مُک مُکا

چودھری نثار علی خان نے بالآخر وہ اعلان کر دیا جس کاپوری قوم کو انتظار تھا۔ حکومت اور پرویز مشرف کے مخالفین اب شاہ نصیر دہلوی کاشعر گنگنائیں ؎
خیالِ زلفِ دوتا میں نصیر پیٹا کر
گیا ہے سانپ نکل ‘ تو لکیر پیٹا کر
سیاستدانوں‘ اینکرز اور تجزیہ کاروں کا کام اب لکیر پیٹنا ہی رہ گیا ہے۔جتنی دیر چاہیں پیٹ لیں۔ 
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری یک جان و دو قالب تھے میثاق جمہوریت کے طفیل دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی اور مسلم لیگ (ن) زرداری کابینہ کا حصہ تھی۔ ایک روز میاں صاحب نے زرداری صاحب سے کہا کہ'' موقع غنیمت ہے اور حالات سازگار‘ کیوں نہ آرٹیکل 6کے تحت پرویز مشرف کا مواخذہ کر لیا جائے۔‘‘
زرداری صاحب مسکرائے‘ پہلو بدلا اور بولے ''میاں صاحب میرے باپ نے آپ کا کیا بگاڑا ہے کہ آپ اسے ضعیف العمری میں رلانا چاہتے ہیں‘‘۔ میاں صاحب نے کہا وہ'' کیسے‘‘؟ آصف علی زرداری نے کہا'' بھٹو نے ضیاء الحق سے بگاڑی جان سے گئے‘ آپ نے پرویز مشرف سے چھیڑ چھاڑ کی جلا وطن ہو گئے۔ دونوں مضبوط وزیر اعظم فوجی سربراہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ میں توکمزور آدمی ہوں اور اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا! میں یہ رسک نہیں لے سکتا آپ جب اقتدار میں آئیں تو یہ شوق پورا کر لینا۔ مجھے معاف ہی رکھیں‘‘۔ ایوان صدر سے رخصت کرتے وقت زرداری صاحب نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر دیا۔ مگر اب اُن کے برخوردار بلاول کا مطالبہ ہے کہ نواز شریف پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے نہ دیں۔
آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا راگ اس معاشرے میں الاپنا موزوں ہے جہاں عدل و مساوات کی فرمانروائی ہو اور صرف حکمران ہی نہیں عوام بھی امیر و غریب‘ کمزور و طاقتور کے مابین امتیاز کے قائل ہوں نہ دوست نوازی‘ اقربا پروری اور طاقت و دولت کی پرستش کا رواج ہو۔ ترکی میں طیب اردوان نے عدلیہ اور فوج پر سول بالادستی قائم کرنے کے لیے اپنی انا اور اقتدار کی قربانی دی پہلے استنبول کی میئر شپ چھنی، جیل میں ڈالا گیا پھر حکومت ملی تو فوجی جرنیلوں نے صدر کی سکارف پوش اہلیہ اور خاتون اوّل کی سرکاری تقریبات میں شرکت پر پابندی لگائی اور بالآخر نئے الیکشن پر مجبور کیا مگر کسی بھی مرحلہ پر طیب اردوان اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیا نہ امریکہ و یورپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اسلام کا ورد چھوڑ کر سیکولر، لبرل کی رٹ لگائی اور نہ قانون کی عملداری میں دوہرے معیار قائم کیے، مخلوط حکومت پر مجبور ہونا پڑا تو اقتدارسے چمٹے رہنے کے بجائے دوبارہ الیکشن کرا دیا مدت پوری کرنے کی ضد نہ کی۔بالآخر سرکش فوج اور خود سر عدلیہ کو منتخب حکومت کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔
پاکستان میں آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا نعرہ دلکش سہی مگر خیرات گھر سے شروع نہیں کی جاتی اور قابل رشک نمونہ کوئی نہیں بنتا۔ نیب کی زد میں سیاسی مخالفین آئیں تو خوشیاں منانے اور اپنے وزیروں مشیروں‘ ارکان اسمبلی اور چہیتے سرکاری ملازمین کی باری آنے پر سینہ کوبی کرنے والے اس قابل کہاں؟چھوٹی مچھلیاں البتہ شکار ہوتی ہیں۔ اس منافقت اور دو عملی پر پیر صاحب پگارا نے ایک بارطنز کیا تھا کہ جن لوگوں نے پیسٹری کھائی وہ قابل مواخذہ ہیں اور جو پوری بیکری ہڑپ کر گئے ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں بلکہ ان کے وارے نیارے ہیں۔
پرویز مشرف نے بلا شبہ آئین معطل اور بُرے بھلے جمہور ی نظام کو اتھل پتھل کیا۔ لال مسجد آپریشن‘9/11کے بعد امریکہ کے سامنے سجدہ ریزی اور بدنام زمانہ این آر او کا اجرا اس کی سنگین غلطیاں ہیں جن کا خمیازہ قوم آج تک بھگت رہی ہے مگر پہلاپتھر مارنے کا حق دار وہ ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ جو خود قابل مواخذہ ہیں وہ پرویز مشرف کا محاسبہ کیسے کرتے‘ نہیں کر سکتے تھے۔ جن کے اردگرد سابق فوجی آمر کے ساتھی براجمان ‘ جو پارلیمنٹ سے زیادہ اہمیت غیر مرئی قوتوں کو دیتے اور انہی کی سنتے ،مانتے ہیں، وہ کسی موجودہ یا آرمی چیف کا محاسبہ کریں۔ ع 
ایں خیالی است و محال است وجنوں
جب ماڈل ٹائون میں پندرہ افراد کے قاتلوں سے کوئی باز پرس کرنے والا ہے نہ ایئر مارشل اصغر خان کے دائر کردہ مشہور زمانہ مقدمے میں سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد پر آمادہ تو سابق آرمی چیف کو سزا دینے پر اصرار؟دیوانے کا خواب نہیں تو کیا ہے ۔
پاکستان کے طول و عرض میں ہزاروں لوگ جیلوں میں پڑے گل سڑ رہے ہیں جنہوں نے معمولی قانون توڑا‘ کسی کی جیب کاٹی یا بکری چوری کی۔ قانون میں درج مدت سے زیادہ سزا بھگت کر بھی رہائی نہ پا سکے کہ ان کا کوئی پشت پناہ ہے نہ پرسان حال۔ اس کے برعکس قتل‘ اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے علاوہ اربوں روپے کی لوٹ مار میں ملوث افراد کو قانون کی گرفت میں لانا تو درکنار وہ اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں اور اپنے منصب و اختیار کے زور پر جرائم میں مصروف ۔ جمہوری اور قانونی نظام یہاں ایسا گورکھ دھندا ہے جس میں صرف کمزور اور غریب پھنستا اور طاقتور اسے روند کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ سزا دراصل چوری پر نہیں کمزوری پر ملتی ہے۔اور جرم ؟ڈاکہ زنی‘ لوٹ مار یا قانون شکنی نہیں محض غربت‘ شرافت اور قانون پسندی ہے۔
معمولی جرم اگر عام شہری کرے تو قابل گرفت ہے لیکن اگر کہیں زیادہ سنگین جرم کا مرتکب کوئی عوامی نمائندہ ہوتو کہا جاتا ہے کہ اس کے مواخذے کا حق کسی نیب‘ ایف آئی اے اور عدالت کو نہیں عوام کو ہے گویا عدالتیں اور دیگر ادارے صرف کمزوروں کو سزا دینے کے لیے قائم ہیں جب کوئی شخص لوٹ مار کا سرمایہ‘ ناجائز اثرو رسوخ بیرونی پشت پناہی اور اختیارات استعمال کر کے یا دھاندلی کے ذریعے ایک بار کسی پارلیمانی ادارے میں پہنچ جائے تو پھر سات خون معاف اسے کوئی پوچھنے والا نہیں‘ جن لوگوں نے قیمے والے نان کھا کر یا چھوٹی موٹی مراعات حاصل کر کے اسے ایوان تک پہنچایا وہی باز پرس کر سکتے ہیں۔ وہ بھی پانچ سال بعد جب وہ مزید دولت اکٹھی کر چکا اور قانون اس کے سامنے بھیگی بلی بنا جان کی امان کا طالب ہو گا۔''را‘‘ کے ایجنٹ تک اسمبلیوں میں پہنچ جائیں تو دودھ کا دھلے ہوتے ہیں اور لوٹ مار، قتل و غارت کے لئے آزاد۔
موجودہ حکومت اگر واقعی پرویز مشرف کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہتی تو روز اول سے ہر شعبے میں قانون کی حکمرانی کا اہتمام کرتی‘جس طرح آرمی چیف نے اپنا قیمتی پلاٹ واپس کیا ،دو چار ریٹائر فوجی افسروں کو سزائیں دیں اور نیب کو سابقہ فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کی اجازت دی اسی طرح وزیر اعظم اور ان کے دیگر ساتھی بھی کوئی مثال قائم کرتے نیب کی طرف سے بعض وفاقی اور صوبائی وزراء کے معاملات کی جانچ پڑتال پر آپے سے باہر ہوتے نہ نیب کے ناخن کاٹنے اور پر کترنے کی دھمکیاں دیتے ۔احتساب کا آغاز گھر سے کرتے اور اختتام آئین شکن پرویز مشرف اور ان کے معاون ‘ شریک جرم اور سہولت کاروں پر ہوتا پھر کسی کو انتقام کی بو آتی نہ ذاتی حساب کتاب چکانے کا شبہ ہوتا۔
جب ہماری اشرافیہ یہ طے کر چکی کہ پاکستان میں برہمنوں کے لیے قانون موم کی ناک اور شودروں کے لیے آہنی شکنجہ ہے تو پھر پرویز مشرف اس سے مستثنیٰ اور سہولت سے محروم کیوں؟ بلاول بھٹو اور مولا بخش چانڈیو کو اعتراض کیا ہے ؟یہ نظام مُک مکا پر مبنی ‘ہے جس کا ثبوت ہر روز ملتا ہے۔منی لانڈرنگ کوئی چھوٹا موٹا تاجر کرے تو مجرم اور کوئی حکمران یا اس کا چہیتا‘ کسی سیاسی جماعت کا قائد ملوث ہو تو قابل معافی۔ حتیٰ کہ فاٹا‘ کراچی اور بلوچستان میں ایک ہی جرم کی سزا الگ الگ مقرر ہے۔ پرویز مشرف منافقت اور دو عملی پر مبنی اس نظام کا حصہ ہے اس نے اپنے دور اقتدار میں وہی کیا جوپاکستان میں سکہ رائج الوقت ہے اور اب وہ جوابی خیر سگالی کا حق دارر ہے۔ جتنی تکلیف اس نے اٹھائی وہ آئین شکنی کی نہیں پاکستان واپسی کی تھی۔ کیونکہ پاکستان سے بھاگ کر بیرون ملک عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا جرم ہے نہ لوٹ مار کی دولت سے اثاثے بنانا اور کاروبار کرنا معیوب ۔ البتہ اپنا سرمایہ پاکستان لانا اور خود آنا حماقت ہے جس کی کم از کم سزا پرویز مشرف نے بھگت لی۔
پرویز مشرف اب حسین حقانی کے بعدآئیں تو آئیں پہلے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔رہی وکلاء کی یقین دہانی اور نثار علی خان کا دعویٰ ع
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں