بھٹ پڑے وہ سونا

ملک میں سول ملٹری تعلقات ایک بار پھر اُتار چڑھائو کا شکار ہیں۔ سانحہ پٹھان کوٹ پر وزیر اعظم کی غیر معمولی عجلت پسندی اور کمانڈر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر حکومت کی بے نیازی نے ملکی سرحدوں اور قومی مفادات کے محافظ ادارے میں منفی ردعمل پیدا کیا اور لاہور میں سانحہ گلشن پارک کے بعد بھی بلا امتیاز آپریشن میں فوج و رینجرز کی شرکت سے گریز کی حکومتی پالیسی نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید اور ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں دونوں کی بدن بولی اور انداز گفتگو نے بہت کچھ افشا کیا۔
پنجاب میں آپریشن کی ضرورت صوبائی وزیر داخلہ شجاع خانزادہ کی شہادت کے بعد مسلسل محسوس کی گئی ۔کراچی‘ بلوچستان اور فاٹا کے بھگوڑے یہاں پناہ گزین اور سرگرم عمل ہیں۔ اپیکس کمیٹی میں جب بھی فوجی قیادت نے اس طرف توجہ دلائی تو بقول شخصے جواب ملا کہ'' پھر جیش محمد اور جماعت الدعوہ کے خلاف آپریشن شروع کر دیتے ہیں‘‘ یہ گویا فوجی قیادت کوبیک فٹ پر لانے اور ایک نیا محاذ کھولنے کی دھمکی تھی۔ ایک موقع پر تو فوجی قیادت کو یہ بھی باور کرانا پڑا کہ حضور! اگر جیش محمد اور لشکر طیبہ واقعی پنجاب اور پاکستان میں دہشت گردی‘ تخریب کاری‘ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں مصروف ہیں تو جی بسم اللہ! یہ بھی کر گزریے مگر ان کی آڑ میں بھارت کی آلۂ کا ر تنظیموں‘ لشکر جھنگوی‘ بلوچستان لبریشن آرمی اورٹی ٹی پی کے بھگوڑوں اور پناہ گزینوں سے چشم پوشی روا نہیں۔
سندھ پولیس کی طرح پنجاب پولیس پر کسی کو اعتبار نہیں کہ اس میں دہشت گردوں کے مخبر ہیں اور بعض کالعدم تنظیموں کے ہمدرد بھی‘ کچھ گرفتاریاں عمل میں آ چکی ہیں۔ سہل پسندی‘ بے عملی اور ناتجربہ کاری کسی سے مخفی نہیں اور نااہلی کا ثبوت گلشن اقبال پارک کا سانحہ ہے کہ کسی نے پارک کے حفاظتی انتظامات پر توجہ دی ‘نہ وارننگ کے باوجود پارک کو بند کیا گیا۔ سانحہ چار سدّہ کے بعد دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں تعلیمی اداروں کے سکیورٹی انتظامات بہتر بناتے ہوئے کسی نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اگلا ہدف کوئی پبلک پارک ہو سکتا ہے ؛لہٰذا دیواروں کی اونچائی اور داخلی گیٹ پر جانچ پڑتال کے موثر نظام پر توجہ دی جائے۔
بدگمانی سے اللہ بچائے مگر لگتا یوں ہے کہ موجودہ سول قیادت کو تاحال پاکستان کے بارے میں بھارتی اور پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں امریکی عزائم کا مکمل ادراک نہیں۔ وہ اسے اسٹیبلشمنٹ کی روایتی زود حسّی اور دائیں بازو کی رجعت پسندانہ سوچ کا شاخسانہ سمجھ کر نظر انداز کر رہی ہے ۔غیر ملکی مفادات کے لیے کام کرنے والی این جی اوز اور حکومت میں موجود ان کے بہی خواہوں نے حکمرانوں کی یہ سوچ بنائی؛ حالانکہ بلوچستان کی علیحدگی اور کراچی میں گڑ بڑ کی جو رام لیلا کمانڈر کلبھوش یادیو نے بیان کی اور جان کیری نے پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو محدود کرنے کا مطالبہ کیا وہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کیا دھرا ہے نہ بھارت اور امریکہ کے بارے میں بدگماں حلقوں کا منفی پروپیگنڈا۔ وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کلبھوشن کے ذکر سے گریز اور امریکہ کا دورہ منسوخ کیا کہ مبادا وہاں کلبھوشن کے بارے میں اظہار خیال کرنا پڑے تو شکوک و شبہات کا پیدا ہونا فطری ہے اور اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں وزیر اعظم خود ہیں جنہیں ان دنوں یہ فکر ستا رہی ہے کہ کس طرح پٹھان کوٹ سانحہ کے ذمہ داروں کو پکڑ کر وہ نریندر مودی کے حضور پیش کریں اور اوباما سے داد پائیں جبکہ پٹھان کوٹ جانے والی تفتیشی ٹیم سے ہونے والا ''حسن سلوک‘‘ بھارتی انداز فکر اور ارادوں کی چغلی کھا رہا ہے۔
ہماری سول قیادت شائد یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دہشت گردی کے سدباب میں مصروف فوج اور اس کی قیادت کس قسم کے دبائو کا شکار ہے۔ فوج کے جوانوں اور افسروں نے فاٹا سے کراچی اور بلوچستان تک سر دھڑ کی بازی لگا رکھی ہے۔ اُسے اندرون ملک دہشت گردوں‘ تخریب کاروں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور اغوا کاروں سے نمٹنا ہے اور بیرون ملک اُن کے سرپرستوں اور منصوبہ سازوں کی سازشوں‘ ریشہ دوانیوں کا مقابلہ درپیش ہے ۔یہ چومکھی لڑائی ہے جو سول قیادت کی طرف سے حوصلہ افزائی کی متقاضی ہے مگر وہ متوازی راستے پر گامزن ہے۔ اُسے پارکوں اور پبلک مقامات پر شہریوں کی سکیورٹی سے زیادہ اورنج لائن اور میٹرو بس کے منصوبے عزیز ہیں جو ووٹ اور نوٹ بٹورنے کا ذریعہ ہیں۔سانحہ گلشن اقبال پارک کے موقع پر یہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ فلائی اوورز‘ انڈر پاسز‘ جہازی سائز سڑکوں اور ان کے اردگرد خوش رنگ روشوں کے شہر میں واقع ہسپتال اس قابل بھی نہیں کہ کسی بڑے حادثے کی صورت میں متاثرین کو علاج معالجہ کی بہتر سہولت فراہم کر سکیں اور جائے حادثہ سے زیادہ ہسپتالوں میں اموات کا خدشہ نہ ہو۔فوجی افسروں اور جوانوں کے دل کڑھتے اور وہ اپنے آپ سے لازماً سوال کرتے ہیں کہ کہیں ان کی اپنی‘ ان کے سینئرز ‘ جونیئرز اورکولیگز کی قربانیاں اس بے عملی اور سہل پسندی کی بھینٹ تو نہیں چڑھ جائیں گی جو سول اداروں کا وتیرہ ہے۔ انہیںہر آپریشن سے قبل یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کسی سول ادارے میں موجود مخبر و سہولت کار کے سبب یہ ناکامی سے دوچار نہ ہو اور گرفتار دہشت گرد کو پولیس کے سپرد کرنے سے قبل سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ ناقص تفتیش کے سبب ان کی ساری ریاضت رائیگاں نہ چلی جائے۔ کراچی اور پنجاب میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور کرپشن کے قطب میناروں سے الگ الگ سلوک پر وہ پریشان ہوتے ہیں اور آپریشن کا دائرہ پنجاب تک وسیع کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ پر انہیں دال میں کالا نظر آتا ہے۔
ابھی تک کسی ذمہ دار ادارے نے تصدیق تو نہیں کی مگر چنیوٹ میں ایک شوگر ملز کے حوالے سے جو کچی پکّی اطلاعات گشت کر رہی ہیں وہ لمحہ فکریہ ہیں۔ بجا کہ پاکستان میں ری رولنگ فیکٹریوں اور شوگر ملز کے مالکان بھارت سے بوقت ضرورت تکنیکی ماہرین بلاتے اور یورپی و چینی ماہرین کے مقابلے میں بہت کم معاوضے پر کام چلاتے ہیں مگر کیا پاکستان کے حکمران خاندان کو اس کی تقلید کرنی چاہیے؟ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ بدگمانی اور شکوک و شبہات کی فضا میں سیاسی مخالفین بات کا بتنگڑ بنائیں گے؟ اور ساجن جندال کے ساتھ دوستانہ و کاروباری تعلقات کی بنا پر مخصوص شوگر ملز میں بھارتی ماہرین کی درجنوں کی تعداد میں موجودگی ان حلقوں کے کان کھڑے کرے گی جو کلبھوشن نیٹ ورک تک رسائی کے بعد ملک بھر میں موجود ہر بھارتی شہری کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ اگر شریف برادران اس قدر احتیاط بھی روا نہیں رکھتے اور معمولی بچت کی خاطر اپنی ساکھ دائو پر لگاتے ہیں تو اسے کیا نام دیا جائے؟ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد کپڑے کے کاروبار سے حضرت عمر ؓ نے اسی بنا پر روکا تھا۔ صدیق اکبرؓ کی دیانت و امانت پر کسی کو شک تھا نہ خلیفہ اوّل کا کاروبار اتنا وسیع تھا کہ مناپلی کا ڈر ہوتا۔ خوف فساد خلق مانع تھااور یہ قابل تقلید فیصلہ سامنے آیا۔
پنجاب میں جاری فوجی آپریشن سے وہ زبانیں گنگ ہو گئیں جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کو فرشتوں پر مشتمل اور ہر احتساب و مواخذے سے مستثنیٰ ہونے کا طعنہ دیتی تھیں۔ پنجاب کے عوام کا اس میں قطعی کوئی قصور نہیں۔ یہ نام نہاد اشرافیہ ہے جو اپنے حقیر مفادات کی خاطر پنجاب کو ہدف تنقید بنانے اور صوبائی تعصبات و منافرت پھیلانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ پنجاب کے عوام تو دہشت گردوں‘ اغوا کاروں اور بھارت کی آلہ کار تنظیموں کے ستم رسیدہ ہیں اور کرپشن و دہشت گردی کا بیک وقت قلع قمع چاہتے ہیں تاکہ کسی کو غربت وا فلاس‘ بے روزگاری اور اقتصادی‘ معاشی‘ سماجی محرومی کی آڑ میں دوبارہ پائوں پھیلانے‘ مایوس نوجوانوں کو ورغلانے اور نسلی‘ لسانی‘ فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے کا موقع نہ ملے۔ امن پسند عوام کی خواہش ہے کہ فاٹا‘ کراچی‘ بلوچستان اور پنجاب میں ''را‘‘ کا کوئی ایجنٹ قانون کی گرفت سے بچنا چاہیے نہ بھارت کے کسی ہمدرد و خیر خواہ کو من مانی کا موقع ملے۔اگر فوجی آپریشن سے خدانخواستہ سول حکومت کمزور ہوتی ہے تو قصور وار کون؟ڈھلمل یقین حکمران اشرافیہ یا عوام کی سلامتی و تحفظ کو یقینی بنانے والی سر بکف فورس ؟کمزور و بے بس عوام کو جان و مال کا تحفظ درکار ہے۔ ایسی سول بالادستی کس کام کی جو انہیں درندگی سے نہ بچاسکے۔بھٹ پڑے وہ سونا جو چھیدے کان۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں