خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا

لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب کا کسی اور کو فائدہ ہونہ ہو‘ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت کے ریستورانوں، بیکریوں، گوشت فروشوں اور دودھ فروشوں کو بہت زیادہ ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو رانا مشہود بھی فائدے میں رہے۔ نیب پنجاب کو چپ لگ گئی اور احتساب بے چارہ چند روز پہلے تک بڑھ چڑھ کر بولنے والے نیب کی طرف جون ایلیا کی طرح تک رہا ہے ؎ 
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
یہ رانا مشہود کے اس نوٹس یا خط کا اثر ہوسکتا ہے جو اس نے نیب کولکھا اورتیربہدف ثابت ہوا مگر یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ پنجاب بھر میں چھاپے بھی کسی دبائو میں آ کررُکے‘ یا دو نمبرکام کرنے والوں کا شوروغوغا کام دکھا گیا۔یہ ضمنی انتخاب کی برکت لگتی ہے۔ 
ہفتہ دس دن پہلے کے اخبارات اٹھا کر دیکھیں، اخبارات کے صفحات‘ چینلز کے خبرنامے، ٹاک شوز اور تفریحی پروگراموں کے کلپس پر نظر ڈالیں تو ہر سو عائشہ ممتاز چھائی ہوئی تھیں۔ ایک دلیر، دبنگ اور عوام دوست سرکاری افسر جس نے مردار اور بدبودار گوشت ، ناقص اور مضر صحت خوراک اور گٹر کا پانی ملا دودھ عوام کے معدے میں اتارنے والے سفاک و سنگدل مافیا کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ حلال و حرام میں تمیز کرنے والے عوام میاں شہباز شریف کے حسن انتخاب اور عائشہ ممتاز کے حسن کارگزاری کی دل کھول کر تحسین کر رہے تھے۔
مگر جونہی حلقہ این اے 122 میں طبل جنگ بجا، سردار ایاز صادق اور علیم خان کا ملاکھڑا شروع ہوا اور مسلم لیگ (ن) و تحریک انصاف کے لیڈروں اور کارکنوں نے ووٹروں کے دروازوں پر دستک دینا شروع کی‘ مردار گوشت، مضر صحت کھانوں اور پانی ملے دودھ کے خلاف مہم میڈیا سے یوں غائب ہوگئی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ عائشہ ممتاز جیسی جرأتمند خاتون کسی سیاسی مصلحت کا شکار ہوسکتی ہے نہ اوپر کے دبائو پر اپنے فرائض منصبی کی دلیرانہ ادائیگی سے دستبردار۔ ہونہ ہو یہ سارا کیا دھرا ہمارے میڈیا کا ہے۔ جس کی توجہ کا مرکز اب ریستوران، بیکریاں اور مِلک سٹور ہیں، نہ حفظانِ صحت کے اصولوں کو سختی سے نافذ کرنے والا محکمہ اور نہ وہ خاتون جس نے چند دنوں میں بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیئے۔
گزشتہ روز ایک دوست گلہ کررہا تھا کہ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب نے تمام قومی ایشوز کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ حتیٰ کہ اوکاڑہ کا ضمنی انتخاب بھی عمران خان کے سوا کسی کو یاد نہیں رہا اور کئی دوسرے معاملات بھی میڈیا سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ یہ ہماری قومی سرشت ہے۔ توازن و اعتدال ہمارے ہاں مفقود ہے اور ہم ترجیحات کے تعین میں بھی بہت زیادہ مغزماری نہیں کرتے۔ بس ایک ایشو اچھالتے ہیں اورپھر صبح و شام اس کی تکرار ہونے لگتی ہے۔ حکمران چونکہ اس قومی مزاج سے واقف ہیں‘ اس لئے ایک نان ایشو کو ایشو بنا کر عوام کے علاوہ میڈیا کو ڈھول پیٹنے پر لگا دیتے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) اس فن میں طاق ہے۔ غلام حیدر وائیں مرحوم وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو انہوں نے بھل صفائی کی مہم شروع کی۔ ہر سال سردیوں میں جب نہریں خشک ہوتی ہیں محکمہ انہار کے علاوہ کسان ازخود بھل صفائی کرتے‘تاکہ ہر موگے پر پانی یکساں اور آسانی سے پہنچے اور نہروں میں پڑی بھل رکاوٹ نہ ڈالے۔ مگر وائیں صاحب نے ایسی بھل صفائی مہم چلائی کہ لگتا تھا یہ وائیں صاحب کی سائنسی دریافت ہے۔ بھل صفائی اب بھی ہر سال ہوتی ہے مگر اتنا شورمچتا ہے نہ کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات جاری کیے جاتے ہیں۔
نوّے کے عشرے میں ایک بار لاہورمیں تجاوزات کی مہم بھی اسی زورو شور سے شروع کی گئی۔ میاں محمداظہر میئر لاہور تھے۔ انہوں نے تجاوزات کے خلاف مہم کا آغاز بیڈن روڈ پر ماموں جان کے تھڑے سے کیا اور لاہور کونکھار کر رکھ دیا۔ پھر وہ گورنر بن گئے اور انہیں پنجاب میں قبضہ گروپوں، رسہ گیروں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف مہم کی نگرانی سونپی گئی۔ یہ اسی طرح کی مہم تھی جس طرح ان دنوں رینجرز نے کراچی میں شروع کر رکھی ہے۔ مگر جونہی میاں اظہر نے بعض ارکان پارلیمنٹ کے رشتہ داروں پر ہاتھ ڈالا اور ان کے ڈیرے سے قاتل، اغوا کار اور بھتہ خور پکڑے‘ یہ مہم دم توڑ گئی ۔ ہم بحیثیت مجموعی احتساب کے اس وقت تک حق میں ہیں‘ جب تک ہمارے مخالفین کے خلاف جاری رہے‘ اپنا اور اپنوں کا احتساب ہمیں گوارا ہی نہیں۔ رسہ گیر، مویشی چور، بھتہ خور، اغوا کار اور ٹارگٹ کلرز ہوں یا رزق حلال کے متلاشی عوام کو گدھے اور بیمار جانوروں کا گوشت، مضر صحت اشیاء خورونوش اور ملاوٹی دودھ کھلانے پلانے والے تھوک اور پرچون فروش۔
بدگمانی سے اللہ بچائے ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب کی وجہ سے کوئی مہم معطل ہوسکتی ہے اور ایک دیانتدار، دلیر اور فرض شناس افسر کو وقتی طور پر دفتر میں بیٹھ کر تماشائے اہل کرم دیکھنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ ماضی میں گوجرانوالہ کا ایک الیکشن ہارنے پر اس وقت کے ڈی آئی جی ذوالفقار چیمہ کا تبادلہ ہوا تھا‘ جن پر الزام تھا کہ انہوں نے پولنگ سٹیشنوں پر لاقانونیت کے مرتکب سرکاری پولنگ ایجنٹوں اور حکومتی جماعت کے کارکنوں کو حوالات میں بند کر دیا تھا۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ یہی سچ تھا اور ایک ایماندار افسر کا تبادلہ واقعی کسی وزیر کی شکایت پر ہوا۔ یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی۔
انتخاب ضمنی ہو یا عام سیاسی جماعتوں ، سیاستدانوں اور امیدواروں کیلئے تو امتحان ہوتا ہے مگر ووٹروں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ اس موقع پر کاروبار کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں، کیونکہ سیانے امیدوار ووٹر کے دل میں معدے کے راستے اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حلقہ 122 میں بھی صرف امیدواروں نہیں بلکہ ان کے سپورٹروں کے دسترخوان وسیع ہوگئے ہیں، ناشتے، ظہرانے اور عشائیے اگربااثر لوگوں کے نصیب میں ہیں تو دودھ سوڈا، بوتل، کیک پیسٹری اور چائے بسکٹ سے عام ووٹر بھی محروم نہیں۔ مغل پورہ، گڑھی شاہو سے لے کر سمن آباد وحدت روڈ تک اشیائے خورونوش کا ہر مرکز آباد ہے اور ووٹر اپنی خوب خاطر مدارات کرا رہا ہے۔ کسی کو اس بات کی فکر نہیں کہ یہ خاطر مدارت حق حلال کی کمائی سے ہو رہی ہے یا کسی اور مد سے‘ نہ یہ دھیان کہ جو کچھ کھایا پیا جا رہا ہے وہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی چھلنی سے گزرا ہے یا نہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہے کہ 11اکتوبر سے قبل امیدواروں کی جیب جتنی زیادہ ڈھیلی کرائی جاسکتی ہے کرالی جائے کہ پھر کبھی یہ موقع ملے نہ ملے۔
اللہ کرے11 اکتوبر خیروعافیت سے گزرے، ضمنی انتخاب کا بخار اترے اور میڈیا علیم خان، سردار ایاز صادق اور بیرسٹر عامر حسن کی کوریج سے فارغ ہو تو کسی کو خالص، حلال اور معیاری خوراک فراہم کرنے کیلئے پنجاب حکومت کی مخلصانہ سعی و تدبیر کا پتہ بھی پڑے۔ فی الحال تو راوی ہر سوچین لکھتا ہے اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کے زخم خوردہ افاقہ محسوس کر رہے ہیں۔ دعاگو بھی ہیں کہ شہر کے کسی دوسرے ایم این اے یا ایم پی اے کی نشست خالی ہو‘ ضمنی انتخاب کا گجر بجے تاکہ چھاپوں سے مستقل جان چھوٹے اور خوش خوراک لاہوریوں کو وہ کچھ کھلاتے ر ہیں جس کا انہیں عرصہ دراز سے عادی بنادیا گیا ہے۔ نام کیا لینا، سب جانتے ہیں۔
چھاپوں کی خبریں جس تواتر سے شائع اورنشر ہو رہی تھیں‘ لوگ انہیں پڑھنے اورسننے کا عادی ہو گئے۔ وقفہ آیا تو بے چینی بڑھ گئی اور طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ جب مہم کامیاب ہوگئی۔ ہر جگہ حلال اور معیاری خوراک بافراط دستیاب ہے تو پھر پریشانی کس بات کی۔ مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔ ؎
خامشی کہہ رہی ہے کان میں کیا
آ رہا ہے مرے گمان میں کیا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں