پولیس کی وکالت

احتساب سے مفر تو شائد اب ممکن نہیں۔ اقتدار و اختیار کے سرچشموں پر قابض اشرافیہ موجودہ کرم خوردہ‘ تعفّن زدہ اور عوام دشمن سیاسی‘ معاشی اور انتظامی ڈھانچہ میں مثبت تبدیلیوں پر تیار ہے‘ نہ اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ‘ زخم ناسور بن جائے تو اسے باقی جسم میں مزید خرابی کے لیے کھلا چھوڑنا حماقت ہے کاٹ کر باقی ماندہ حصوں کی حفاظت کی جاتی ہے مگر ہمیں شائد ڈاکو کا خنجر عزیز ہے‘ مسیحا کا نشتر ناپسندو ناگوار۔
پلڈاٹ نے قانون کی حکمرانی کے حوالے سے مکالمے کا اہتمام کیا تو ڈاکٹر شعیب سڈل اور موجودہ حکومت کے معتوب پولیس افسر محمد علی نیکوکار انے پولیس کی حالت زار پر روشنی ڈال کر حاضرین کی آنکھیں کھول دیں مثلاً یہ کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پولیس کے افسر و اہلکار پر خرچ ہونیوالی رقم فی کس صرف 94 روپے‘ بلوچستان میں 104‘ سندھ میں 112 اور خیبر پختونخوا میں 121 روپے سالانہ ہے۔ پنجاب میں پولیس کو اخراجات کے لیے 94 کروڑ روپے کی ضرورت ہے جبکہ اسے صرف بارہ تیرہ کروڑ روپے مل رہے ہیں باقی 86کروڑ روپے وہ ملزم‘ مدعی اور راہ چلتے بے گناہ راہگیروں سے وصول کر کے اپنا کام چلاتی ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب مشتاق سکھیرا نے صحافیوں سے غیر رسمی ملاقات میں بھی کم و بیش ایسی ہی باتیں شیئر کی تھیں کہ پنجاب پولیس کس طرح نامساعد حالات اور انتہائی کم ترین وسائل میں اپنے روزمرہ فرائض جرأت‘ بہادری اور جذبے سے انجام دیتی ہے۔ مشتاق سکھیرا کے ساتھ عشائیے کا اہتمام عامر ذوالفقار اور نایاب حیدر نقوی نے کیا تھا جہاں آئی جی پنجاب نے اخبار نویسوں کے سامنے دل کھول کر رکھ دیا۔ آئی جی کی بریفنگ اور پلڈاٹ کے مکالمہ میں پولیس کے امیج اور بارو بنچ کی طرف سے اپنے قومی فرائض پر بھرپور تبصرہ ہوا اور یوں لگا کہ حکمرانوں کی طرح معاشرے‘ باروربنچ نے بھی پولیس کو قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے یہ وہ عضو ضعیف ہے جس پر ہر طرح کا نزلہ گرایا جا سکتا ہے۔
مشتاق سکھیرا کی محفل میں ایک سینئر صحافی نے سانحہ ماڈل ٹائون کا ذکر چھیڑا جہاں پولیس مُنہ زور اور قاتل فورس کے طور پرسامنے آئی‘ جبکہ وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ پولیس کی اپنی مرضی سے نہیں اُوپر کے احکامات اور بے جا رعونت کا نتیجہ تھا۔ پولیس نے قانونی احکامات مانے تو کسی نے ذمہ داری قبول نہیں جبکہ پلڈاٹ کی تقریب میں یہ بات کہی گئی کہ جب اُصول پسند افسروں آفتاب چیمہ اور محمد علی نیکوکارا نے حکومت کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کیا تو انہیں نشان عبرت بنانے کی کوشش کی گئی پولیس افسران اور اہلکار جائیں تو جائیں کہاں؟ سیاسی حکمرانوں کے احکامات مان کر بھی مجرم اور نہ مان کر بھی گردن زدنی۔
قائداعظمؒ نے پشاور میں سرکاری افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ''مجھے معلوم ہے سرکاری ملازمین پر دبائو ڈالنا اور رعب جمانا سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے سربرآوردہ رہنمائوں کی عام بیماری ہے لیکن اگر آپ اپنی جگہ عزم و ارادے سے اڑے رہیں تو آپ اپنی قوم کی خدمت انجام دیں گے...اگر آپ اپنی جگہ عزم صمیم اور جوش و خروش سے کام کریں تو مجھے اُمید ہے کہ سیاستدانوں کو بھی احساس ہو جائیگا کہ وہ بدی کی بہت بڑی عمارت کھڑی اور سرکاری ملازمین کا اخلاق خراب کر رہے ہیں‘‘ بدی کی سربفلک عمارتوں کی موجودگی میں اب یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ سب سے زیادہ کرپٹ اور نااہل محکمہ یا ادارہ کون سا ہے؟ آئی جی مشتاق سکھیرا نے پولیس کی مشکلات اور مختلف ادوار میں حکومتوں کی بے اعتنائی کی تفصیل بیان کی تو ہر ایک کو اچنبھا ہوا کہ عوام جنہیں ظالم سمجھ کر دھتکارتے ہیں وہ خود کتنے ستم رسیدہ ہیں ؎
مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
ترے دل میں تو بہت کام رفو کا‘ نکلا
ایک خرابی تو پولیس کو ورثے میں ملی۔ لندن پولیس قانون کی حکمرانی کا اہتمام کرنے کے لیے قائم ہوئی (To Force Rule of Law) جبکہ جنگ آزادی کے بعد 1861ء میں ہندوستان کی پولیس کا محکمہ امن و امان کے قیام کے لیے قائم ہوا۔ دوسری خرابی پولیس کو ماتحت اور اطاعت گزار ادارہ بنانے کے لیے ہماری حکمران اشرافیہ کی پیدا کردہ ہے۔ امن و امان کے قیام میں قانون کی حکمرانی‘ اخلاقی تقاضوں اور صرف جائز اور قانونی احکامات کی تعمیل کا تصور تھانہ 1947ء کے بعد انگریز کی جانشین بیورو کریسی اور سیاسی قیادت نے ضرورت محسوس کی۔ جلیانوالہ باغ کے واقعہ کی آزادانہ تحقیقات کے بعد انگریز افسروں کو تو سزا ملی مگر سانحہ لیاقت باغ‘ تاجپورہ میں قتل عام‘ سانحہ ماڈل ٹائون کے متاثرین کو کبھی انصاف ملا نہ بے گناہ سیاسی و مذہبی کارکنوں کے قتل عام کا حکم دینے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ بدنامی پولیس کے حصے میں آئی اور دنیا بھر میں امیج ریاست کا خراب ہوا ۔
پولیس اصلاحات کا مطالبہ بجا مگر موجودہ طرز حکمرانی میں اس کی گنجائش کہاں ہے۔ جب پلڈاٹ ہی یہ انکشاف کر چکا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حالت جمہوری طور طریقوں کے حوالے سے انتہائی شرمناک ہے اور پیپلز پارٹی کا بھی حال پتلا ہے تو وہ بھلا قانون کی حکمرانی پر آمادہ ہوں تو کیوں؟ کوئی اپنے پائوں پر کلہاڑی مارتا ہے؟۔ کوئی احمق ہی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ عرصہ دراز سے صرف سیاسی جماعتوں نہیں فوجی آمروں نے بھی پولیس کے ذریعے حکمرانی کی۔ مخالفین کی سرکوبی‘ حامیوں کی ناز برادری کے لیے پولیس بہترین ہتھیار ہے اس بنا پر منتخب ارکان اسمبلی کی اکثریت کا وزیراعلیٰ اور وزیراعظم سے ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ حلقے میں ایس ایچ او اور ایس پی اس کی مرضی کا لگے اور وزیراعلیٰ بھی ایس ایچ او‘ ایس پی سے لے کر ڈی پی او تک اپنی مرضی کا تعینات کر کے سکّہ چلاتے ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس کا کام صرف چیف ایگزیکٹو کے زبانی احکامات کی تعمیل اور تحریری ہدایات کا اجراء ہے۔
1997ء میں برسراقتدار آنے کے بعد میاں نوازشریف نے گورنر میاں محمد اظہر کو صوبے کے طول و عرض میں رسہ گیروں‘ اغوا کاروں اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث گروہوں کے قلع قمع کی ذمہ داری سونپ دی ۔ آغازمیاں اظہرنے حکمران جماعت میں شامل ان بااثر افراد سے کیا جو اپنے اپنے علاقے میں مجرموں کے سرپرست تھے اور پولیس کی گرفت سے محفوظ۔ گورنر کی آشیرباد ملنے پر پولیس نے ضلع شیخوپورہ میں ایک ایسے بڑے گینگ پر ہاتھ ڈالا جس کے سرپرست میاں نوازشریف کے قریبی رکن اسمبلی کے والد تھے۔ میاں نوازشریف نے تو خیر دبائو برداشت کیا مگر ایماندار و شریف النفس وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم کو اپنے اختیارات میں مداخلت اور صوبائی حکومت کی ہتک کا احساس ہوا حالانکہ پہلے نہ بعد اُن کے پاس کبھی یہ اختیار تھا ہی نہیں کہ وہ کسی ایس ایچ او کا تقرر و تبادلہ مرضی سے کر سکیں۔ چند روز بعد گورنر سے یہ اختیارات واپس لے کر مہم ختم کر دی گئی تاکہ پولیس آزاد اور خودمختار ہو نہ گلشن سیاست میں ہر شاخ پہ بیٹھے اُلّوئوں کے آرام میں خلل پڑے۔
یہ اسی انداز سیاست و طرز حکمرانی کا کمال ہے کہ جنہیں جیلوں میں ہونا چاہیے وہ اقتدار و اختیار کے ایوانوں میں ذوالعدل بن کر بیٹھے ہیں اور پاکستان سے وفا کے تقاضے نبھانے والے سارے خطاکارعوام سر دار کھڑے ہیں۔ جب تک کسی پولیس افسر و اہلکار کی تعیناتی میرٹ پر نہیں ہوتی‘ تبادلہ اور ترقی میں اہلیت و صلاحیت کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا اور پولیس فورس کو امن و امان کے قیام کے بجائے قانون کی حکمرانی کے اہتمام کی ذمہ داری نہیں سونپی جاتی۔ طاقتور اور کمزور‘ امیر و غریب اور بااختیار و بے اختیار کے لیے الگ الگ قوانین و ضابطوں کا برہمی نظام مسلّط ہے قانون کی حکمرانی کی خواہش دیوانے کا خواب ہے‘ اور پولیس فورس کی حالت زار کے ذمہ داروں سے اصلاح احوال کی توقع عبث ‘ نیب کی کارروائیوں پر سارے ڈاکو‘ لٹیرے اور ٹھگ اکٹھے ہو کر چلّا اٹھے ہیںیہ قوم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔
بدلنا ہے تو مے بدلو‘ نظام میکشی بدلو
وگرنہ جام و مینا کے بدل جانے سے کیا ہو گا
مشتاق سکھیرا‘ عامر ذوالفقار اور احمد بلال محبوب پُراُمید ہیں کہ عوام اور میڈیا کے دبائو سے قانون کی حکمرانی اور پولیس کی کارگزاری بہتر ہو سکتی ہے ہم دعا گو ہیں۔
بلاسے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں