بھارتی کیلا اور وزیر اعظم کا پاؤں

میاں نواز شریف اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کی فون کال سن کر پریشان اور برہم نظر آئے۔ پریشانی تو قابل فہم تھی۔1999ء میں اٹل بہاری واجپائی کے دورۂ لاہور کے بعد کرگل ہو گیا اور کشمیری نژاد وزیر اعظم نے پاک بھارت تعلقات کو پروان چڑھانے اور مسئلہ کشمیر کو جیسے تیسے حل کر کے دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے جو سپنے دیکھے تھے وہ ڈرائونا خواب بن گئے۔ نریندر مودی کے دورۂ لاہور کے بعد پٹھان کوٹ واقعہ کو بھی میاں صاحب نے اسی پس منظر میں دیکھا اور جانچا مگر برہمی؟ ناقابلِ فہم ‘ ناقابلِ یقین۔
سیمنٹ کے ایک کارخانہ کی تنصیب‘ پانچ سو گاڑیوں کی فروخت اور دیگر منصوبوں کے حوالے سے معاہدوں سے خوش وزیر اعظم نواز شریف کو جب نریندر مودی نے فون کیا تو ان کی پریشانی دیدنی تھی۔ وزیر اعظم کے وفد میں شامل ایک سینئر اخبار نویس کے بقول انہیں شک تھا کہ کہیں یہ ہمارے ہی لوگوں کی کارروائی نہ ہو جو نریندر مودی کے دورۂ لاہور سے خوش نہیں‘ نریندر مودی نے وزیر اعظم کو پاکستان سے ہونے والی جس فون کال کے بارے میں بتایا‘ وہ اگرچہ ناصر نامی کسی شخص کی تھی مگر رئوف نام سے وہ چونک گئے تھے اور ماضی کے تجربات کی بناء پر نریندر مودی کے دعوے کو فوری طور پر جھٹلانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ برہم وہ اس بات پر تھے کہ واجپائی کی طرح وہ نریندر مودی کے سامنے شرمندہ ہوئے ۔اس بنا پر انہوں نے ایک اخبار نویس سے کہا اگر یہ ہمارے کسی فرد یا ادارے کی کارروائی ہوئی تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
مصدقہ اطلاعات کے مطابق بھارت نے اب تک پاکستان کو حملہ آوروں کے حوالے سے جو ثبوت پیش کئے ہیں وہ دو موبائل فون نمبر ہیں اور ان پر کی گئی گفتگو کا ریکارڈ ہے۔ بھارتی میڈیا میں دونوں فون نمبر بھی شائع ہو چکے ہیں اور یہ ایس پی سلویندر سنگھ کے ڈرائیور کی آٹھ کالیں ہیں جبکہ ایک کال مبینہ طور پر پاکستان سے کسی ناصر نامی شخص نے کی۔ انڈین ایکسپریس نے سردرد کی مقبول گولیوں پونسٹان کے ریپرز کو بھی بطور ثبوت پیش کیا جن پر میڈ ان کراچی لکھا ہواتھا۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر ہلاک ہونے والے چھ ہائی جیکروں کی بطور پاکستانی شناخت ابھی تک کنفرم نہیں ہوئی جبکہ بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سربراہ شرد کمار کے بقول حملہ آوروں کے ڈی این اے ٹیسٹ ہو چکے ہیں جن سے کسی کے پاکستانی یا کشمیری ہونے کا ثبوت نہیں ملا۔
مستند اور قابل اعتماد شواہد نہ ہونے کی بنا پر بھارت کھل کرپاکستان پر اس طرح کی الزام تراشی کرنے کی پوزیشن میں نہیں جس طرح ماضی میں اس کا وتیرہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک بھارت نے سیکرٹری خارجہ سطح پر مذاکرات منسوخ کیے ہیں نہ کوئی نیا مطالبہ کیا ہے البتہ وہ پاکستان پر امریکہ کے ذریعے مسلسل دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ جلد از جلد پٹھان کوٹ واقعہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ تاہم پاکستان کے لیے مشکل یہ ہے کہ وہ دو ٹیلی فون نمبروں اور پونسٹان کی گولیوں پر چڑھے ریپرز کے ملنے پر کسی کے خلاف نہ تو کارروائی کر سکتا ہے نہ کسی عدالت سے رجوع۔ بھارتی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے اب تک جو چھان بین کی ہے اور ان کی روشنی میں جن پانچ چھ افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں ان کا تعلق بھارتی فوج‘ ایئر فورس ‘ پولیس اور شہریوں سے ہے۔ معروف سکھ رہنما بھائی بگیچہ سنگھ وڑائچ تسلسل سے الزام لگا رہے ہیں کہ ''را‘‘ اور دیگر بھارتی اداروں نے پٹھان کوٹ حملہ کشمیریوں اور سکھوں کو بدنام کرنے اور حالیہ دنوں میں اپنے حقوق کے لیے سرگرم خالصہ نوجوانوں سے نمٹنے کے لیے خود ہی پلان کیا۔ حتیٰ کہ سابق وزیر دفاع اے کے انتھونی برملا یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت پٹھان کوٹ واقعہ کے بارے میں قوم کے سامنے سچ بولنے کے بجائے حقائق کو چھپا رہی ہے۔
جس طرح کے ثبوت بھارت نے پاکستانی حکام کو دیئے ہیں ان کی روشنی میں کوئی پاکستانی حکومت کسی کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے نہ عدالتوں میں کسی کو مجرم ٹھہرایا جا سکتا ہے۔بھارتی ادویات‘ مصالحے اور دیگر اشیا پاکستانی مارکیٹوں میں دستیاب ہیں اور میڈ ان پاکستان اشیا امرتسر و پٹھان کوٹ میں فروخت ہو رہی ہیں۔ انہیں بھارتی ہی استعمال کرتے ہیں تو کسی دوائی کا ملنا کون سی تعجب کی بات ہے۔ بھارتی عدلیہ ان کو بطور ثبوت شاید قبول کر لے مگر پاکستان میں تمام تر خرابیوں کے باوجود تفتیش کا معیار اس قدرناقص ہے نہ عدلیہ کمزور کہ ان ثبوتوں کی بنا پر کوئی عدالت کسی کو سزا دینا تو درکار پوچھ گچھ بھی کر سکے۔ پہلی پیشی پر ہی مقدمہ خارج کر دے گی‘ ممکن ہے استغاثہ پر بھاری جرمانہ بھی عائد کرے۔ 
واقعہ کو ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ پانچ چھ سرکاری افسر اور اہلکار ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ اگر ڈی این اے ٹیسٹ اور دوران تفتیش بیانات سے‘ پاکستان کے ساتھ دہشت گردوں کا کوئی تعلق ثابت نہیں ہو سکا تو پھر میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بھی اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت ہے نہ دبائو میں آنے کی ۔آرمی پبلک سکول پر حملے کے دوران افغانستان میں چھپے سرپرستوں اور دہشت گردوں کے مابین رابطوں کے ثبوت ہمارے اداروں کو ملے مگر‘ ان کی بنیاد پر ہم نے افغان حکومت کو مطعون کیا نہ امریکہ سے شکایت کی کہ وہ اشرف غنی پر ہمارے مجرموں کے خلاف کارروائی کیلئے دبائو ڈالے۔
بھارت امریکہ کی طرح سپر پاور ہے نہ ہمارا آقا کہ اس کے اپنے اداروں کی نااہلی ‘ نالائقی اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کوئی واقعہ ہو‘ چار روز تک یہ دنیا بھر میں تماشہ بنا رہے ‘فوج‘ ایئر فورس اور پولیس کے اہلکار اور افسر اس واقعہ میں ملوث پائے جائیں مگر وہ ہمیں اپنا ماتحت و باجگزار سمجھ کر حکم دے کہ اس کے ذمہ دار پکڑ کر پیش کرو اور ہم حاضر جناب کہہ کر جھٹ سے اعلیٰ سطحی اجلاس بلائیں۔ آئی بی‘ آئی ایس آئی اور دیگر اداروں کو مجرم تلاش کرنے کی ہدایت کریں اور اس خوف میں مبتلا ہو جائیں کہ اگر بھارت کے مجرم نہ ملے تو معلوم نہیں ہمارا کیا حشر ہو گا؟ جرم بھارت میں ہوا‘ پٹھان کوٹ ایئر بیس کے اندر اور باہرسرگرم دہشت گردوں کے دو گروہوں کو سہولت ایئر بیس کے اندر سے فراہم کی گئی۔ بھارت نے اب تک لاشیں اسی بنا پر چھپا رکھی ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ میں کشمیری یا پاکستانی شناخت واضح نہیںہوئی ۔ مگر تفتیش کا حکم ہمیں دیا جا رہا ہے۔رہا فون کالوں کا معاملہ تواین آئی اے اس کارروائی کو سمگلروں اور دہشت گردوں کا جوڑ قرار دیتی ہے تو یہ فون کالیں ضروری نہیں ایس پی اور اس کے ڈرائیور نے کسی پاکستانی جہادی تنظیم کے رکن سے دہشت گردی کے سلسلے میں کی ہوں‘ سمگلنگ کی کسی کھیپ کے حوالے سے بھی ہو سکتی ہیں اور بھارتی ایجنسیوں کو دھوکہ دینے کے لیے پاکستان میں را کے کسی ایجنٹ کے زیر استعمال سم سے بھی تاکہ وہ حسب عادت پاکستان کے پیچھے پڑ جائیں اور اصل ذمہ دار بچ نکلیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اپنی فوج اور ایجنسیوں کے حوالے سے ماضی کے تلخ تجربات کی بناء پر غیر معمولی حساسیت کا شکار ہیں مگر انہیں پریشان یا برہم ہونے کے بجائے معاملات کو ان کے درست تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی ایجنسیوں پر شک اور اجیت دول و نریندر مودی پر یقین؟ اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ جب بھارتی حکومت متحدہ جہاد کونسل کے دعوے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں اور الزام جیش محمد پر لگا رہی ہے اور امریکہ بھی ہر دوسرے روز بیان جاری فرما رہا ہے تو تجربہ کار وزیر اعظم بھی اس حوالے سے عجلت اور ہیجان کا شکار نہ ہوں۔ آرمی چیف کو ایک ٹرم مزید دینے کی بحث سے قومی سطح پر شکوک و شبہات پہلے سے موجود ہیں۔ ایک طرف حکومت کے بعض کرم فرما گیارہ ماہ قبل آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی بحث چھیڑ کر فوج کے رینکس اینڈ فائلز میں بے چینی پیدا کر رہے ہیں اور نادان دوست یا دانا دشمن میں فرق کرنا مشکل ہو رہا ہے‘ دوسری طرف نریندر مودی کے دورۂ جاتی اُمرا کی دھول ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ بھارت اور جہادی تنظیم کی آڑ میں آئی ایس آئی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے اور تیسری طرف آنجناب عجلت کا شکار ہیں۔ کیا امریکہ اور بھارت کے پھینکے ہوئے کیلے پر ایک بار پھر پائوں رکھنے کا ارادہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں