اتنے فریب کھائے ہیں

پاکستان میں احتساب کا ذکر ہو تو عندلیب شادانی یاد آتے ہیں اردو کے نغز گو شاعر؎
اتنے فریب کھائے ہیں دل نے کہ اب مجھے
ہوتا ہے جوئے آب پہ دھوکا سراب کا
احتساب کا غلغلہ پہلی بار فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں بلند ہوا پھر ضیاء الحق نے اس کی آڑ میں انتخابات ملتوی کئے۔ اس زمانے میں سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹس بالعموم قومی خزانے کو لوٹنے کا تصور کرتے تھے‘ نہ ندیدوں کی طرح قومی وسائل پر جھپٹتے۔ اس کے باوجود کئی سیاستدان اور بیوروکریٹ احتساب کی زد میں آئے۔
1980ء کے عشرے سے شروع ہونے والی لوٹ مار چونکہ اربوں کھربوں پر محیط ہے‘ اس لیے پچاس اور ساٹھ کے عشرے میں ہزاروں کی کرپشن‘ کرپشن نہیں لگتی اور اس دور کے جن سیاستدانوں اور ان کے نمکخوار و وفادار بیوروکریٹس پر کرپشن کا الزام لگا‘ وہ معصوم لگتے ہیں۔ جس دور میں قومی بجٹ کروڑوں میں تھا‘ بدعنوانی لاکھوں سے زیادہ کی نہیں ہو سکتی تھی‘ جب اربوں میں ہوا تو کروڑوں روپے لوٹے گئے اور چالیس کھرب سالانہ کے بجٹ سے اربوں لوٹنے کا رواج پڑا۔
متروکہ املاک پر قبضے‘ جعلی الاٹ منٹس اور پرمٹ سے آغاز ہوا جو دھیرے دھیرے سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے‘ او جی ڈی سی ایل‘ تھرمل پاور پروجیکٹس‘ آئی این سی ایل‘ نندی پور‘ ٹڈاپ اور قائد اعظم سولر پارک کو اپنی لپیٹ میں لیتا چلا گیا۔ بادشاہ نے باغ سے زبردستی انار توڑ کر کھایا‘ تو اس کے نورتن درخت اکھاڑنے پر تُل گئے۔ اچھائی ہو یا برائی‘ اوپر سے نیچے کا سفر تیزی سے طے کرتی ہے‘ عربی میں کہتے ہیں الناس علیٰ دین ملوکہم۔ لوگ اپنے بادشاہ کے راستے پر چلتے ہیں۔
جنرل ضیاء الحق‘ میاں نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف نے احتساب کا نعرہ لگایا۔ عوام نے لبیک کہا مگر یہ بالعموم اپنے مخالفین کی سرکوبی کے لیے استعمال ہوا۔ جو شخص حکمران کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گیا‘ اس کے سات کیا ستر خون معاف۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں تھانہ سرور روڈ‘ اڈیالہ اور کورنگی جیل کو ڈرائی کلیننگ فیکٹریوں کے طور پر استعمال کیا گیا‘ بعض لوگ یہاں سے نہا دھو کر سیدھے پارلیمنٹ ہائوس پہنچے اور حسب توفیق وزارت مشاورت سے سرفراز ہوئے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے این آر او سے تو محاورتاً نہیں حقیقتاً ستر ستر اسّی اسّی بے گناہوں کے قاتلوں کو چھٹکارا مل گیا۔ بعض خوش نصیبوں کو ان شاندار کارناموں پر وزارت‘ مشاورت اور دیگر اعلیٰ عہدوں سے بھی نوازا گیا‘ اربوں روپے ہضم کرنے والے اب ڈھٹائی سے نعرہ لگاتے ہیں‘ ہم مجرم تھے تو کسی عدالت نے سزا کیوں نہ دی‘ ہمیں فلاں عہدہ کیسے مل گیا؟ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن۔
پرویز مشرف اب این آر او پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اس ننگ ملت‘ ننگ دین‘ ننگ وطن کالے قانون کو اپنی غلطی قرار دیتے ہیں مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت۔ این آر او نے قاتلوں‘ لٹیروں اور حرام خوروں کے صرف سنگین جرائم معاف نہ کیے بلکہ انہیں زیادہ دیدہ دلیری سے مزید لوٹ مار اور قتل و غارت کا موقع فراہم کیا۔ 2008ء سے 2013ء کے دوران پاکستان جہنم بنا رہا دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری‘ اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم این آر او کا ثمر ہیں۔ 
سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف 1997ء کی طرح لٹیروں کے احتساب اور قومی دولت کی واپسی کا نعرہ بلند کر کے اقتدار میں آئے۔ میاں شہباز شریف جذباتی انداز میں علی بابا چالیس چوروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور لاہور کے بھاٹی چوک میں لٹکانے کا وعدہ بھی کیا کرتے تھے‘ مگر حکومت سنبھالنے کے بعد شاید انہیں احساس ہوا کہ بلا تفریق احتساب میثاق جمہوریت سے متصادم اور این آر او مارکہ جمہوریت کی نفی ہے۔ وطن عزیز میں لوٹ مار‘ قومی وسائل پر حلوائی کی دکان سمجھ کر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے کا رواج اور اقربا پروری و دوست نوازی کا کلچر ختم ہو گیا تو حکمرانی کا مزہ آئے گا نہ فرینڈلی اپوزیشن کا تعاون ملے گا۔ من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو کی ریت روایت ختم ہو گئی تو گلشن کا کاروبار چل پائے گا‘ نہ حکمرانی پھولوں کی سیج رہے گی‘ کانٹوں کا بستر بن جائے گی؛ چنانچہ احتساب کی بساط لپیٹ کر مفاہمتی سیاست کو آگے بڑھایا گیا اور دو سال تک نیب ایک طرف بیٹھ کر مزے سے دہی کے ساتھ کلچہ کھاتی رہی۔
آپریشن ضرب عضب کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے نیشنل ایکشن پلان بنا تو پتہ چلا کہ کرپشن کا سدباب کئے بغیر دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کا خاتمہ ممکن نہیں کیونکہ پولیس ناکے‘ ایئرپورٹ اور بس اڈہ پر کرپشن ہی دہشت گرد اور سہولت کار کو آسانی سے آمدورفت کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ حوالات اور جیلوں میں بیٹھ کر نیٹ ورک کرپشن کے زور پر چلتے ہیں اور شہری آبادیوں میں‘ سرکاری دفتروں میں سہولت کار کرپشن کے طفیل براجمان ہیں۔ کرپٹ اشرافیہ اور دہشت گرد پُرامن بقائے باہمی کے اصول پر برسوں سے عمل پیرا ہیں اور عام آدمی کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ پولیس اہلکار‘ سرکاری افسر اور جاگیردار‘ وڈیرے‘ سرمایہ دار کسی کے ہاتھوں اس کی جان و مال‘ عزت و آبرو محفوظ نہیں۔ 
صرف سہولت کار پکڑے گئے تو اربوں کھربوں کی لوٹ مار سامنے آئی۔ کل کے چپڑقناتیے اور فُقرے لندن‘ سپین‘ دبئی‘ ملائشیا اور آسٹریلیا میں اثاثوں اور بینک اکائونٹس کے مالک بن چکے ہیں اور پاکستان وہ صرف حکمرانی اور لوٹ مار کے لیے آتے ہیں۔ اچھی طرح چھان بین ہوئی تو شاید یہ بھید کھلے کہ ملک میں بدامنی کے پیچھے یہی لٹیرے ہیں تاکہ لوگ اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانے میں لگے رہیں‘ ان کی لوٹ مار پر توجہ نہ دے سکیں۔ یہ ان کے بیرون ملک قیام اور کاروبار کا جواز بھی ہے۔
آپریشن کرنے والوں کی انگیخت اور اشارے پر گزشتہ روز نیب نے پھر جھرجھری لی اور بعض سرکاری افسروں کے علاوہ سابق وزیروں‘ مشیروں کے خلاف قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں یہ کام تین چار ماہ سے جاری ہے مگر عام تاثر یہ ہے کہ اب تک کارروائی صرف ان لوگوں کے خلاف ہوئی جنہوں نے پیسٹری کھائی یا کیک پر ہاتھ ڈالا۔ پوری بیکری بلکہ بیکریوں کی چین صاف کرنے والوں سے تعرض کیا جا رہا ہے نہ کرنے کا ارادہ ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی طرف سے جانبداری اور تفریق کا الزام لگ رہا ہے جو احتساب کرنے والے اداروں کے علاوہ آپریشن کی ساکھ کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
عوام تو ان جزوی نوعیت کی کارروائیوں سے بھی خوش ہیں؎
دیر لگی آنے میں تجھ کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا‘ ویسے ہم گھبرائے تو
مگر دیدہ وروں‘ کچھ کر دکھانے کے خواہش مندوںکو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اب پکا بندوست کرنا چاہیے۔ کسی کو مظلوم بننے دیا جائے نہ شہید۔ کسی نے بیکری ہڑپ کی ہے یا کیک اور پیسٹری کا سواد لیا ہے اسے قانون کے کٹہرے میں لانا نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کے لیے شرط اوّل ہے۔ چھوٹا جرم ہی بڑے جرم کی راہ ہموار کرتا اور معمولی نوعیت کا رشوت خور‘ بلیکیا اور ڈیفالٹر بالآخر بینکوں‘ کوآپریٹو اداروں اور قومی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنے کی سوچتا ہے۔ پیسہ ایمان اور مقصد حیات بن جائے تو پھر دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری سے حاصل ہو یا اغوا برائے تاوان‘ مہران بینک اور ''را‘‘ سے جھجک باقی نہیں رہتی۔ یہ جھجک ختم ہو چکی ہے۔ شرم و حیا باقی نہیں رہی۔ بے رحم احتساب کا کوڑا ہی یہ جھجک‘ شرم و حیا واپس لا سکتا اور نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ نیب کی مگر پیسٹری کھانے والوں پر نظر ہے۔ یہ 'کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے‘ والی کارروائی ہو گی۔ گناہ بے لذت۔
اتنے فریب کھائے ہیں دل نے کہ اب مجھے
ہوتا ہے جوئے آب پہ دھوکا سراب کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں