بلدیاتی انتخابات

پنجاب اور سندھ میں ہونے والے ضلعی حکومتوں کے انتخابی نتائج کو مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی عوامی مقبولیت کا مظہر قرار دینے میں کوئی حرج ہے نہ موجودہ سیاسی‘ انتظامی اور معاشی ڈھانچے پر عوام کے بھرپور اعتماد پر کسی کو اعتراض۔ عوام کے حسن انتخاب کی داد دینی چاہیے مگر اقتدار کے ایوانوں پر کئی عشروں سے مسلّط ان دو سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں کئی گنا اضافے اور ناانصافی‘ عدم مساوات اور غریب و کمزور دشمنی پر مبنی اس مردم آزار نظام پر عوام کے اعتماد کی کوئی معقول اور ٹھوس وجہ ہونی چاہیے جو تاحال سامنے نہیں آ سکی۔
بجا کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف کا طرز حکمرانی سید قائم علی شاہ سے بہتر ہے‘ وہ متحرک بہت ہیں۔ 2008ء سے 2013ء کے دوران انہوں نے صوبے میں بہت سے ایسے منصوبے پایہ ٔ تکمیل کو پہنچائے جن کا دوسرے صوبوں میں تصوّر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کرپشن‘ بے ضابطگی اور اقربا پروری کا کوئی بڑا سکینڈل بھی اس دوران منظر عام پر نہیں آیا‘ اگرچہ گزشتہ دو سال کے دوران یہ تاثر برقرار نہیں رہا؛ تاہم اگر پنجاب کے انتخابی نتائج کو عوام کی حقیقی خواہشات کا آئینہ دار و عکاس مان لیا جائے تو پھر سندھ میں پیپلز پارٹی کو ملنے والا بھاری مینڈیٹ چہ معنی دارد؟ دوران اقتدار تھرپارکر میں ہر سال قحط سالی کے سبب سینکڑوں اموات‘ کراچی میں پانی نہ ملنے پر دو سو سے زائد افراد کی ہلاکت‘ متاثرین سیلاب کے لیے آنے والی ایمبولینسز کرائے پر چلانے اور لوٹ مار کے ریکارڈ قائم کرنے پر آصف علی زرداری اور سید قائم علی شاہ سے اظہار یکجہتی‘ بہترین کارگزاری کا صلہ اور گزشتہ سات کیا‘ پینتیس سال کے دوران قائم ہونے والی چار حکومتوں کے احسانات کا بدلہ؟ 
دونوں صوبوں کے ''باشعور عوام‘‘ جانتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے عنوان سے قائم ہونے والے اداروں کو وہ اختیارات حاصل نہیں‘ جو ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے انہیں عطا کئے تھے۔ یہ بلدیاتی ادارے ارکان اسمبلی کی چشم التفات اور صوبائی وزیر اعلیٰ کی نظر کرم کے محتاج ہوں گے اور تعلیم‘ صحت‘ آبپاشی‘ خوراک‘ زراعت‘ لائیو سٹاک‘ جنگلات‘ انہار کے محکمے بدستور بیوروکریسی چلائے گی‘ حتیٰ کہ گلی‘ نالی اور پُلوں کی تعمیر کے لیے بھی یہ چیئرمین‘ میئر اور کونسلر کراچی اور لاہور کے سامنے دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہوں گے۔ پولیس انہیں اسی لاٹھی سے ہانکے گی‘ جس سے وہ انگریز دور سے ہانکنے کی عادی ہے اور پٹواری فرد ملکیت رشوت لے کر ہی دے گا۔ جن حکومتوں نے انہیں اب تک تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ انصاف اور جان و مال‘ عزت و آبرو کے تحفظ سے محروم رکھا ہے وہ بلدیاتی اداروں کے قیام کے بعد بھی اپنی وضع نہیں بدلیں گی۔ اس کے باوجود عوام نے اپنی خو نہیں بدلی ؎
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
ہم کو احساں کا پاس رہتا ہے
احسان شناسی کا یہ جذبہ قابل داد تو ہے مگر تحقیق و تفتیش کا حقدار بھی کہ آخر تبدیلی کا نعرہ ان ''باشعور عوام‘‘ کو متاثر کیوں نہیں کرتا۔
پنجاب اور سندھ میں حکمرانوں کی طرف سے انتخابی کامیابی کے لیے سرکاری وسائل‘ اختیارات‘ پولیس و انتظامی مشینری کے برملا استعمال اور دیگر روایتی ہتھکنڈوں کے باوجود تحریک انصاف کے لیے اپنی ناکامی کا ملبہ وفاق اور دو صوبوں میں برسر اقتدار خاندانوں پر ڈال کر مظلومیت کا رونا روا ہے‘ نہ اپنی کمزوریوں‘ کوتاہیوں اور غیر دانشمندانہ حکمت عملی کا کوئی جواز پیش کرنا مناسب۔ عمران خان اور ان کے مخلص و وفادار ساتھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ اپنے گریباں میں جھانکیں‘ اپنی سیاسی کارگزاری‘ منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کے عمل کا بے لاگ اور سفاکانہ پوسٹ مارٹم کریں‘ ڈاکو کے خنجر سے نہیں ڈاکٹر کے نشتر سے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران تحریک انصاف نے کہاں کہاں کیا غلطی کی‘ اور مسلم لیگ نے اس سے کس طرح فائدہ اٹھایا؟
امیر تیمور گرگانی نے اپنی سوانح حیات میں یہ سنہرا اُصول بیان کیا ہے کہ طاقت اور کمزوری اضافی اصطلاحات ہیں ''میری کمزوری میرے مخالف کی طاقت ہے اور اس کی کوتاہی میری قوت و کامیابی کا سرچشمہ‘‘۔ یہی اُصول عمران خان اور اس کے مخالفین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہر وقت خود ترحمّی کا شکار رہنا اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسرں کو ٹھہرانا صحت مند طرز عمل نہیں۔ حکومتی وسائل اور سرکاری مشینری کے استعمال کا توڑ آپ نہ کر سکے تو قصوروار کون؟ اگر خدا توفیق دے اور تحریک انصاف خود احتسابی پر آمادہ ہو تو انتخابی نتائج میں تبدیلی اور نظریے کی علمبردار اس جماعت کے لیے بہت سے سبق پوشیدہ ہیں۔
2013ء کے عام اور 2015ء کے بلدیاتی انتخابات سے قبل جماعتی تنظیمیں توڑ کر نئے انتخابات کا عمل‘ اُمیدواروں کی نامزدگی میں تاخیر‘ مسلسل جلسوں‘ ریلیوں‘ احتجاجی سرگرمیوں کی بنا پر مالی وسائل کا ضیاع اور کارکنوں کی تھکاوٹ‘ اتحادوں سے گریز مگر مسلم لیگ (ن)‘ مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے ایسے الیکٹ ایبلز پر انحصار جن کی اکثریت شکست خوردہ تھی‘ دوسری جماعتوں سے تحریک انصاف کا رخ کرنے والے لیڈروں کو ان کی شرائط پر شامل کرنا اور قابل اعتماد دیرینہ ساتھیوں پر ترجیح دینا‘ غیر منظم انتخابی مہم اور یونین کونسل کی سطح تک ٹھوس تنظیم سازی میں کوتاہی ایسے عوامل ہیں جو 2013ء کی طرح 2015ء کے انتخابات پر اثر انداز ہوئے جن کا ادراک تحریک انصاف کی قیادت کو نہ ہوا تو ووٹروں اور کارکنوں کی بددلی میں اضافہ ہو سکتا ہے اور 76 لاکھ ووٹ لینے والی سیاسی جماعت مزید صدمات سے دوچار ہو گی؛ تاہم جلد بازی میں ذمہ داروں کا مواخذہ حماقت ہو گی۔ 19 نومبر کے علاوہ 5 دسمبر کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے انتخابات کے بعد احتساب کی بساط بچھنی چاہیے۔
عمران خان کو اس حقیقت کا ادراک بدرجہ اتم ہونا چاہیے کہ وہ نظریے کی پاسداری اُصول پسندی‘ دیانتداری اور بے باک فیصلوں کی بنا پر نوجوان نسل اور تبدیلی کے خواہش مند متوسط طبقے کے ہیرو ہیں۔ کرکٹ کا کھلاڑی دوسروں کو کرکٹ کے میدان میں لا کر شکست سے دوچار کر سکتا ہے خود ہاکی یا ٹینس کے میدان میں اُتر کر اس شعبے کے کھلاڑیوں کو مات نہیں دے سکتا۔ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کا مقابلہ نظریے‘ انتھک جدوجہد‘ جاندار رابطہ عوام مہم اور پُرکشش نعروں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔ جوڑ توڑ‘ ذات برادری‘ دھن دولت اور سمجھوتے کی سیاست میں ان کا مقابلہ مشکل ہے۔ یہ 'سٹیٹس کو‘ کے ہتھیار ہیں‘ عمران خان کے لیے مہلک۔ سیاسی جماعت کے دروازے کسی پر بند کیے جا سکتے ہیں نہ نیا خون داخل کرنا معیوب ہے مگر جو شخص اپنی شرائط منوا کر شامل ہو گا‘ وہ دھڑے بندی کرے گا اور ایجنڈے پر اثر انداز بھی ہو گا۔ لہٰذا احتیاط لازم ہے‘ نئے پرانے کی کشمکش اسی بنا پر بڑھی اور ملک کی مقبول ترین جماعت کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔
ثبوت پیش کرنا تو مشکل ہے مگر قرائن بتاتے ہیں کہ عمران کے اردگرد ایسے افراد موجود ہیں‘ جو دانا دشمنوں کے ایجنٹ ہیں یا خان صاحب کے نادان دوست‘ یہی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے اور سیاسی حرکیات کے یکسر منافی غلط فیصلوں کا باعث بنتے ہیں‘ لہٰذا اگر خان صاحب اپنے ذاتی دوستوں اور سیاسی مشیروں کی وفاداریوں اور سیاسی ذہانت کا بنظر غائر جائزہ لے کر ان کے لیے ناخوشگوار مگر جماعت کے لیے مفید فیصلہ کر سکیں تو صرف تحریک کے لیے نہیں‘ تبدیلی کے نعرے پر گھروں سے نکلنے والی نوجوان نسل کے لیے بھی بہتر ہے۔ بیس اضلاع میں ہونے والے انتخابی دنگل میں تحریک انصاف کی ناکامی مگر اس بات کا ثبوت ہرگز نہیں کہ 'سٹیٹس کو‘ کی قوتوں نے آخری بازی جیت لی ہے اور اب انہیں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔ پنجاب میں حکمران لیگ کے برابر آزاد اُمیدواروں کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ جیت دھن‘ دھونس‘ دھاندلی کی ہوئی‘ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں ان کے سامنے چت ہو گئیں۔
سندھ میں پیپلز پارٹی کی محیرالعقول کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ سیاسی‘ سماجی‘ انتظامی اور معاشی ڈھانچہ تبدیل کیے بغیر پاکستان جمہوریت کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکتا ہے نہ بے روزگاری‘ افلاس‘ ناانصافی‘ بدامنی اور لاقانونیت کا خاتمہ ممکن ہے۔ لاہور اور فیصل آباد میں سیاسی مخالفین کا قتل اگر ووٹروں کے ضمیر اور فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہو تا اور کراچی و تھر میں انسانی اموات بھی کسی حکومت کی ناکامی کا پیمانہ نہیں تو پھر عوام کی بدقسمتی اور حکمرانوں کی خوش قسمتی میں کیا کلام! جس معاشرے کے ''باشعور عوام‘‘ اہلیت و صلاحیت اور شہرت کے بجائے امیدوار کی جیب‘ گاڑی اور اس کے محافظوں کی کلاشنکوف دیکھ کر مقدس امانت یعنی ووٹ دان کرنے کا فیصلہ کریں وہاں نتائج مختلف نکلتے تو حیرت ہوتی۔ سندھ میں حکومت کی کارکردگی اور مقبولیت کامیابی کا باعث ہے تو آدمی کیا کہے اور کیا لکھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں