فلسفۂ ’’چھٹی‘‘

برصغیر کے نامور خطیب اور مجلس احرار اسلام کے رہنما سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ سے اسلامیہ کالج امرتسر کے طلبہ کی ملاقات جاری تھی کہ شاہ صاحب نے ایک طالب علم سے کہا ''آپ داڑھی کیوں نہیں رکھ لیتے بیٹا‘‘۔ چلبلے نوجوان نے ترنت جواب دیا''شاہ جی کالج میں داڑھی رکھنا مشکل ہے‘ مسجد اور حجرے تک محدود مذہبی لوگوں کو کیا علم کہ کالج کی زندگی کیسی ہوتی ہے‘‘ شاہ جی لاجواب ہونے والوں میں سے نہیں تھے بولے''ہاں بیٹا خالصہ کالج میں آسان ہے‘ اسلامیہ کالج میں مشکل ہے‘‘
مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ کے یوم پیدائش پر 9نومبر کو قومی تعطیل کا فیصلہ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکمرانی میں ہوا۔ بھٹو صاحب نے 1976ء کو سال قائد ؒاور 1977ء کو سال اقبال ؒکے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان میں یوم اقبالؒ کی تقریبات 21اپریل کو ہوا کرتی تھیں جو اقبالؒ کا یوم وفات ہے مگر قومی سطح پر فیصلہ ہوا کہ اب 9نومبر کو یوم اقبالؒ کے طور پر منایا جائیگا۔ چنانچہ پچھلے سال (2014ء) تک یوم اقبال سرکاری طور پر منایا جاتا رہا ۔اسی روز تعطیل ہوتی اور ملک بھر میں تقریبات منائی جاتیں مگر امسال معلوم نہیں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو کیا سوجھی کہ انہوں نے سرکاری تعطیل منسوخ کر کے قوم کو یہ پیغام دیا کہ یومِ اقبالؒ پر سرکاری چھٹی وقت کا ضیاع اور قومی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان دنیا کا واحد ملک نہیں جہاں قومی اور مذہبی تہواروں کے علاوہ اہم شخصیات کی پیدائش و وفات کے ایاّم کے موقع پر تعطیلات ہوتی ہیں مگر اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا منفرد ملک ہے جہاں تعطیل کرنے‘ نہ کرنے کا کوئی معقول جواز کبھی پیش نہیں کیا جاتا مثلاً پاکستان میں کبھی میچ جیتنے پر ملک بھر میں سرکاری چھٹی کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور کبھی ایٹمی تجربات کے بعد ساری چھٹیاں منسوخ کرنے کا حکم جاری ہوتا ہے جو دبائو پڑنے پر باری باری بحال ہو جاتی ہیں۔
1997ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد میاں نواز شریف نے معلوم نہیں کس کو خوش کرنے کے لیے جمعہ کی ہفتہ وار تعطیل ختم کی تو جواز یہ پیش کیا کہ جمعہ کی چھٹی کی وجہ سے ہم عالمی مارکیٹ سے کٹ جاتے ہیں اور عملاً ملک کا تین دن تک عالمی منڈی سے رابطہ منقطع رہتا ہے۔ ماہرین نے توجہ دلائی کہ وزیر اعظم کو گمراہ کیا گیا ہے کیونکہ پاکستان جن ممالک سے تجارت کرتا ہے ان میں سے بیشتر میں ہفتہ وار چھٹی جمعہ کو ہوتی ہے اس خطے میں اقتصادی و معاشی سرگرمیوں کے لحاظ سے متحدہ عرب امارات کا مقابلہ بھارت کر سکتا ہے‘ بنگلہ دیش نہ پاکستان مگر یہاں سال میں اٹھارہ چھٹیاں ہوتی ہیں اور ہفتہ وار چھٹی جمعہ کی ہے۔ آج تک کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ اس سے معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی معاشی حالت پرپاکستان میں رشک کیا جاتا ہے مگر یہاں چھٹیوں کی تعداد دو درجن ہے جبکہ بھارت میں کل ملا کر چالیس کے قریب قومی‘ ریاستی اور مذہبی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ امریکہ میں قومی چھٹیاں کم ہیں مگر چالیس ریاستی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ گویا ہر روز کسی نہ کسی ریاست میں چھٹی ہوتی ہے۔ بارک اوباما نے آج تک واویلا نہیں کیا کہ چھٹیوں کی وجہ سے امریکی معیشت دیوالیہ ہو گئی ہے۔ اور میں یہودیوں کی بروز ہفتہ اور عیسائیوں کی بروز اتوار ہفتہ وار مذہبی تعطیل ختم کررہا ہوں تاکہ افغان اور عراق جنگ سے زبوں حال معیشت کو سہارا ملے۔
یومِ اقبال، کی چھٹی کا فیصلہ ایک ایسے وزیر اعظم سے کرایا گیا ہے جن کا چار دن بعد کام سے جی اوبھ جاتا ہے اور وہ پانچویں دن اسلام آباد چھوڑ کر کبھی لاہور اور کبھی مری کا رخ کرتے ہیں۔بیرونی سیر سپاٹا اس کے علاوہ ہے۔ بہت کم وہ ہفتہ اتوار کو دارالحکومت میں پائے جاتے ہیں۔ مگر قوم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ قائد اعظم ؒ کے فرمان''کام‘ کام‘ کام‘‘ کی پاسداری کرتے ہوئے یوم اقبالؒ کی سالانہ تعطیل سے اجتناب برتے۔ کسی کی کیا مجال کہ وہ پوچھ سکے کہ جناب ہفتہ میں دو چھٹیاں بھی کیا زیادہ سے زیادہ کام کی آئینہ دارہیںیا امریکہ و یورپ کی اندھی تقلید جہاں ہفتہ کو یہودی اور اتوار کے دن عیسائی اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کے لیے کنیسہ اور کلیسا جانا لازم سمجھتے ہیں اور کوئی روشن خیال حکومت انہیں روک نہیں سکتی۔ امریکہ میں ریاستی چھٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی زیادہ تر مذہبی تہواروں کے حوالے سے ہیں۔
جمعہ کی چھٹی کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ بھٹو صاحب نے 1977ء میں تحریک نظام مصطفیؐ کا زورتوڑنے کے لیے کی مگر مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا ہے کہ غالباً1975ء میں ایک کمیٹی نے تمام سفارت خانوں‘ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور معاشی ماہرین سے تفصیلی صلاح مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا۔ سب کا خیال تھا کہ اس چھٹی سے قومی معیشت پر رتی برابر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے‘ الٹا شرق اوسط کی مارکیٹ سے ہم بہتر انداز میں مستفید ہو سکیں گے۔1997ء میں میاں صاحب نے ہفتہ وار تعطیل کے لیے اتوار کا دن منتخب کیا۔ دو سال تک اقتدار میں رہے مگر قرضوں کے حجم میں اضافہ ہوا اور معاشی حالت زبوں تر رہی۔ 12اکتوبر کو زرمبادلہ کے ذخائر ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھے اور ملک عملاً ڈیفالٹ کر چکا تھا۔ اسحق ڈار پیرس کلب اور نجی بنکوں کے مہنگے قرضوں کی مدد سے یہ ڈیفالٹ روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔
قومی چھٹیاں کرنے سے قومیں اقتصادی و معاشی زبوں حالی کا شکار ہوتی ہیں نہ تعطیلات کم ہونے سے چینی‘ جاپانی اور ملیشیائی معیشت کے ہم پلّہ ہوجاتی ہیں۔ درست معاشی پالیسیوں اور ترجیحات ‘ دیانتداری ‘بچت کے رجحان ‘ٹیکسوں کی وصولی‘ سوشل سیکٹر کی ترقی ‘نمودو نمائش اور کرپشن کی حوصلہ شکنی اور جہدِ مسلسل سے یہ اہداف حاصل ہوتے ہیں۔ حکمران عوام کا رول ماڈل ہوتا ہے اور وہی قوم میں کچھ اوصاف پیدا کرتا ہے جن کے بل بوتے پر اقوام آگے بڑھتی اور ترقی و خوشحالی کی منزل پر پہنچ جاتی ہیں جاپان‘ ملائشیا ‘ جنوبی کوریا ‘ چین‘ ترکی اور دیگر اقوام نے چھٹیاں ختم نہیں کیں‘ تن آسانی اور کام چوری کا قلع قمع کیا اور قوم اگر ایک فاقہ کرے تو لیڈر دو فاقے کرتے نظر آئے مگر ہمارے ہاں کا باوا آدم نرالا ہے۔ لیڈر نقاّل ہیں اور پیرو کار محض تماش بین۔
میاں نواز شریف کی حالیہ امریکہ یاترا پر باتیں بہت ہوئیں۔ ان کے مداحوں نے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے مگر حافظ سعید کے حوالے سے پیمرا کی ہدایت ‘ وزیر اعظم کی تقاریر میں اچانک ''لبرل ازم‘‘ کا پرچار اور پھر یوم اقبال کی چھٹی منسوخ ہونے کا اقدام کچھ اور ہی چغلی کھاتا ہے۔ بدلے بدلے میرے سرکار نظر آتے ہیں۔ اس فلسفۂ'' چھٹی‘‘ پر میاں صاحب کے مداح خوش ہیںکہ قائد اعظم ثانی نے یوم اقبالؒ کی طرح عیدین‘ ربیع الاول‘ یومِ عاشور‘ یوم پاکستان‘ یوم قائد اعظم کی چھٹیاں منسوخ کر دیں تو زرمبادلہ کے ذخائر تین گنا نہیں تو دوگنا ضرور بڑھ جائیں گے۔ چالیس ارب ڈالر نصف جن کے بیس ارب ڈالر ہوتے ہیں‘ڈالر کے نرخ گرتے گرتے شائد تیس روپے تک آ جائیں‘ جی ایٹ کے مقابلے میں جی نائن کا غلغلہ بلند ہو اور ہماری فی کس آمدنی کم از کم پانچ ہزار ڈالر ہو جائے۔ایک چھٹی سے 82ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے تو بیس چھٹیاں ختم کرنے سے کتنا فائدہ ہو گا‘ ذرا سوچئے۔
ہماری مانے تو روشن خیال حکومت ہفتہ وار چھٹیاں بھی ختم کر دے۔ سال میں ایک سو دن بیس مزید کام کا مطلب ہے قومی آمدنی میں کم از کم سو کھرب کا اضافہ یعنی سو ارب ڈالر۔ یہ آسان راستہ اختیار کرنے کے بجائے اسحق ڈار خواہ مخواہ دبئی میں آئی ایم ایف کی چاپلوسی کرتے اور امریکہ میں مہنگی شرح سودپر بانڈ بیچتے پھرتے ہیں۔ پورا سال کام کرنے سے قومی آمدنی میں اضافہ نہ بھی ہوا توقوم کو محنت کی عادت ضرور پڑ جائیگی اور عمران خان عوام کو دفتروں‘ کارخانوں‘ تجارتی مراکز سے نکال کر اپنے جلسوں اور ریلیوں میں نہیںلا سکیں گے۔ سیدعطاء اللہ شاہ بخاری والی بات بیچ میں رہ گئی۔ امریکہ‘ برطانیہ‘ بھارت اور دیگر ممالک میں محبوب و محسن قومی شخصیات کی پیدائش و اموات اور تہواروں پر چھٹیاں ہو سکتی ہیں‘ معیشت تباہ نہیں ہوتی‘ پاکستان میں مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اقبالؒ بھی سوچتے ہوں گے کن احسان فراموش جانشینوں سے پالا پڑا ہے۔ پاکستان کا نظریہ پیش کرنے کا احساس اور احسان نہ سہی‘ لاہوری اور کشمیری ہونے کا لحاظ ہی کر لیتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں