یہ پنجاب میں کیا ہو رہا ہے؟ قانون کا ڈر‘ نہ خدا کا خوف اور نہ کوئی شرم و حیا۔ اجتماعی زیادتی کا ایک اور المناک واقعہ‘ جس کا مرکزی ملزم ایک رکن اسمبلی کے گھر سے گرفتار ہوا۔ اندھیر نگری چوپٹ راج۔
پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کے چرچے اب بھارت میں بھی ہونے لگے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے مشیر سلامتی اجیت دول نے جاتی امرا میں میاں نواز شریف کے سامنے شہباز شریف کی حیرت انگیز کار گزاری کو سراہا حالانکہ ہندوستان میں نتیش کمار کی گڈ گورننس ضرب المثل ہے۔مودی کی کالی زبان کا اثر ہے یا شائد پنجاب کی گڈ گورننس کو کسی اورکی نظر لگ گئی ہے کہ ہر روز ظلم و زیادتی کا کوئی نہ کوئی المناک واقعہ پیش آرہاہے اور چاروں طرف سے انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ ماڈل ٹائون کا طعنہ دیا۔
ابھی قصور میں زیادتی کے درجنوں واقعات‘ فیصل آباد میں طالبہ کے ساتھ مسلم لیگی رہنما کے صاحبزادے کی زیادتی اور بہاولپور میں اس سے ملتے جلتے واقعہ کی یادیں تازہ تھیں کہ لاہور ایک پندرہ سالہ بچی کی چیخوں اور آہوں سے گونج اٹھا۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ کہ واقعہ کا مرکزی ملزم حکمران جماعت سے وابستہ ہے اور دو دن تک قانون کے ہاتھ سے محفوظ ایک رکن اسمبلی کے گھر میں چھپا رہا۔ پولیس نے اس گرفتاری کو اپنا کارنامہ انجام دیا ہے مگر یہ کارنامہ اس صورت میں قرار پاتا کہ بھیانک جرم کے مرتکب شخص کو پناہ دینے والے کی گرفتاری بھی ساتھ عمل میں آتی۔ اگر ٹارگٹ کلرز کا ہسپتال میں علاج معالجہ کرنے والا ڈاکٹر عاصم کئی ماہ سے گرفتار اپنے کیے کی سزابھگت رہا ہے تو معصوم بچیوں کو ملازمت‘ فلموں اور ڈراموں میں کرداریا کوئی دوسرا جھانسہ دے کر اجتماعی زیادتی کے عذاب سے گزارنے والے مبینہ ملزم عدنان ثناء اللہ کو پناہ دینے والے کی گرفت کیوں نہیں؟ بلاول بھٹو کی زبان تب کون روک سکتا ہے۔
یہ فیصلہ عدالت کرے گی کہ لڑکی اغوا ہوئی یا کسی ترغیب اور لالچ کا شکار ہو کر ملزموں کے ہتھے چڑھی۔ مگر اجتماعی زیادتی کے شواہد تو سامنے آ چکے ہیں اور یہ واقعہ بھی کسی دور دراز علاقے میں نہیں صوبائی دارالحکومت کی اہم ترین شاہراہ پر واقع ہوٹل میں ہوا۔ ہوٹل کے مالک اور ملازمین میں سے کسی نے بنت حوا کو وحشی درندوں کے چنگل سے نجات دلانے کی کوشش نہ کی۔ یہ دوہرا جرم ہے۔ اگر ایس ایم ایس پڑھ کر ماںموقع پر نہ پہنچتی توممکن ہے بااثر درندے نیم بے ہوش لڑکی کو کسی سنسان جگہ پر زندہ یا مردہ پھینک کر فرار ہو جاتے۔ لاہور میں آئے روز نوجوان اور خوبرو لڑکیوں کی لاشیں ملتی ہیں جو جنسی زیادتی کا نشانہ بن چکی ہوتی ہیں۔ ایک آدھ کے سوا کبھی کسی کے قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔ جو ہوئے ‘ انہیں کیا سزا ملی؟ واللہ اعلم بالصواب۔
صرف پنجاب پر ہی کیا موقوف پاکستان کا ہر صوبہ اور علاقہ جنسی درندوں‘ قاتلوں‘ ڈاکوئوں‘ لٹیروں اور اغوا کاروں کی زد میں ہے ۔لوٹ مار کا پیسہ ہے جو بالعموم عیش و عشرت پر لٹایا جاتا ہے۔ مال حرام بود بجائے حرام رفت ۔ ہر ایک کو معلوم ہے کہ یہاں بڑے سے بڑا جرم قابل معافی ہے۔ بس آپ کا تعلق مصطفی کانجو کی طرح کسی طاقتور‘ بارسوخ اور بااختیار گروہ سے ہونا چاہیے۔ کم از کم کسی وزیر‘ مشیر‘ رکن اسمبلی اور اس کے رشتے دار کا گماشتہ و آلہ کار۔ پیسے کی دوڑ‘ نمود نمائش کے کلچر‘ چادر دیکھے بغیر پائوں پھیلانے کی عادت اور کارپوریٹ کلچر کی عکاس بھارتی فلموں‘ ڈراموںنے نوجوان نسل کو تباہی و بربادی کے دہانے لاکھڑا کیا ہے۔ محنت ‘ ریاضت اور ایمانداری و دیانتداری سے آگے بڑھنے کا جذبہ دم توڑ رہا ہے اور راتوں رات دولت‘ شہرت اور اس کے بل بوتے پر عزت حاصل کرنے والوں کی پوجا ہونے لگی ہے یہ دولت منشیات فروشی اور سمگلنگ سے حاصل ہو‘ دہشت گردوں کی سہولت کاری سے یا اپنی اور اپنے خاندان کی عزت و آبرو کا جنازہ نکال کر ‘ کسی کو پروا نہیں۔قانون و ضابطہ رکاوٹ بن سکتا ہے نہ سماجی اقدار اور مذہبی روایات۔
ایک اخلاق باختہ اور شرم و حیا سے عاری ٹولہ نوجوان نسل کو ڈھٹائی سے یہ باور کرانے میں لگا ہے کہ مذہب‘ اخلاق اور خاندانی و معاشرتی رکاوٹیں سب ڈھکوسلے ہیں۔ مساوات اور جنسی آزادی ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو گئی ہے اور ناپختہ ذہن بے ہودہ فلموں‘ ڈراموں اور سوشل میڈیا پر فروغ پذیر آوارگی سے متاثر ہو کر تباہی و بربادی کے راستے پر گامزن ہیں۔
شہر میں برائی کے اڈے کسی سے چھپے ہیں نہ انہیں کسی قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہے‘ صرف اور صرف بااثر افراد اور علاقہ پولیس کی سرپرستی کے سبب یہاں عزتیں لٹتی اور آبروئیں پامال ہوتی ہیں۔یہ دھندا غیر قانونی ہے مگر قانون کے محافظ اپنا مال پانی بنانے کے لیے انہیں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہاں صرف گناہ کا کاروبار نہیں ہوتا‘ یہ دہشت گردوں‘ اغوا کاروں‘ اشتہاریوں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث افراد کے لیے محفوظ پناہ گاہوں کاکام بھی دیتے ہیں مگر چونکہ ان کے مالکان بارسوخ ہیں‘ حکمرانوں کے چہیتے اور پولیس و بیورو کریسی کے مالیاتی سرپرست‘ لہٰذا انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ورنہ انہی علاقوں میں کوئی غریب آدمی چائے کا کھوکھا بھی لگا لے تو معلوم نہیںجانچ پڑتال کے کس کس عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔
امن و امان کے حوالے سے پنجاب کے حالات عرصہ ٔ دراز تک دوسرے صوبوں سے بہتر رہے۔ میاں شہباز شریف کی مانگ اتنی بڑھی کہ نریندر مودی بھی ان کا ذکر لے بیٹھے مگر اب یہاں ایسے شرمناک واقعات ہونے لگے ہیں کہ پنجاب کے باسی دوسرے صوبوں کے حکمرانوں اور عوام سے مُنہ چھپانے پر مجبورہیں ۔گوجرانوالہ میں دن دیہاڑے برات لوٹ لی گئی۔ شیخو پورہ میں ایک بدخصلت زمیندار نے محنت کش کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے کہ ہماری بیگار مفت نہیں کر سکتے تو زندگی بھر محنت مزدوری نہ کر سکو جبکہ گزشتہ روز دو سو روپیہ کرایہ مانگنے پر باراتیوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو گلہ دبا کر قتل کر دیا۔
صاف نظر آ رہا ہے کہ قانون کا خوف باقی نہیں رہا اور جرائم پیشہ‘ بارسوخ اورطاقتور افراد من مانی پر اتر آئے ہیں۔ انہیں شائد یہ احساس ہو گیا ہے کہ وہ کسی کی بہو بیٹی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائیں‘ کسی محنت کش کا ہاتھ کاٹ لیں یا ٹیکسی ڈرائیور کو محض دو سو روپے کی معمولی رقم مانگنے پر قتل کر ڈالیں ‘کوئی ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ یہ سینہ زوری اس ظالمانہ سیاسی‘ معاشی اور سماجی نظام کا تحفہ ہے جو امیر اور طاقتور کے سات قتل معاف اور غریب و کمزور کی معمولی لغزش کو ناقابل معافی ٹھہراتا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر ملک اور اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی اور عدنان ثناء اللہ کے لیے رکن اسمبلی کا گھر حاضر مگر غریب کا بچہ ٹیکسی کا کرایہ یا محنت کا معاوضہ‘ کھانے کا بل کام سے چھٹی مانگ لے تو واجب القتل ۔ اسی دوہرے نظام کی بقا و دوام کے لیے مظلوم‘ بے بس اور بدنصیب عوام اپنے آقائوں کے ساتھ مرے جاتے ہیں۔
لاہور کی پندہ سالہ بچی سے اجتماعی زیادتی‘ شیخو پورہ میں ٹیکسی ڈرائیور کا قتل اور محنت کش کے قطع ید کے واقعات ایک آدھ دن کے وقفہ سے ہوئے اور پنجاب کی گڈ گورننس کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔ اگر روایتی نظام عدل اور قانونی طریقہ کار کو موقع ملا تو ایک نہ ایک دن یہ سارے مجرم مل ملا کر‘ کچھ دے دلا کر اور اپنے سیاسی سرپرستوں کی اعانت سے چھوٹ جائیں گے۔ ماضی کا تجربہ یہی ہے۔ چھوٹنے کے بعد ان کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور یہ معاشرے کو جہنم بنا دیں گے۔پولیس مقابلے اس کا حل نہیں کہ ان سے کوئی عبرت نہیں پکڑتا اُلٹا سو قسم کے سوالات اٹھتے ہیں۔ ایک بار تو جی کڑاکر کے یہ مقدمات فوجی عدالتوں کے حوالے ہوں اور مجرموں کو عبرتناک سزا دلائی جائے پھر انہیں اسی جگہ پر لٹکایا جائے جہاں یہ شرمناک جرم کے مرتکب ہوئے۔ اجتماعی زیادتی کے مجرموں کے سیاسی سرپرستوں کو بھی شامل تفتیش ضرور کیا جائے تاکہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ سندھ میں قانون الگ اور پنجاب میں الگ ہے۔ سندھ میں سیاست اور جرم کا ملاپ گناہ کبیرہ ہے مگر پنجاب میں معیوب تک نہیں۔ سزا کے علاوہ جرم کے فروغ میں مددگار عناصرو عوامل کی بیخ کنی بھی ضروری ہے۔ اخلاقی اقدار اور معاشرتی روایات کا احیا و فروغ حکومت‘ سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی ترجیح اول نہ ٹھہرا تو یہ سلسلہ رکنے والا نہیں‘ پھر سخت سزائیں بھی شائد کارگر ثابت نہ ہوں۔