شہید کیپٹن اسفند کے والد کی خواہش

پاکستان کے دشمنوں اور ریاست سے برسر پیکار دہشت گردوں نے ایک بار پھر کاری ضرب لگائی۔ پشاور کے قریب بڈھ بیر ایئر بیس کیمپ تک دہشت گردوں کی رسائی بذات خود لمحہ فکریہ ہے۔ یہ کوئی خلائی مخلوق نہیں تھی جو آسمان سے سیدھی کمپائونڈ میں اتری اور 29زندہ انسانوں پر بم اور گولیاں برسا کر کوئیک ریسپانس فورس کی جوابی کارروائی کا نشانہ بن گئی۔
دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کے بعد فوج تو اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ شمالی وزیرستان ‘ خیبر ایجنسی اور دوسرے مقامات پر کارروائیوں کا آغاز کیا اور دہشت گردوں کو نہ صرف ٹھکانوں سے نکالا بلکہ ان کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بھی تباہ کر دیا مگر یہ کسی ایک محاذ پر لڑی جانے والی جنگ نہیں تھی‘ شہر و دیہات میں ہر جگہ لڑائی کی ضرورت روز اوّل سے عیاں تھی۔ قائد اعظم نے تحریک پاکستان کی جدوجہد کے دوران فرمایا تھا: ''ہم جنگلوں اور صحرائوں‘ سمندر اور دریائوں اور مشرق و مغرب میں اپنی جنگ لڑیں گے‘‘۔ ایسی ہی جنگ ہم نے اب چھیڑ رکھی ہے مگر جنگ لڑنے کے لیے درکار جامع حکمت عملی یعنی نیشنل ایکشن پلان کے صرف اسی حصے پر عمل ہو رہا ہے جو فوج کی ذمہ داری ہے۔ اللہ اللہ خیر سلاّ۔
پولیس اور انتظامیہ ‘ سراغرسانی کا سول نظام‘ شہری ادارے اور عوام کو صحیح معنوں میں تیار کیا گیا ہے نہ متحرک۔ 1965ء کی جنگ میں معاشرے کا ہر طبقہ اور ریاست کے ہر شعبے نے فعال کردار ادا کیا تو ہمارے جاں بازوں اور سرفروشوں نے سر دھڑ کی بازی لگا دی۔ 1965ء میں لکھے اور گائے گئے قومی نغمے اور ترانے آج تک قلب کو گرماتے‘ روح کو تڑپاتے اور کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ از دل خیزد بر دل ریزد۔ 
سرکاری سطح پر بار بار اعلان ہوتا ہے‘ ہم حالت جنگ میں ہیں مگر دوران جنگ ریاستی اداروں کی خرمستیوں میں کوئی کمی آئی ہے نہ ان کی اہلیت و صلاحیت اور کار گزاری بڑھانے کی شعوری کوشش ہوئی اور نہ حکمرانوں اور ان کے چمچوں کڑچھوں کے مشاغل میں تبدیلی کا اشارہ ملتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نیکٹا کو فعال کرنے اور دہشت گردوں کے مالیاتی سہولت کاروں سے نمٹنے کے لیے سویلین اداروں کو جس عزم و ہمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے وہ بھی عنقا ہے۔
ممبئی واقعہ ہوا تو بھارت نے مظلومیت کی چادر اوڑھ کر پوری دنیا میں واویلا کیا اور گزشتہ سات سال سے اس کی آڑ میں پاک بھارت مذاکرات معطل کر رکھے ہیں۔ ہمارے ہاں اس دوران ممبئی واقعہ سے بڑے‘ سنگین اور دلخراش سانحات وقوع پذیر ہوئے، سینکڑوں لاشیں گریں اور کیپٹن اسفند یار جیسے کئی جوہر قابل رزق خاک ہو گئے مگر مجال ہے کہ ہم نے بین الاقوامی سطح پر کوئی مہم چلائی ہو۔ امریکہ‘ بھارت اور افغانستان سے اس انداز میں بات کی ہو جو بھارتی حکمرانوں اور سفارت کاروں کا شیوہ ہے۔
نریندر مودی ہی نہیں کم و بیش تمام بھارتی حکمران اور سیاستدان کوتلیہ چانکیہ کے پیرو کار ہیں۔ 300ق م میں لکھی جانے والی اپنی شہرت یافتہ کتاب ارتھ شاستر میں کوتلیہ چانکیہ نے بادشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ ''حریف کو داخلی اور خارجی فسادات میں مبتلا رکھنا چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ خود جہاں تک ہو سکے ان حالات سے بچا جائے۔ تاہم اگر بدقسمتی سے ایسے حالات پیش ہوں تو ان کے تدارک کا فوری انتظام ناگزیر تصور کرنا چاہیے‘‘۔
بھارت ان دنوں کوتلیہ چانکیہ کی اس نصیحت پر عمل پیرا ہے۔ سوئے اتفاق کہ اسے افغانستان میں پرجوش حلیف مل گئے ہیں اور وہ فوج کے علاوہ خفیہ ایجنسیوں میں حد درجہ موثر ہیں ۔ گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ نے انکشاف کیا کہ بڈھ بیر میں برسر پیکار دہشت گردوں کو افغانستان سے ہدایات مل رہی تھیں؛ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ اس میں حکومتی عناصر ملوث ہیں۔ کراچی میں ''را‘‘ کے متعدد ایجنٹ اور اسلام آباد میں افغان خفیہ ایجنسی کے اہلکار گرفتار ہو چکے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے افغان سرزمین استعمال کر رہا ہے۔
ممبئی حملہ کے بعد جب بھارتی میڈیا میں اجمل قصاب کو پاکستانی شہری ڈیکلیئر کیا گیا تو بھارتی حکومت نے پوری دنیا میں طوفان بدتمیزی برپا کیا اور امریکہ تک نے پاکستان پر دبائو بڑھا دیا‘ مگر ڈی جی آئی ایس پی آر کے انکشاف کے بعد کسی وزیر‘ مشیر اور حکومت کے میڈیا مینیجر کا کوئی بیان‘ تبصرہ اور احتجاج سامنے آیا؟ کیوں؟ کیا 29بے گناہوں کی شہادت پر ہم سرد مہری کا شکار ہیں‘ ہمارے دل سخت‘ زبانیں گنگ اور دماغ مفلوج ہو گئے اور حکومت کے اعلیٰ و ادنیٰ عہدیدار اپنے سابقہ معمولات کی طرف لوٹ گئے؟ ع یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔
امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد ہمارے دشمنوں نے عیاری سے جنگ کا دائرہ پاکستان تک وسیع کیا اور اب یہ جنگ پاکستان میں جاری ہے۔ بھارت 2009ء سے مقبوضہ کشمیر میں نئے انداز کی احتجاجی تحریک کو پھلتا پھولتا دیکھ کر امریکہ سے پاکستان کی شکایت کر رہا تھا۔ وکی لیکس میں بھارتی سیکرٹری خارجہ نروپما رائو کا ذکر ملتا ہے جس نے پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکی سفارت کار رچرڈ ہالبروک کو بتایا تھا کہ ''عین ممکن ہے پاکستان کشمیر کے برتن کو ابلتا رکھنے کے لیے وہاں بھارت مخالف مظاہرے کرائے‘‘۔ وکی لیکس میں تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے اور بھارت میں گہرے روابط کا ذکر بھی ملتا ہے۔ دسمبر 2009ء میں امریکی محکمہ خزانہ کے اہلکار ہاورڈ مینڈیل سوہان اور متحدہ عرب امارات کی خفیہ ایجنسی اور اسٹیٹ سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ملاقات میں امارات کے اہلکار نے کہا کہ '' بھارت پاکستانی طالبان اور علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کرتا ہے‘‘۔ 
یہ زرداری صاحب کا دور حکمرانی تھا جو ایک بھارتی ٹی وی چینل کے سامنے یہ تک کہہ گزرے کہ ''ہر پاکستانی کے دل میں ایک بھارت بستا ہے‘‘۔ اس عہد کو تمام ہوئے بھی دو سال گزر چکے‘ اب مسلم لیگ برسر اقتدار ہے مگر بھارت کے حوالے سے ہم تاحال گومگو کا شکار ہیں‘ حتیٰ کہ اسلام آباد‘ شمالی وزیرستان ‘ کراچی اور بلوچستان میں ''را‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی کے ایجنٹوں و اہلکاروں کی گرفتاری پر بھی ہم پرسکون ہیں۔ معلوم نہیں امریکہ سے ڈرتے ہیں یا بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
کوتلیہ چانکیہ نے بادشاہ کو جو مشورہ دیا تھاوہ بھارتی بادشاہوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھا مگر ہم میں ہمت ہے نہ عزم کہ اس جنگ کو بے دلی کے ساتھ دفاعی انداز میں لڑنے اور ہر طرف سے محاصرے میں رہنے کے بجائے جارحانہ اور دلیرانہ انداز سے آگے بڑھائیں‘جنگ کو اپنی سرحدوں سے نکال کر سرحد پار دھکیل دیں۔ کشمیر‘ خالصتان اور نکسل باغیوں کے علاوہ دیگر شورش زدہ علاقے جنہیں امریکی ''ریڈ کاریڈور آف انڈیا‘‘ کا نام دیتے ہیں پاکستان کے فطری حلیف ہیں اور بھارت کو اگر شمالی وزیرستان‘ کراچی‘ بلوچستان اور افغانستان سے بے دخل کر کے ان تحریکوں تک محدود کر دیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس عذاب سے نجات نہ پا لیں جس کا کہیں نام دہشت گردی ہے‘ کہیں بھتہ خوری اور کہیں علیحدگی پسندی و ٹارگٹ کلنگ۔
کیپٹن اسفند یار نے شہادت کی آرزو کی جو پوری ہوئی۔ شہید کیپٹن اسفند یار کے دلیر والد فیاض بخاری نے اپنے لخت جگر کی شہادت پر اپنی ایک خواہش ظاہر کی ہے۔ غیرت مند قومیں‘ حکمران اور اپنے جوانوں اور افسروں سے پدرانہ محبت کرنے والے سپہ سالار شہیدوں کے خون اور ان کے غمزدہ والدین کی خواہشات کاہمیشہ پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ شہید کے والد نے کہا: ''حکمران میرے بیٹے کے خون کی قدر کریں‘ کم ازکم کرپشن بند کر دیں‘‘۔ اگر ہم اپنے اوپر مسلط جنگ کو سرحدوں سے باہر دھکیلنے کی ہمت و طاقت نہیں رکھتے تو کم ازکم شہید کے غمزدہ مگر دلیر باپ کی یہ خواہش پوری کر دیں جو پوری قوم کے دل کی آواز اور پاکستان کا مستقبل سنوارنے کی ضمانت ہے۔ کیا ریاست اتنی معصوم اور معمولی خواہش پوری کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتی؟ 
اِک خواہش تھی 
کبھی ایسا ہو 
کبھی ایسا ہو کہ اندھیرے میں 
جب دل وحشت کرتا ہو بہت 
جب غم شدت کرتا ہو بہت 
کوئی تیر چلے 
کوئی تیر چلے جو ترازو ہو میرے سینے میں 
اک خواہش تھی 
وہ خواہش پوری ہو بھی چکی 
دل جیسے دیرینہ دشمن کی سازش پوری ہو بھی چکی 
اور اب یوں ہے 
جینے اور جیتے رہنے کے بیچ اِک خواب کی 
دوری ہے 
وہ دوری ختم نہیں ہوتی 
اور یہ دوری سب خواب دیکھنے والوں کی مجبوری ہے 
مجبوری ختم نہیں ہوتی 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں