کالج امرتسر‘ ہاسٹل لاہور میں

بھارتی نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول کی طرف سے دی گئی معلومات پر پٹھان کوٹ ایئر بیس حملے کی ایف آئی آر کے گوجرانوالہ میںاندراج پر مجھے لطیفہ یاد آ گیا۔
خالصہ کالج کے قیام کا فیصلہ ہو گیا تو اس بات پر اختلاف رائے سامنے آیا کہ کالج لاہور میں قائم ہونا چاہیے یا امرتسر میں؟ بیٹھک میں موجودامرتسر اور لاہور کے سردار صاحبان اسے اپنے اپنے شہر میں قائم کرنے پر بضد تھے۔ جھگڑا بڑھا تو ایک سیانا بولا‘ بھلے لوگو! بات بڑھانے کی ضرورت کیا ہے‘ کالج امرتسر میں قائم کر لو‘ہاسٹل لاہور میں۔
پٹھان کوٹ واقعہ پر پاکستان مخالف بھارتی میڈیا‘ دفاعی ماہرین اور سیاستدانوں کا اب تک یہی موقف چلا آ رہا ہے کہ بھارتی حکومت‘ سکیورٹی اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کے علاوہ کسی اندرونی گروہ کی کارستانی ہے۔ بھارتی فوج‘ ایئر فورس اور پولیس کے جو افسران اور اہلکار گرفتار ہوئے ان میں سے کسی کا تعلق بھی پاکستان سے ثابت نہیں ‘ مگر روز اول سے نریندر حکومت اور مشیر سلامتی اجیت دوول مطعون پاکستان کو کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام لیا گیا اور جو فون نمبر دیے گئے وہ بھی بہاولپور کے نہیں مبینہ طور پر گوجرانوالہ کے ان سرحدی علاقوں کے نکلے جو سمگلنگ کے کاروبار کے حوالے سے بدنام ہیں۔
اجیت دوول کون ذات شریف ہیں؟ موصوف ایک انٹیلی جنس افسر کے طور پر پاکستان میں خدمات انجام دے چکے ہیںاور پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے حق میں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے کہاتھا کہ ہم پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کو مالی مدد‘ اسلحہ اور ٹریننگ دے کر افینسو ڈیفنس پالیسی کے ذریعے سبق سکھا سکتے ہیں۔ یہ دھمکی بھی انہوں نے دی تھی کہ اگر دوبارہ ممبئی جیسا کوئی واقعہ ہوا تو بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں رہے گا ۔مودی خود بھی دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے حق میں ہیںاور 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے مکتی باہنی کو بطور دہشت گرد تنظیم استعمال کرنے کا اعتراف فخریہ انداز میں کر چکے ہیں۔ اس پس منظر کے شخص کی فراہم کردہ معلومات پر گوجرانوالہ میں پٹھان کوٹ واقعہ کی ایف آئی آر کا اندراج عام پاکستانیوں کے لیے ع
اِک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
بجا کہ میاں نواز شریف بھارت سے ہر قیمت پر تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں ۔بھارتی سکھوں کو سامنے بٹھا کر انہوں نے یہ کہا کہ ہم ایک جیسا کھاتے‘ پیتے‘ پہنتے اور رہتے ہیں‘ واہگہ کی لکیر کے سوا ہم میں کوئی فرق نہیں اور ہمیں مل کر رہنا چاہیے۔ مگر بھارتی برہمن قیادت کی سازشوں سے واقف عوام واہگہ بارڈر کو محض ایک لکیر سمجھتے ہیں نہ میاں صاحب کی منطق سے متفق۔یہ لکیر کسی غاصب قوت نے زبردستی نہیں کھینچی ‘لاکھوں جیتے جاگتے انسانوں نے جان و مال ‘ اولاد اور مائوں بہنوں کی عصمت و آبرو کی قربانی دے کر قائم کی اور انگریز کے بعد ہندو برہمن کی غلامی سے بچنے کے لیے اسے ایک حفاظتی حصار سمجھا۔ غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور پاکستانی نے کبھی بھارت کی بالادستی قبول کی نہ نیپال ‘ بھوٹان اور بنگلہ دیش کی طرح اس کے احکامات کی تعمیل پر آمادہ ہوئے کیونکہ اگر یہ کرنا ہوتا تو ہم آزادی حاصل کرتے نہ گھاس کھا کر نیو کلیر قوت بنتے 1948ء‘1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑتے اور نہ بلوچستان‘ فاٹا اور کراچی میں بھارت کے گماشتہ و تربیت یافتہ دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں اور ٹارگٹ کلرز کے خلاف جنگ جاری رکھنے کی ضرورت تھی۔ 
ممبئی حملہ کے بعد پاکستان پر دبائو کی نوعیت پٹھان کوٹ سے کہیں زیادہ تھی۔ اجمل قصاب زندہ پکڑا گیا تھا مگر پاکستان نے ایک لمحے کے لیے بھی کمزوری نہیں دکھائی اور ابتدائی بوکھلاہٹ کے بعد زرداری حکومت سنبھل گئی۔ پارلیمنٹ حملہ پر دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آ گئیں مگر جنرل پرویز مشرف نے بھارت کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کی اور بالآخر بھارت مذاکرات کی میز پر آ گیا ۔ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملہ کے بعد ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے اور بے مقصد مذاکرات کی بحالی کے لیے ہم ہر قیمت ادا کرنے پر تل گئے۔پٹھان کوٹ حملہ کی ایف آئی آر کا گوجرانوالہ میں اندراج مجھے تو حماقت نظر آتا ہے جبکہ اب تک ہمارے قومی اداروں اور حکومت کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی کا یہ موقف رہا ہے کہ بھارت نے مناسب معلومات فراہم کی ہیں نہ جے آئی ٹی کو پٹھان کوٹ ایئر بیس کے معائنے کی اجازت دی ہے۔
ٹیلی فون کال کہیں سے کوئی بھی کر سکتا ہے۔ پاکستان میں چند برس پہلے تک ٹیلی فون سمیں پان سگریٹ کے کھوکھوں‘ سبزی کی ریڑھیوں اور پرچون کی دکانوں پر دستیاب تھیں۔ جعلی شناخت کارڈوں پر بیس بیس سمیں جاری ہوئیں اور افغانستان و بھارت کے بارڈر پر لگے ٹاورز کے طفیل دونوں ممالک میں پاکستانی سمیں چلتی رہیں ۔جس ملک میں ایک بھارتی شہری رستم سدھوا پاکستان آ کر نہ صرف جملہ شناختی دستاویزات حاصل کر لیتا ہے‘ بلکہ ایک رکن قومی اسمبلی اسفن یار بھنڈارا کی جائیداد پر قبضہ کے لیے عدالتوں سے رجوع کر کے حکم امتناعی لینے میں خوف محسوس نہیں کرتا وہاں ''را‘‘ کے کسی ایجنٹ اور بھارتی حکومت کے کسی فرستادہ شخص یا گروہ کا بھارت میں سمگلر یا دہشت گرد گروہ سے رابطہ مشکل ہے نہ سموں کی خریداری اور استعمال ناقابل فہم۔ ہم نے ایک ایسی واردات کی ایف آئی آر درج کر لی جو بھارت کی سرزمین پر ہوئی‘ واردات کرنے والوں میں سے کوئی زندہ ہے نہ اس کی پاکستانی شہریت کا کوئی ٹھوس ثبوت۔سوال یہ ہے کہ اس طرح بھارت مطمئن ہو گا؟ ہم بھارت میں گرفتار افراد سے تفتیش کر سکتے ہیں ؟ بھارت نے اس ایف آئی آر کی تفتیش کسی عالمی ادارے سے کرانے پر اصرار کیا تو ہم انکار کیسے کریں گے؟ اگر یہی ایف آئی آر کل کلاں کسی عالمی فورم پر ہمارے خلاف استعمال ہوئی تو ہمارے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کیا ہو گا؟ کون مانے گا کہ یہ ہماری نیک نیتی کا ثبوت ہے یا مذاکرات بحالی کی مجنونانہ خواہش کا نتیجہ؟ بھارت کا الزام ہے کہ ایئر بیس پر حملہ پاکستانیوں نے کیا اور پاکستانی ایجنسیوں یا انہیں کنٹرول کرنے والی قوت کے ایما پر۔ مگر ایف آئی آر کاٹنے کے بعد ہم کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے ثبوت نہیں دیا۔ پھر بھی نیک نیتی کا ثبوت دینے کے لیے ہم نے مقدمہ درج کر لیا ۔ سبحان اللہ!
وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے سینئر اینکر حامد میر سے ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اگر وہ وزارت سنبھالنے کے بعد قوم کی عزت نفس اور آزادی و خود مختاری کا تحفظ نہ کر سکے تو ایک سال کے اندر کابینہ چھوڑ دیں گے۔ یہ ایف آئی آر ان کی وزارت نے درج کرائی ہے۔ اس سے قوم کی عزت نفس بحال ہوئی یا آزادی و خود مختاری کا تحفظ؟ چودھری صاحب ہی بتا سکتے ہیں جو تاحال وزیر داخلہ ہیں۔ بعض ستم ظریفوں نے ایف آئی آر کے اندراج کو سول ملٹری تعلقات میں پائی جانے والی سرد مہری اور نیب کے حالیہ طرز عمل سے جوڑتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حکومت نے منتخب حکمرانوں کو بار بار گھر بھیجنے والی قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ اب ہم اکیلے نہیں ۔ آپ کے پاس نیب ہے تو ہمارے پاس ایف آئی آر۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو مگر ایف آئی آر کے اندراج کے بعد پٹھان کوٹ واقعہ میں ملوث افراد اور گروہوں کی تلاش‘ گرفتاری‘ تفتیش اور چالان پیش کر کے سزا یاب کرانا ہماری قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ اجیت دوول اور اس کے باس کا کام صرف ہردوسرے چوتھے روز ہم سے تحکمانہ انداز میں یہ پوچھنا رہ گیا ہے کہ ابھی تک مسعود اظہر اور اس کے ساتھی گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟
یہ ایف آئی آر ممکن ہے کہ کسی گریٹ گیم کا حصہ ہو۔پاکستانی اور بھارتی قوانین میں ایف آئی آر ایک ایسی بنیادی دستاویز ہے جو ماتحت عدالتوں سے سپریم کورٹ تک ملزموں کا پیچھا کرتی ہے ‘نامزد ملزم تو پھر بھی بچ نکلتے ہیں مگر نامعلوم ملزموں کے نام پر ہر بے گناہ کو پھنسایا جا سکتا ہے۔ بھارت کا ملزم مسعود اظہر ہے نہ گوجرانوالہ کا کوئی کارکن‘ سمگلر یا دہشت گرد۔ امریکہ نے ہمارے نیو کلیر پروگرام اور بھارت نے ہماری فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے ‘یہ ایف آئی آر اس میں مددگار ثابت ہو گی۔امریکہ اور بھارت کو یہ کہنے سے کون روک سکتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے باوجود پاکستان میں دہشت گردوں کا نیٹ ورک برقرار ہے جو ہمسایہ ممالک میں کارروائیوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ایٹمی پروگرام کے لیے بھی خطرہ ہے۔ عراق اور لیبیا میں امریکہ نے پہلے پروپیگنڈے کے زور پر صدام اور قذافی کو بے دست و پا کیا‘ ان پر اپنے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں اور ایٹمی پروگرام کی ایف آئی آر درج کرائی اور پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ وقوعہ پٹھان کوٹ اور ایف آئی آر اور گوجرانوالہ میں۔سردار صاحبان میں تنازعہ ختم کرنے کی یہ اچھی تدبیر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں