مایوسی

آزاد انصاری نے کہا تھا ؎
سب جہانوں سے جدا اپنا جہاں تخلیق کر
سب مکانوں سے جُدا اپنا مکانِ دل بنا
دل کا معاملہ وہ خود جانتے ہیں یا اُن کا اللہ مگر صدر ممنون حسین نے ایوان صدر کو الگ انداز میں آباد کیا ہے۔ اتنی بڑی‘ عالیشان‘ جدید سہولتوں سے آراستہ عمارت کو انہوں نے ویران جزیرہ رہنے دیا نہ ماضی کی طرح سیاسی جوڑ توڑ کا مرکز۔ یہاں علمی‘ ادبی‘ فکری اور روحانی محفلوں کی طرح ڈالی اور اپنے آپ کو تنہائی کے احساس سے بچا لیا۔
اس جمعرات کو انہوں نے جمہوری معاشرے میں میڈیا کے کردار اور قائد اعظم کے تصورات پر تبادلۂ خیال کے لیے ملک بھر سے مدیران اخبارات و جرائد‘ کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کو مدعو کیا۔ اپنی گفتگو میں انہوں نے پاک بھارت تعلقات سے لے کر توانائی کے منصوبوں‘ پاک چین اقتصادی راہداری اور کرپشن کے خاتمے تک اہم موضوعات کا احاطہ کیا‘ تاہم میڈیا ان کے خیال میں مایوسی پھیلاتا اورمعاشرے میں بے چینی پیدا کرتا ہے۔ فرمایا کہ وہ ٹی وی چینلز کے ٹاک شو بہت کم دیکھتے ہیں ‘نہ ہونے کے برابر۔
ایوان صدر میںاس بار قائد اعظم کے یوم پیدائش کے حوالے سے ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا جس میں قائد کے نوادرات‘ پاسپورٹ‘ تعلیمی اسناد اور تصاویر رکھی گئی تھیں۔ منتخب تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کو یہ نمائش دیکھنے کی دعوت دی گئی اور تبادلۂ خیال کی محافل برپا ہوئیں۔ صدر محترم کو انہی محافل میں نوجوان نسل کے خیالات‘ جذبات اور احساسات جاننے کا موقع ملا اور مایوسی کا اندازہ ہوا جس سے انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ میڈیا کی پھیلائی ہوئی منفی سوچ ہے جس سے متاثر نوجوان نسل مایوسی کا شکار ہے۔
ایک روز قبل اسلام آباد میں وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات نے بھی ایک سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس میں وفاقی وزراء پرویز رشید‘ اسحق ڈار‘ زبیر عمر نے مختلف سرکاری محکموں‘ منصوبوں اور فیصلوں میں شفافیت کی نشاندہی کی۔ یہ حکومتی نقطہ نظر اہل صحافت کے روبرو پیش کرنے کی اچھی کاوش تھی۔ دو اڑھائی سال تک میڈیا کی تنقید کو تعصب اور مخالفت برائے مخالفت کا آئینہ دار سمجھ کر اپنے آپ میں مگن حکومت کو بالآخر یہ احساس ہوا کہ محض گلہ شکوہ کافی نہیں‘ تبادلۂ خیال اور ازالۂ اعتراض بھی ضروری ہے۔ بعض وزراء کرام نے یہاں بھی میڈیا کی تنقید کو منفی طرز عمل اور مایوسی کا شاہکار قرار دینے میں بُخل سے کام نہ لیا۔
صدر محترم کی گفتگو ختم ہوئی تو جناب عارف نظامی سے لے کر محترم مجیب الرحمن شامی و سلمان غنی اورزاہد ملک و رئوف طاہرسے لے کر جبار خٹک‘ خوشنود علی خاں ‘ رحمت علی رازی ‘ سکندر لودھی تک ہر ایک نے اپنا نقطۂ نظر پیش کیا اور صدر سے میڈیا کے ساتھ ''کُٹی‘‘ ختم کرنے کی اپیل کی۔ کج بحثی پر کوئی بھی نہ اُترا اور ہر بات کو صدر نے بھی خندہ پیشانی سے سنا‘ درمیان میں وضاحتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ موقع ملا تو میں نے عرض کیا کہ نوجوان نسل میں مایوسی کی اہم ترین وجہ قائد اعظم کے اقوال‘ افعال‘ طرز زندگی اور انداز کار کے مقابلے میں موجودہ حکمران اشرافیہ کے کرتوت ہیں جنہیں دیکھ اور سن کر قوم کا فشار خون بلند اور جذب و جنون سے سرشار نوجوانوں کا حوصلہ پست ہوتا ہے۔
قائد اعظم وقت کے پابند تھے‘ اس قدر زیادہ کہ جب سٹیٹ بنک آف پاکستان کی عمارت کے افتتاح کے موقع پر وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی کی آمد میں تاخیر ہوئی تو قائد نے سٹیج پر سے وزیر اعظم کی کُرسی اٹھوا دی اورمقررہ وقت پر تقریب شروع کرنے کا حکم دیا مگر ہماری کوئی سرکاری تقریب دو اڑھائی گھنٹہ کی تاخیر کے بغیر شروع نہیں ہوتی۔ وقت کی پابندی پر بھلاکیا خرچ آتا ہے ؟قائد اعظم کی جُز رسی اور امانت و دیانت ضرب المثل ہے ۔ وہ اپنے ذاتی اور سرکاری اخراجات کو الگ الگ رکھتے اور دونوں میں فضول خرچی کو ناپسند کرتے۔ جبکہ آج حالت یہ ہے کہ قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کے جذبے کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔سالگرہ پر مبارکباد دینے والے بھارتی وفد کے چائے پانی کا خرچہ بھی پی آئی اے نے برداشت کیا حالانکہ دو اڑھائی لاکھ روپیہ تو وزیر اعظم کے ہاتھ کی میل ہے۔ دلوں میں خوفِ خدا ‘نہ خیالِ روز جزا۔
قائد اعظم ایثار و قربانی کا مجسّمہ تھے۔ وفات سے قبل اپنے بیشتر اثاثے کراچی اور پشاور کے تعلیمی اداروں کے علاوہ حکومت پاکستان کو وقف کر گئے مگر نوجوان نسل دیکھ رہی ہے کہ ہمارے حکمران اور قائد اعظم سے وابستگی کے دعویدار ایثار و قربانی کے باب میں کس قدر تہی دامن ہیں ۔ نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں جن150افراد کی فہرست جمع کرائی گئی تھی اُسے پڑھ کر شرم آتی ہے کہ کیسے کیسے لوگ سرکاری مال و متاع کو شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے۔ قائد اعظم نے کبھی اپنے خاندان کے کسی فرد کو امور حکومت میں دخل اندازی کی اجازت نہ دی۔ ان کے بھائی نے اپنے بزنس کارڈ پر برادر گورنر جنرل آف پاکستان پرنٹ کرا لیا تو ملنے سے انکار کر دیا مگر یہاں پورے کا پورا''ٹبر‘‘ ہی حکمران ہے ۔ ملوک و سلاطین کا دور لوٹ آیا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ نوجوان نسل کو مایوسی سے بچانا ہے تو حکمران اشرفیہ اپنے طرزعمل اوراندازفکر پر نظرثانی کرے۔ میڈیا جب انہی تضادات کو نمایاں کرتا ہے تو ایوان اقتدار میں بے چینی جنم لیتی اور شکوہ و شکایات کی وبا پھوٹتی ہے۔ صدر نے گفتگو کے اختتام پر وقت کی پابندی کا وعدہ کیا اور اپنے ملٹری سیکرٹری کو ہدایت کی کہ آئندہ میر ی زیر صدارت ہونے والی تقریبات وقت پر شروع ہوں تاہم ان کی یہ بات درست تھی کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بتایا کہ ایک تقریب میں ‘ میں وقت پر چلا گیا تو منتظمین بھی نہیں پہنچے تھے اور صرف دو افراد ہال میں موجود میری طرح تقریب کے منتظمین کا انتظار کر رہے تھے۔ صدر مملکت نے ٹیکسوں کی وصولی کا نظام بہتر بنانے اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینے پر زور دیا اور اپنے تجربات کی بنا پر کہا کہ ملک کا تاجر اور کاروباری ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتا مگر موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ انہیں ٹیکس دینے پر آمادہ کرے۔
حکومت نے قوم کو ایمنسٹی سکیم کی صورت میں نئے سال کا جو تحفہ عطا کیا ہے‘ اس پر خوشی سے بغلیں بجانے والے بہت ہیں مگر خدا لگتی بات یہ ہے کہ اس حکومتی اعلان سے ایماندار اور برسوں بلکہ عشروں سے باقاعدگی کے ساتھ ٹیکس ادا کرنے والے تاجروں اور عام شہریوں کو مایوسی ہوئی ہے اور یہ مایوسی پھیلانے کا ذمہ دار میڈیا ہے ‘نہ وہ کالم نگار جنہیں بار بار تعمیری تنقید کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ چھ ماہ تک تو حکومت یہ اصرار کرتی رہی کہ ہر تاجر کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنی ہو گی مگر جب مسلم لیگ کے حامی تاجر طبقہ نے سنی ان سنی کر دی تو رٹ آف گورنمنٹ قائم کرنے کے بجائے وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور ایک ایمنسٹی سکیم کا اجراء کیا جس کے تحت ہر نان فائلر ایک فیصد ٹیکس ادا کر کے اپنی حرام کی آمدنی کو حلال اور کالا دھن سفیدکر سکتا ہے۔ منشیات فروش‘ سمگلر‘گراں فروش اور قبضہ گروپ اس سکیم سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ماضی میں بھی ایسی کسی سکیم کا فائدہ ریاست کو نہیں ہوا البتہ کالے دھن اور کالے کرتوتوں والے فائدے میں رہے۔
سکیم سے ٹیکس چوری کا رجحان بڑھے گا اورہر شخص یہ سوچے گاکہ چار چھ سال بعدجب بالآخر اُسے حرام کو حلال کرنے کا موقع حکومت فراہم کر ہی دے گی تو ٹیکسوں کے جال میں پھنسنے کی ضرورت کیا ہے۔ یہ ایک امتیازی قانون ہے جس کا فائدہ ایک مخصوص طبقہ اٹھائے گا ۔2018ء تک اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ حکومت کے مدنظر 2018ء کے انتخابات ہیں اور تاجروں کو یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ سے اگلے دو سال تک کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ اگر آپ مستقل اس رعائت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو پھر اگلا انتخاب بھی مسلم لیگ کو جتوائیں۔ یہ دیانتدار ٹیکس دہندگان کے ساتھ ظلم اور ایک طاقتور ٹیکس نادہندہ لابی کے سامنے سرنڈر ہے۔ معلوم نہیں نوجوان نسل اس حکومتی سکیم کی تفصیل پڑھ کر خوش ہو گی یا مایوس؟ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ 
مودی کے دورہ جاتی اُمرا اور دونوں ممالک کے مابین مذاکرات میں بریک تھرو کے ضمن میں بھارتی وزیراعظم کی افتاد طبع اور ٹریک ریکارڈ کے حوالے سے صدر ممنون حسین نے ایک ایسی بات کہی جو قومی اُمنگوں کی عکاس تھی مگر نازک مزاج شاہاں تاب سخن ندارند کے پیش نظرآف دی ریکارڈ قرار پائی لہٰذا درج کرنے سے قاصر ؎
افسوس! صد ہزار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں