جو جلاتا ہے کسی کو خود بھی جلتا ہے ضرور

امریکی ریاست کیلی فورنیا میں معذور افراد کے مرکز پر فائرنگ درندگی ہے‘ مجرمانہ فعل اور ہر لحاظ سے قابل مذمت۔ معذور افراد کی ہلاکت شرمناک واقعہ ہے جس کے ذمہ دار اسلام اور انسانیت دونوں کے لیے باعث ننگ ہیں۔ مگر امریکہ میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ‘ روشن خیال‘ مہذب اور بزعم خویش اعلیٰ اخلاقی و انسانی اقدار کی حامل ریاست میں اس طرح کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ کبھی کوئی جنونی بچوں کے سکول پر حملہ آور ہوتا ہے کبھی مارکیٹوں اور تربیتی اداروں پر اور کبھی راہگیروں پر اور یہ بالعموم پیدائشی امریکی گورا ہوتا ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ دو سال سے افریقی باشندے نسلی بنیادوں پر امتیازی کارروائیوں کا شکار ہیں‘ اور مسلمان بھی اس نفرت انگیز مہم کا نشانہ بن رہے ہیں جو 9/11 کے بعد سے امریکہ میں منظم طریقے سے چلائی گئی۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ چند ماہ قبل یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے رہائشی علاقے میں تین مسلمان طالب علموں کو ایک گورے امریکی سٹیفن نے گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ مقامی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ سٹیفن نے یہ اقدام مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم سے متاثر ہو کر کیا اور وقوعہ سے قبل فون پر دھمکیاں بھی دیں۔
رواں سال مارچ میں عراق سے سکونت ترک کر کے ڈیلاس میں مقیم احمد الجمیلی بھی گولی کا نشانہ بنا‘ احمد الجمیلی عراق کی خانہ جنگی کے دوران جان بچانے میں کامیاب رہا مگر امریکہ میں برف باری کا نظارہ کرتے ہوئے جان ہار بیٹھا۔ لاس اینجلس ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ڈیلاس پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ احمد الجمیلی کو اپنے عقیدے کی سزا ملی اور وہ امریکہ بھر میں مسلمانوں کے خلاف برپا متعصبانہ اور شرانگیز مہم سے متاثر شخص کی گولی کا نشانہ بنا۔
کیلی فورنیا میں معذوروں کے مرکز پر حملے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے‘ نہ کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے کہ وہ اسے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کا ردعمل قرار دے کر اپنے آپ کو مطمئن کرے کیونکہ مسلمانوں کو زیادتی کا جواب صبر سے اور بدزبانی کا جواب خاموشی سے دینے کی تلقین کی گئی ہے؛ تاہم امریکہ و مغرب کی سیاسی و فوجی قیادت اور دانشوروں کو اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے اور خدا توفیق دے تو سوچنے میں حرج نہیں کہ پیرس‘ سان برنارڈینو اور لندن سمیت مغربی ممالک میں اس وقت آگ و خون کی جو ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ خوف کا سماں ہے اور جس کی وجہ سے برسلز شہر چار دن تک بند رہا وہ کہیں اسلامو فوبیا کا نتیجہ تو نہیں جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد مغربی حکمرانوں‘ سیاستدانوں‘ دانشوروں اور صحافیوں کے ذہنوں پر سوار ہوا۔ نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے لیے اسلام اور انتہا پسندی‘ جہاد اور دہشت گردی اور مسلمان اور دہشت گرد کو مترادف و ہم معنی الفاظ بنا دیا گیا اور روشن خیال مغربی میڈیا نے ہر دہشت گرد کو اسلامسٹ اور دہشت گردی کے ہر واقعہ کو جہادی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا۔ 
اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز 9/11 کے بعد نہیں ہوا‘ یہ 1990ء کے عشرے سے جاری تھی‘ جب تہذیبوں کے تصادم کی پیشین گوئی کرنے والوں نے اسلامی اور کنفیوشس تہذیب کے ملاپ کو مغربی تہذیب و تمدن اور بالادست نظام کے لیے کمیونزم کی طرح خطرہ فردا قرار دیا اور نکسن‘ الگور‘ بش جیسے امریکی رہنمائوں نے اسلام کو خطرہ سمجھ کر اس سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ واشنگٹن میں قائم ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق‘ جو لندن کے اخبار ڈیلی میل نے حال ہی میں شائع کی‘ 9/11 کے بعد صرف امریکہ میں غیر مسلم انتہا پسندوں نے 19 بڑے حملوں میں درجنوں افراد کو ہلاک کیا‘ دو روز قبل ٹپس برگ میں ایک مسلمان ٹیکسی ڈرائیور پر گولی چلی اور حملہ آور نے مسلمانوں کے علاوہ پیغمبر انسانیت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف نازیبا الفاظ بھی کہے‘ مگر آج تک سی این این‘ فاکس‘ سی این بی سی‘ بی بی سی اور اسی سطح کے عالمی چینلز نے کسی حملہ آور کو عیسائی‘ یہودی یا امریکی دہشت گرد قرار نہیں دیا اور اس کی ذمہ داری صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ پر عائد نہیں کی جو روزانہ مسلمانوں کے خلاف تعصب‘ نفرت اور اشتعال پھیلاتا ہے مذہبی دہشت گردان کے نزدیک صرف کلمہ گو مسلمان ہیں۔
امریکہ میں ان دنوں صدارتی انتخاب کا معرکہ برپا ہے اور ہلیری کلنٹن کے مدمقابل ری پبلکن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم شروع کر رکھی ہے کبھی وہ مسلمان تارکین وطن کا داخلہ بند کرنے کی دھمکی دیتے ہیں کبھی امریکہ میں مساجد بند کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور کبھی مسلمانوں کو خصوصی کارڈ جاری کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں تاکہ انہیں امریکی شہریوں کے مساوی حقوق حاصل نہ ہوں۔ ٹرمپ کی تقریریں سن کر بسا اوقات محسوس ہوتا ہے کہ ان میں نریندر مودی کی روح حلول کر گئی ہے اور موصوف 2013ء کے بھارتی الیکشن میں مودی کی تقریریں دہرانے میں مصروف ہیں جو انتہا پسند ہندو لیڈر نے پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف کی تھیں۔
ہٹلر یہودیوں اور افغان طالبان اپنے دور اقتدار میں غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں اسی قسم کے خیالات رکھتے تھے جس کی وجہ سے یورپی دنیا کی طعن و تشنیع کا سبب بنے مگر ٹرمپ اور دیگر انتہا پسند امیدوار چونکہ امریکی گورے اور ایک بالادست قوم سے تعلق رکھتے ہیں‘ اس لیے عالمی میڈیا گونگا شیطان بنا ہے اور امریکہ میں بھی کوئی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اس نفرت انگیز انتخابی مہم کو بند کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے نہ امریکی حکومت آزادیٔ اظہار کے نام پر شرانگیزی اور فتنہ پردازی کا نوٹس لینے پر تیار ہے۔ اگر ایسی ہی کوئی تقریر سعودی عرب کے شاہ سلمان‘ پاکستان کے نواز شریف اور ترکی کے طیب اردگان کی ہوتی تو اب تک انہیں صدام‘ قذافی اور مرسی کے انجام سے دوچار کرنے والے امریکہ و یورپ اربوں ڈالر اور لاکھوں فوجی مختص کر چکے ہوتے اور آزاد خیال و اعتدال پسند مغربی میڈیا کی گولہ باری دیدنی ہوتی۔ 
جب بھارت‘ امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز‘ متعصبانہ انتقامی کارروائیاں ہوتی ہیں تو انہیں انفرادی فعل قرار دے کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے‘ صرف مغرب میں نہیں پاکستان میں بھی‘ جبکہ پاکستان یا کسی دوسرے مسلم ملک میں ہونے والے واقعات کو مسلمانوں کے اجتماعی انداز فکر اور طرز عمل سے تعبیر کر کے تبراّ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مودی بھارت کی ایک ارب سے زائد آبادی کا منتخب نمائندہ ہے اور ٹرمپ کی مسلم مخالف و اشتعال انگیز تقریروں پر لاکھوں لبرل امریکی شہری جوش و خروش سے تالیاں پیٹتے اور انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہیں۔
یہ دوعملی اور تضاد امریکہ و یورپ میں بسنے والے زود حس اور اپنے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار پُرجوش و جذباتی نوجوانوں کو منفی ردعمل اور انتقام کی طرف مائل کرتا ہے‘ جو اسلام کی تعلیمات سے تو متصادم ہے مگر جس ماحول میں یہ پلے بڑھے اور جس جدید تہذیب و ثقافت اور انداز فکر کے ہم گن گاتے ہیں اس میں قطعاً معیوب نہیں۔ معیوب ہوتا تو نریندر مودی کی ہندوستان‘ ٹرمپ کی امریکہ میں‘ اور توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے صحافی سٹیفن کاربونیر کی فرانس میں ہرگز پذیرائی نہ ہوتی۔ یہی مائنڈسیٹ دراصل دنیا بھر میں فتنہ و فساد کا موجب ہے اور مسلمانوں کے لیے جلائی جانے والی آگ کے شعلے اب امریکہ و یورپ میں بھی بھڑکنے لگے ہیں۔ مگر اپنے گریباں میں جھانکنے اور پے در پے غلطیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے مسلمانوں پر دشنام طرازی جاری ہے۔ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات۔
گلوبل ویلیج کی اصطلاح مغرب کی اختراع ہے اور سو فیصد درست مگر اس کا اطلاق صرف ٹیکنالوجی اور معیشت کے علاوہ سیاست و معاشرت پر ہی نہیں انسانی رویوں اور ردعمل پر بھی ہونا چاہیے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس عالمی بستی میں غزہ‘ سرینگر‘ بغداد‘ طرابلس‘ کابل‘ رنگون‘ پشاور اور قاہرہ کے بازار لہو رنگ ہوں بچے‘ بوڑھے‘ مردوخواتین کے لاشے اٹھانا بھی جُرم ہو اور لندن‘ پیرس‘ سان برناڈوینو میں راوی سب چین لکھے۔ پہلے کبھی ایسا ہوا ہے نہ اب ہو سکتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں‘ ہمیں ظلم اور ناانصافی سے بچنے اور مظلوموں کا ساتھ دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک بے قصور کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دینے والے مذہب کے پیروکار معذور افراد کے مرکز پر حملے کو جائز قرار نہیں دے سکتے۔ مگر دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جاری اسلامو فوبیا کی روک تھام بھی ہونی چاہیے کہ یہی فساد کی جڑ ہے اور پے در پے واقعات کی وجہ ...؎
جو جلاتا ہے کسی کو خود بھی جلتا ہے ضرور
شمع بھی جلتی رہی پروانہ جل جانے کے بعد

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں