایک ٹرین حادثے کا شکار ہوئی۔ پل ٹوٹا یا کسی نے تخریب کاری کی؟ بے لاگ تحقیقات سے پتہ چلے گا مگر اس سے پہلے ٹرینوں کے جو حادثات ہوئے ان میں سے کسی ایک کے ذمہ دار کو کبھی سزا ملنے کی خبر آئی؟ لاہور‘ سرگودھا اور وہاڑی میں جعلی مضر صحت ادویات‘ صحت مراکز میں ناکافی سہولتیں اور طبی عملے کی غفلت کی وجہ سے درجنوں اموات ہوئیں کوئی ذمہ دار کیفر کردار تک پہنچا؟ کلر کہار‘ قصور اور گجرات میں کھٹارا سکول بسوں اور وینوں کے حادثات میں درجنوں معصوم طالب علم جان کی بازی ہار گئے۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ اتفاقی حادثات کے بجائے لالچی مالکان‘ اناڑی ڈرائیوروں اور بے حس سکول انتظامیہ کی غلطی کا نتیجہ ہے مگر آج تک کسی کو خبر نہیں کہ آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے حکومت اور انتظامیہ نے کیا کیا؟ کھٹارا بسیں ‘ ویگنیں ‘ ناقص گیس سلنڈر اور اناڑی ڈرائیورہر روز ہر جگہ نظر آتے ہیں کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔
کراچی میں بارہ سو سے زائد انسانوں کی ہلاکت کو جب وزیر اعلیٰ سندھ محض قدرتی آفت قرار دیتے ہیں تو لوگوں کا ذہن تھر میں خشک سالی‘ قحط اور کم غذائیت سے مرنے والے سینکڑوں انسانوں اور ہزاروں مویشوں کی طرف جاتا ہے جس کا ملبہ شاہ سائیں نے قدرت پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لی تھی۔ کسی نے اس وقت پوچھا نہ اب پوچھنے کا روادار ہے۔ کہ حضور قدرت آپ ہی کے دورہمایونی میں اتنی نامہرباں کیوں ہوتی ہے۔ قدرتی آفت کا شکار ہونے والوں کی دستگیری فوج‘ فلاحی تنظیمیں اور غیر ملکی این جی اوز ہی کرتی ہیں؟ کیا اس کے ذمے صرف لوٹ مار اور لٹیروں کا تحفظ ہے ‘ جرائم کی آبیاری اور مجرموں کی سرپرستی؟
کوئی مانے نہ مانے موجوہ سیاسی اور معاشی نظام کے علاوہ انتظامی ڈھانچہ اس قدر فرسودہ‘ عوام دشمن اور نااہلی کا شکار ہے کہ یہ قدرتی آفات کا مقابلہ سلیقے سے کر سکتا ہے نہ جرائم پیشہ عناصر سے نمٹنے کے قابل۔ ہر قدرتی آفت سے مالی و سیاسی فائدہ اٹھانے اور جرائم پیشہ عناصر سے حصہ رسدی وصول کرنے میں اس کا البتہ کوئی ثانی نہیں۔ ترک خاتون اول کے ہار کا قصہّ سب کو معلوم ہے سنگدل وزیر اعظم نے اسے بھی مال مسروقہ تصور کیا آنکھ کی شرم نہ مہمان کی حیا اور نہ ملکی عزت و آبرو کا لحاظ۔ یہی طرز حکمرانی اور سیاسی کلچر ملک بھر میں فروغ پذیر ہے۔
وزیر اعظم کی نیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ ہے نہ ان کی عوام دوستی مشتبہ مگر خربوزوں کی رکھوالی پر گیدڑوں کو بٹھا کر جب وہ احتساب‘ اصلاح احوال اور متاثرین سے ہمدردی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں تو عام آدمی کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں یہ غریب خور نظام اور اس کے سنگدل محافظ اگر عوام کا دکھ درد محسوس کر سکتے تو نوبت یہاں تک کیوں پہنچتی اور انسان کیڑے مکوڑوں کی طرح کیوں مرتے ؎
کوئی چارہ ساز ہوتا‘کوئی غمگسار ہوتا
اس مکروہ سیاسی‘ معاشی انتظامی ڈھانچے کی سرجری اور اس کے محافظوں کی بلا لحاظ سرکوبی کے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ آئین میں وسیع پیمانے پر تطہیر و مواخذے کی گنجائش نہیں‘ ماورائے آئین اقدام ریاست سے بغاوت اور غداری ہے۔ تو پھر اس درد کا درماں کیونکر ہو؟ کوئی نہیں سوچتا کہ آئین کی جس شق کے تحت ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری‘ اغوا کاری‘ لوٹ مار‘ اقتصادی دہشت گردی حتیٰ کہ بھارت سے وفاداری اور پاکستان سے غداری جائز و جاری ہے اس کی ذیلی شق شمالی وزیرستان سے تربت اور کراچی سے ماڈل ٹائون تک آپریشن کلین اپ کا تقاضہ کرتی ہے۔Tit For Tatایسے کو تیسا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں