’’مودی‘‘ نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

ہم دودھ کے جلے سہی مگر چھاچھ پھونک پھونک کر بہت کم پیتے ہیں ۔جس کے سبب بیمار ہوں اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لینے کی عادت ہے۔ بھارتی انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک جاتی اُمراقدم رنجہ فرمایا تو بعض احباب کی یوں باچھیں کھل اُٹھیں جیسے کیڑی دے گھر نارائن آئے نیں
غالب کو معلوم نہیں کس کیفیت سے گزر کر کہنا پڑا ؎
مُجھ تک کب اُن کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
مگر ہم 1947ء سے اب تک جواہر لال نہرو سے لے کر اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے لے کر نریندر مودی تک بار بار کہہ مکرنیوں کی ایک طویل تاریخ سے سبق سیکھنے پر آماد ہ ہیں نہ لالے کی اچانک قلب ماہیت کا سنجیدگی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جونہی مذاکرات اور ملاقات کا ڈھول بجتا ہے ہم دھمال ڈالنے لگتے ہیں ۔
چند ماہ نہیں چند ہفتے قبل نریندر مودی کا موڈ کیا تھا؟ ڈھاکہ میں اس نے پاکستان توڑنے کا برملا اعتراف کیا‘ نیو یارک میں پاکستان کو دہشت گردی اور در اندازی کا مرتکب قرار دیا اور میاں نواز شریف سے ملاقات تو درکنار مصافحہ کرنے سے انکارکیا مگر جونہی پاکستان نے جوابی کارروائی کے طور پر بلوچستان‘ کراچی اور فاٹا میں بھارتی دخل اندازی اور دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز اور علیحدگی پسندوں کی مالی و اسلحی معاونت اور تربیت کے ثبوت عالمی برادری کے سامنے رکھے، لب و لہجہ بدل گیا۔ ہر جگہ پاکستان کو ڈرانے دھمکانے کے لیے لہراتی چھری لالہ جی نے بغل میں دبائی اور منہ میں رام رام جپنے لگا ۔
انتہا پسند مودی کی جاتی اُمرا یاترا میاں صاحب کی سالگرہ اور خوش نصیب نواسی مہر النسا صفدر کی شادی خانہ آبادی کے بہانے سہی مگر چند ہفتہ قبل تک تکبّر و انا کی تصویر نریندر مودی کا اپنی خواہش پر پاکستان آنا بذات خود اہم ہے اور میاں صاحب کے لیے باعث مسرت ؎
دیر لگی آنے میں تم کوشکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
پاکستان میں کوئی بھی جنگ جوئی کو بہترین پالیسی سمجھتا ہے نہ بھارت سے مسلسل کشیدگی کو قومی مفاد سے ہم آہنگ۔ میاں نواز شریف کے بدترین سیاسی مخالف عمران خان بھی دونوں ممالک میں مذاکرات اور بہتر تعلقات کے حق میں ہیں بلکہ نریندر مودی کو دورہ پاکستان کی دعوت وہ بھی دے آئے تھے۔ یہ اور بات کہ آئے وہ میاں صاحب کے گھر۔ عمران خان انہیں یاد ہی نہ رہے۔
تاہم ماضی کے تلخ تجربات‘ بھارت کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں‘ بالادستی کے عزائم اور جنگی جنون سے نالاں ہر باشعور اور دور اندیش شخص خوفزدہ اور محتاط ہے۔ اپنے تاجر مزاج حکمرانوں کی ذاتی معاملات میں حد درجہ ذہانت اور قومی اُمور میں سادہ لوحی و لاپروائی ہر کسی کو کھٹکتی ہے۔ تجارت کی بات ہوتی ہے تو ہر ایک کا ماتھا ٹھنکتا ہے کہ پاکستان کونسی اشیا بھارت کو برآمد کر سکتا ہے ؟چینی ‘ سیمنٹ‘ مرغی کا گوشت اور چند مرعوب دانشور ؎
سپردم بہ تو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم و بیش را
وہ بھی اس صورت میں کہ نان ٹیرف بیرئرز کا کھٹکا نہ ہو۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان سے چینی کس کی برآمد ہوتی ہے‘ بھارت کا سستا اور گھٹیا سامان ہماری منحنی سی مارکیٹ کو کتنی جلد تباہ کر سکتا ہے اور پھل سبزیوں‘ گوشت ‘ مصالحے ‘ کپڑے ‘ انجینئرنگ کے سامان اور سرخی پوڈر کی درآمدات سے سالانہ کتنا سرمایہ ہم بھارت کو دان کریں گے ، یہ زبوں حال صنعت و تجارت کے لیے مرے کو مارے شاہ مدار کی کیفیت ہو گی مگر جن کی جیب میں پیسہ آ رہا ہو اور مُنہ میں پانی، انہیں اس سے کیا۔
کشمیر‘ پانی اور بلوچستان میں دہشت گردی کے ایشوز اگر دو طرفہ مذاکرات کے ایجنڈے پر ہوں، بھارت ممبئی کو بھول کر سنجیدہ مذاکرات پر آمادہ ہو اور پائیدار امن کے لیے بھارت بالادستی کے عزائم سے نجات پا کر دو طرفہ تعلقات کے قیام میں پیش رفت کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اپنے حصے کا کردار ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی برتے ۔ پاکستان تو اپنے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کی خواہش کے مطابق امریکہ و کینیڈا طرز کے تعلقات کا حامی ہے مگر بھارت کبھی ہماری سنے اور جانے تو ؎
شفق، دھنک‘ مہتاب‘ گھٹائیں‘ تارے‘ نغمے‘ بجلی‘ پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
ہمارا دامن تو جب بھی بھارت کے ہاتھ میں آیا ، ظالم نے تار تار ہی کیا حالانکہ پرویز مشرف‘ آصف علی زرداری اور نواز شریف جیسے حکمرانوں کی ہمیشہ خواہش رہی ؎
چاہت کے بدلے میں ہم ‘بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک‘ کوئی ہمیں اپنائے تو
واجپائی جب 1999ء میں واہگہ کے راستے پاکستان آئے تو اس دورے کے مخالفین سے پنجاب حکومت نے وحشیانہ سلوک کیا تھا۔ لٹن روڈ پر جماعت اسلامی کے کارکنوں سے وہی سلوک ہوا جو کشمیر میں بھارت کا ہر حکمران ''کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘کا نعرہ بلند کرنے والے سیاسی کارکنوں سے کرتا ہے۔ جب اسی سال اکتوبر میں نوازشریف حکومت کا خاتمہ ہوا اور شریف خاندان کو جنرل پرویز مشرف نے قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا تو بعض لوگ اسے بے قصور‘ نہتے کارکنوں کی آہوں کا نتیجہ قرار دیا کرتے تھے، واللہ اعلم بالصواب۔ اس بار مگر نریندرمودی کی آمد پر کسی نے دورے میں کھنڈت ڈالی نہ پنجاب پولیس نے حکومت کا حق نمک اداکیا۔
خوش فہمی کا کوئی جواز نہیں اور بدگمانی سے اللہ بچائے مگر پاکستانی قوم 68 سال میں ایسے بہت سے ناٹک دیکھ چکی ہے۔ بھٹو سورن سنگھ تو کئی سال تک ملے اور امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک بھی مذاکرات کی کامیابی کے محض خواہش مند نہیں بلکہ ضامن تھے کیونکہ انہی کی ترغیب پر ایوب خان نے 1962ء میں چین بھارت جنگ میں غیر جانبداری برتی اور کشمیر بزور شمشیر حاصل کرنے کا موقع گنوایا مگر ان مذاکرات کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہ نکلا کہ 1965ء اور 1971ء کی تباہ کن جنگیں ہوئیں۔ خوشگوار تعلقات کی رہی سہی اُمیدیں بھی دم توڑ گئیں۔ باقی تاریخ ہے۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں راجیو گاندھی بھی اسی طرح ماسکو سے براستہ افغانستان‘ پاکستان وارد ہوئے تھے۔ اس سرپرائز وزٹ پر پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے مگر اس دورے نے سول ملٹری تعلقات کو نقصان پہنچایا۔ 1999ء میں واجپائی اور نوازشریف کے مابین پیار کی پینگیں بالآخر 12 اکتوبر پر منتج ہوئیں اور جنرل پرویز مشرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو فراموش کر کے بھارت سے جس معاہدے کے خواب دیکھنے لگے تھے وہ ان کے اقتدار کے لیے سم قاتل ثابت ہوا کیونکہ پاک فوج اور اسٹیبلشمنٹ بھارت سے پرامن، باوقار اور خوشگوار تعلقات کی خواہاں ضرور ہے جبکہ قوم بھی یہی چاہتی ہے مگر ضرورت سے زیادہ جلد بازی اور کور ایشوز کو پس پشت ڈال کر معاملات پر مذاکرات کا بھارت کو تو فائدہ ہے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے اپنی امن پسندی کا ڈھنڈورا پیٹتا اور بھارتی سرمایہ کاروں کے نقطہ نظر سے نارملائزیشن کا مقصد حاصل کرتا ہے مگر پاکستان کے ہاتھ نقصانِ مایہ و شماتتِ ہمسایہ کے سوا کچھ بھی ہاتھ آیا نہ آ سکتا ہے۔
بھارت پاکستان کے ایٹمی پروگرام‘ سول ملٹری تعلقات اور جہادی کردار کے حوالے سے مخالفانہ پروپیگنڈا تعلقات کی بہتری اور قیام امن کے لیے نہیں کرتا اور اُس نے امریکہ سے مل کر حالیہ دنوں میں جو پاکستان مخالف ایجنڈا ترتیب دیا ہے وہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے نہیں علاقائی بالادستی اور پاکستان دشمنی کا مظہر ہے۔ امریکہ اگر حقانی نیٹ ورک کے ساتھ جماعت الدعوۃ اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو منسلک کر کے میاں نوازشریف سے ایٹمی دہشت گردی کے خطرے کی نشاندہی کراتا ہے تو اس کے پس پردہ مقاصد کی تفہیم ہمارا قومی فرض ہے ۔محض مودی کی منافقانہ مسکراہٹ‘ مکارانہ یوٹرن اور سالگرہ پر خوشی کے اظہار سے کسی خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ،یہ بھارتی برہمن سیاست کا دیرینہ فارمولہ اور آزمودہ ہتھیار ہے۔ شیواجی اور افضل خاں کے قصے میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ بغل میں چھری منہ میں رام رام برہمن قیادت کی عادت ہے۔
قائداعظمؒ اور اقبالؒ نے برہمنی سوچ کو خوب سمجھا اور گاندھی کے ہتھکنڈوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے مگر ہم اپنے آپ کو ان سے زیادہ ذہین‘ مدبر اور شہ دماغ سمجھتے ہیں اس لیے مودی پر صدقے واری جا رہے ہیں ۔مودی‘ واجپائی‘ اندراگاندھی اور جواہر لال نہرو پاکستان کے حوالے سے ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں جو چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ مقصد کشیدگی سے حاصل ہو‘ دھمکیوں اور دراندازی سے ‘ مسکراہٹ‘ جن جپھوں اور قیمتی تحائف سے ؎
دیکھ مسجد میں شکستِ رشتۂ تسبیح شیخ
بُت کدے میں برہمن کی پُختہ زُناری بھی دیکھ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں