’’مٹی پائو‘‘

میں گزشتہ تین روز سے الطاف حسین کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آرز کی گنتی میں مصروف ہوں۔ تادم تحریر ان کی تعداد سو ہو چکی ہے۔ اس مہم کا مقصد کیا ہے؟ سمجھ اب تک نہیں آئی۔ کوئی تھانیدار ،درج ایف آئی آر کی بنا پر الطاف بھائی کو گرفتارکر سکتا ہے؟
چلو گرفتاری تو مشکل ہے کہ موصوف سات سمندر پار بیٹھے اگلے خطاب کی تیاری کر رہے ہیں، جس میں معلوم نہیں کس کی کم بختی آئے گی ۔کسی میں ہمت ہے کہ وہ ایف آئی آر کی بنا پر تفتیش آگے بڑھا سکے؟ آخر مفرور ملزموں کے خلاف بھی تو کارروائی ہوتی ہے... ایڈمرل منصورالحق ‘ توقیر صادق اور رضوان حبیب کے خلاف ان کی عدم حاضری میں کارروائی ہوئی اور بالآخر انٹر پول یا کسی دوسرے ادارے کی مدد سے انہیں پاکستان واپس لایا گیا۔ مگر الطاف بھائی؟ 
پاکستان میں سیاست ریاست پر غالب آ چکی ہے اور ہر ادارہ سیاسی مصلحتوں کی چادر اوڑھے پاکستان کی درگت بنتے دیکھ رہا ہے۔ الطاف بھائی نے جو کچھ کہا وہ سابق صدر آصف علی زرداری کے فرمودات سے مختلف نہیں بلکہ زرداری صاحب کا جوش خطابت زیادہ زوردار اور قابل اعتراض تھا۔ مگر ہوا کیا ؟میاں نواز شریف چپ رہے‘ نثار علی خان اور خواجہ آصف نے سیاسی نوعیت کے بیانات جاری کئے اور کسی کے اشارے پر انہیں صدارتی پروٹوکول کے ساتھ بیرون ملک روانہ کر دیا گیا۔ 
1998ء میں جب ایس جی ایس‘ کوٹیکنا کیس کے علاوہ بدعنوانی اور اختیارات سے تجاوز کے دیگر مقدمات میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا گھیرا تنگ ہوا اور نظر آنے لگا کہ میاں نواز شریف کے دست راست سیف الرحمن سابق وزیر اعظم کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کے درپے ہیں تو اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری شجاعت حسین کے مشورے اور در پردہ اعانت سے محترمہ بیرون ملک چلی گئیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ جام صادق نے 1992ء میں یہی سہولت الطاف حسین کو فراہم کی ۔
1993ء میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل (ر) جہانگیر نصراللہ نے اُس اخبار کے ادارتی بورڈ کو تفصیلی بریفنگ دی تھی جس سے راقم ان دنوں منسلک تھا‘ موضوع گفتگو میاں نواز شریف کا استعفیٰ اور معین قریشی کی زیر نگرانی عبوری حکومت کا قیام تھا۔ ان دنوں آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ انہوں نے صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کی چھٹی کرائی؛ تاہم دوران گفتگو ڈی جی آئی ایس پی آر نے کراچی آپریشن کی ناکامی یا ادھورے پن کی ذمہ داری سیاسی حکومت پر عائد کی جو فوج کو کراچی آپریشن کی ذمہ داری سونپنے کے بعد تذبذب اور بے دلی کا شکار ہو گئی۔ ان کے بقول وفاقی وزیر جھنڈے والی کار میں عزیز آباد جا کر حساس فیصلے افشا کرنے لگے اور میاں صاحب کے قریبی ساتھی نے پریس کانفرنس میں آپریشن کو اختیارات سے تجاوز قرار دے کر سکیورٹی اداروں کی حوصلہ شکنی کی۔ان کا اشارہ نثار علی خان اور غلام حیدر وائیں مرحوم کی طرف تھا۔
کراچی آپریشن کا غلغلہ بلند ہوا تو ماضی کے حالات و واقعات سے کلی طور پر آگاہ اور سیاست کو ریاست پر ترجیح دینے والے سیاسی نابغوں کے انداز فکر سے واقف جذباتی پاکستانیوں کے ذہنوں میں ماضی کی طرح وسوسوں نے جنم لیا اور وفاقی و صوبائی حکومت کے عزم و ارادہ کے علاوہ اہلیت و صلاحیت کے حوالے سے بعض سوالات اٹھے۔ جب تک یہ آپریشن طالبان اور لیاری گینگ وار کے خلاف چلتا رہا کسی نے اعتراض کیا نہ سیاسی انتقام کا شور مچایا مگر جونہی جرم اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کرنے اور بھتہ خوروں‘ اغوا کاروں‘ ٹارگٹ کلرز اور بھارتی ایجنٹوں کی باری آئی‘ رینجرز اور فوج 1992ء کی طرح سیاسی تنقید کا ہدف بن گئی۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ آپریشن کو اندر اور باہر دونوں طرف سے متنازع بنانے کی کوششیں عروج پر ہیں اور مختلف نوعیت کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں مگر وفاقی حکومت کبھی قائم علی شاہ کی طرف دیکھتی ہے کبھی برطانوی حکومت کی طرف۔ گویا خواہش اس کی یہ نظر آتی ہے کہ اگر برطانیہ الطاف بھائی کے خلاف کوئی کارروائی کرتا ہے تو چشم ماروشن دل ماشاد‘ سندھ حکومت رینجرز سے تعاون کرتی ہے تو ہم خوش‘ ہمارا خدا خوش لیکن ہم خود کوئی ایسی کارروائی نہیں کریں گے جس سے آصف علی زرداری کی مفاہمتی سیاست کو نقصان پہنچے اور سیاسی قوتیں ایک بار پھر محاذ آرائی میں الجھ کر اپنی منزل کھوٹی کریں۔
وزیر داخلہ نثار علی خان نے ایک بیان میں الطاف حسین کے خطاب کی مذمت کی ‘ برطانیہ سے بات کرنے کا عندیہ ظاہر کیا اور پھر چپ ہو گئے۔ برطانیہ میں نفرت انگیز تقاریر پر پابندی ہے اور 1986ء کے پبلک آرڈر کے تحت نفرت انگیز تقاریر کرنے اور مفسدانہ مواد پھیلانے والے افراد اور گروہوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ 2001ء سے 2012ء کے دوران ہیری ہیمنڈ‘ سٹیفن گرین‘ ڈیلے میک الپائن ‘ ہیری ٹیلر اور دیگر کئی افراد گرفتار اور سزا یاب ہوئے۔ مگر الطاف حسین نے کسی برطانوی رنگ‘ نسل‘ زبان اور عقیدے کے حوالے سے کوئی نفرت آمیز مہم چلائی ہے نہ برطانوی حکومت بالخصوص ایم آئی سکس کو ان پر اعتراض ہے‘ تقریریں وہ پاکستانی اداروں کے خلاف کرتے ہیں، کارروائی کی توقع ہم برطانیہ سے کرتے ہیں جس کا یہ درد سر نہیں ۔
ملک کا سب سے بڑا اور سنگین ایشو نفرت انگیز تقاریر نہیں جس پربیان بازی ہو رہی ہے۔''را‘‘ سے رابطوں‘ بھارتی مالی امداد اور ٹریننگ کے الزامات ہیں مگر یوں نظر آتا ہے کہ ہمارے حکمران اور ادارے ایک بار پھر ٹریپ ہو رہے ہیں۔ تقریر ٹھوس شواہد پر غالب آ گئی ہے، انہیں ایک بار پھر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا ہے۔ مٹی پائو کی پالیسی پھر طاقت و اقتدار کے ایوانوں میں غالب آ گئی ہے۔ جب چودھری شجاعت حسین نے ایک بار کسی معاملے پر ''مٹی پائو‘‘ کی بات کی تو ان کا خوب مذاق اڑایا گیا مگر حکومت فوجی ہو یا سول‘ پالیسی اس کی یہی ہوتی ہے جو گجرات کے یملے جٹ نے بیان کی تھی۔
کسی کو یاد ہے کہ اس ملک میں ایڈمرل (ر) منصور الحق‘ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی‘ جنرل (ر) سعید الظفر‘ مخدوم امین فہیم ‘ توقیر صادق‘ ایاز خان نیازی‘ انجم عقیل خان‘ راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی سمیت کئی ریٹائرڈ فوجی جرنیل‘ بیورو کریٹس اور سیاستدان مالی بدعنوانی ‘ خرد برد اور اختیارات سے تجاوز کے الزامات کے تحت نیب کو مطلوب تھے‘ گرفتار ہوئے‘ بعض بیرون ملک سے وطن واپس آئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ سپریم کورٹ مہینوں صرف انہی مقدمات کو سن رہی تھی مگر اب یہ سب قصہ پارینہ ہیں، لوٹ مار کا ہرنیا اور حیران کن واقعہ پچھلے واقعات پر مٹی ڈال دیتا ہے۔
نیب نے ڈیڑھ سو میگا سکینڈلز اور ایک سو شرفا کی جو فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی ہے اس پر بھی کسی نہ کسی دن مٹی ڈال دی جائیگی اور الطاف بھائی کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آرز کا حشر بھی 11مارچ کی تقریر کے خلاف درج کرائی جانے والی ایف آئی آرز سے شائد مختلف نہ ہو۔ ہم آپ صرف ان کا حوالہ دے کر سینہ کوبی میں مصروف رہیں گے۔ کسی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج معمولی بات نہیں۔ ایک ایف آئی آر ملک کے طاقتور وزیر اعظم کو پھانسی کے پھندے تک پہنچانے کے لیے کافی ہے مگر نیت اور ارادہ نہ ہو تو درجنوں بلکہ سینکڑوں ایف آئی آرز محض ردی کا ڈھیر ہیں، آپ جتنا چاہیں اس میں اضافہ کر لیں۔
ہمارے حکمرانوں‘ سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ طرز عمل سے ریاست مذاق بن گئی ہے اور سیاست جرائم پیشہ افراد اور گروہوں کی ڈھال‘ ریاستی اداروں کے ساتھ مزاحمت کی موجودہ روش، قانون شکنی اور بغاوت کے رجحانات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور ملک دشمن عناصر بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے پاس اب کامیابی کے سوا کوئی آپشن نہیں اور ایک بھی قدم پیچھے ہٹنا ان کے لیے ناممکن و محال ہے۔ یہ شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان والی کیفیت ہے۔
موجودہ بے ننگ و نام‘ عوام دشمن و آدم خور سیاسی ڈھانچہ آپریشن کی کامیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے بلکہ بار بار رکاوٹ بن رہا ہے۔ رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات میں توسیع کے حوالے سے کراچی میں جو ڈرامے بازی ہوئی وہ اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ موجودہ تفتیشی اور عدالتی نظام مجرموں کا مددگار ہے۔ عامر خان اور ایان علی کی ضمانت پر رہائی اس کا ثبوت ہے اور دیگر بھی اس امید پر زندہ ہیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا تھا مگر وہ عدالتی حکم پر معطل ہیں جس کی وجہ سے آپریشن کی کامیابی کے خواہاں حلقوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ مایوسی کا شکار بعض حلقے اس صورتحال سے تصادم کی بو سونگھ رہے ہیں کیونکہ موجودہ پارلیمانی نظام اور کرپٹ انتخابی ڈھانچہ قومی مفادات کے تحفظ میں ناکام اور جرائم پیشہ گروہوں کا ممدو معاون ثابت ہو رہا ہے۔ اس شر سے خیر کا ظہور کس طرح ہو گا؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں