تیری آواز مکّے اور مدینے۔ آرمی چیف نے کوہاٹ میں سگنل رجمنٹ سنٹر کے دورے میں وہ بات کہی جو عوام عرصہ دراز سے اپنی سیاسی قیادت کی زبان سے سننے کے لیے بے تاب تھے۔ کرپشن کا خاتمہ‘ بلا امتیاز احتساب اور دائمی امن۔ آرمی چیف نے دائمی امن کا جو نسخہ تجویز کیا ہے وہ کارگر ہو سکتا ہے مگر ترکیب استعمال کیا ہے؟
ہارون خواجہ نے مظفر گڑھ اور میر پور خاص کے اضلاع میں قائم رہائشی بستیوں کا ذکر چھیڑا‘ جھونپڑیوں کی جگہ جدید سہولتوں سے آراستہ پکّے مکانات کی تفصیل بتائی اور محض تیرہ کروڑ روپے کے سرمائے سے دو سو سے زائد خاندانوں کی آباد کاری‘ بچوں کی تعلیم‘ طبی سہولتوں اور باعزت روزگار کے مواقع پر روشنی ڈالی تو سینئر اخبار نویسوں‘ دانشوروں اور سابق دفاعی و سفارتی ماہرین کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا۔ حکومتی شعبے سے تو اتنی رقم میں پچاس مکان بھی مشکل سے بن پاتے۔
پاکستان فریڈم موومنٹ کی طرف سے اخبار نویسوں کے ساتھ یہ دوسری تقریب بہر ملاقات تھی ۔ہارون خواجہ نے بتایا کہ ہم خدمت کے جذبے سے سرشار ان لوگوں کو اکٹھا کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جو وعدوں کے بجائے خدمت اور قائد اعظم کے فرمان ایمان‘اتحاد‘ تنظیم پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ بستیاں ہمارے جذبہ خدمت کی روشن مثال ہیں۔ قصور کی تین یونین کونسلوں میں ہمارے گشتی شفاخانے مریضوں کے پاس پہنچ کر علاج کرتے ہیں۔ ہم نے ہیلتھ کیئر کنٹینر نوے لاکھ میں تیار کرایا جو پبلک سیکٹر میں سات کروڑ روپے میں خریدا گیا۔ نوے لاکھ اور سات کروڑ میں فرق صرف دیانتداری اور کرپشن کا ہے۔
ہارون خواجہ کی گفتگو پرمغز تھی‘ چشم کشا اور مدلّل مگر مجھے یہ محفل ادھوری چھوڑنی پڑی کیونکہ ایک دوسرے ہوٹل میں رائو تحسین علی خاں نے منڈلی سجا رکھی تھی۔ ظہرانہ تو محض بہانہ تھا‘ حقیقتاً یہ اہل صحافت کی گول میز کانفرنس تھی جس میں چھوٹو گینگ سے لے کر کرپشن کے خلاف اور بلا تفریق احتساب کے حق میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بیان اور پاناما پیپرز سے لے کر مجوزہ جوڈیشل کمشن تک ہر موضوع پر دھواں دھار بحث ہوئی۔
آرمی چیف کا بیان میرے لیے باعث تعجب نہیں۔ آپریشن ضرب عضب فوج کی طرف سے ملک میں پہلا آپریشن نہیں بلوچستان‘ مشرقی پاکستان‘ کراچی اور فاٹا میں فوج اور رینجرز نے جو آپریشن کئے ان کی تعداد نصف درجن سے زائد ہے۔ یہ معمّہ آج تک حل نہیں ہو سکا کہ پاک فوج جن علاقوں میں دہشت گردوں‘ علیحدگی پسندوں‘ تخریب کاروں اور ملک دشمنوں کا خاتمہ کر کے قیام امن کو یقینی بناتی ہے‘ وہاں پانچ دس سال کے بعد دوبارہ وہی عناصر نئے نعروں‘ ناموں اور زیادہ وسائل سے دوبارہ کیسے سر اٹھاتے اور عوام کی جان و مال کے علاوہ ملکی سلامتی کے لیے خطرہ کیوں بن جاتے ہیں؟ آرمی چیف کے بیان میں اس کا سراغ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا: '' دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ اس وقت تک پائیدار امن اور استحکام نہیں لا سکتی جب تک کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ نہ پھینکا جائے ؛اور قومی یکجہتی‘ سالمیت اور خوشحالی کے لیے بلا تفریق احتساب ضروری ہے‘‘ ۔بات یوں درست ہے کہ ملک میں غربت و افلاس‘ جہالت‘ پسماندگی‘ بے روزگاری‘ ناانصافی اور سماجی و معاشی عدم مساوات کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں اور اس باعث اپنے مستقبل سے مایوس ستم رسیدہ عوام بالخصوص نوجوان علیحدگی پسندوں‘ دہشت گردوں‘ انتہاپسندوں اور ملک دشمن عناصر کا ترنوالہ ہیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کادالفقران یکون کفراً(مفلسی انسان کو کفر کے قریب لے جاتی ہے۔)غربت و افلاس کا یہ عالم کہ جنوبی پنجاب ‘اندرون سندھ بالخصوص تھر اور بلوچستان میں لوگ ایک وقت کی روکھی سوکھی کے لیے ترستے ہیں۔ جانور اور انسان ایک گھاٹ بدبودارپانی پیتے ہیں اور تھر و چولستان کے علاوہ بلوچستان کے کئی علاقوں میں غریبوں کے لیے یہ بھی عیاشی ہے۔ زندگی سے عاجز آئے موت کے طلب گار ان بھوکے ننگے ‘جاگیرداروں‘ وڈیروں منتخب عوامی نمائندوں‘ پولیس اور انتظامیہ کے ستم رسیدہ ان لوگوں کے لیے ریاست کے پاس وسائل نہیں مگر چند شہروں کے مخصوص علاقوں میں مالدار طبقے کے کُتے بلّے بھی دودھ مکھن پر پلتے اور جراثیم سے پاک اُبلا ہوا پانی پیتے ہیں۔
یہ صورتحال وسائل کی کمی کے سبب نہیں ‘قومی وسائل کے بے دردی سے استعمال ‘ کرپشن اور لوٹے ہوئے مال کی بیرون ملک غیر قانونی ترسیل کا نتیجہ ہے اور ناانصافی و سماجی عدم مساوات کے فروغ کا شاخسانہ !غریب کا بچہ تو کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرے‘ متعدی مرض میں مبتلا ہو کر بھی اسپرین کی گولی اور ٹاٹ سکول کی نعمت سے بھی محروم رہے مگر معدودے چند فیصد اشرافیہ کو برونائی‘ سعودیہ اور امارات کے حکمرانوں سے بہتر سہولتیں میسر ہوں اور وہ بھی محنت‘ مشقت اور ذہانت کے طفیل نہیں امانت میں خیانت‘ لوٹ کھسوٹ اور اختیارات کے بل بوتے پر۔آخر‘ کون ‘ کب تک برداشت کرسکتا ہے؟اسی بنا پر امریکی سفارت کار جان کروبی نے پاناما لیکس پر تبصرہ کرتے ہوئے دہشت گردی اور کرپشن کو عالمی سطح پر سنگین مسئلہ قرار دیا اور آرمی چیف راحیل شریف نے دائمی امن کو کرپشن کے خاتمے سے مشروط کیا۔ کرپشن اس وقت مزید سنگین مسئلہ بن جاتا ہے جب حکمران اشرافیہ اس میں ملوث ہو اور اندھے کو بھی نظر آ رہا ہے کہ میگا پراجیکٹس ‘ درآمدات اور غیر ملکی معاہدوں سے اربوں نہیں کھربوں روپے کی کک بیکس حاصل کر کے سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے ‘کسی کو خوف خدا ہے نہ مخلوق خدا کی شرم اورنہ اپنے وطن کا احساس۔ اقتدار کمائی کا ذریعہ ہے اور اختیار غلط بخشی کا وسیلہ۔ سیاست میں جرم کی آمیزش پر کوئی شرمندہ ہے نہ سیاست وکرپشن کو گڈ مڈ کرنے پر کسی کو اعتراض۔ الٹا اپنی چالاکی ‘ عیاری اور مکاری پر داد طلب کی جاتی ہے۔
پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب‘ کراچی اور بلوچستان میں کارروائیوں سے یہ سبق بہرحال سیکھا ہے کہ پائیدار امن کرپشن کے خاتمے کے بغیر ممکن نہیں۔ ملک دشمنوں اور دہشت گردوں کے خلاف سربکف فوج‘ رینجرز اور ایف سی کے مجاہدوں کو میدان جنگ میں یہ اندازہ ہوا کہ کرپشن کتنا بڑا ناسور ہے ۔بلوچستان میں ہر رکن اسمبلی کو سالانہ چالیس پچاس کروڑ کے ڈویلپمنٹ فنڈز ملتے ہیں‘ پنجاب اور سندھ میں قدرے کم مگر تعلیم‘ صحت‘ روزگار کی سہولتوں اور غربت کے خاتمے کے لیے کتنا خرچ ہوتا ہے؟ چار پانچ بڑے شہروں سے باہر نکل کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔برطانیہ ‘عرب امارات‘ سپین‘ ترکی اور ملائشیا کے شہروں میں جائیدادوں کی خرید‘ تجارتی پلازوں کی تعمیر اور سوئٹزر لینڈ‘ پاناما اور ورجن آئی لینڈ میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت کے اخفا سے سب راز کھلتا ہے۔ امانت و دیانت کو دیس نکالا مل چکا ہے اور اخلاقیات سیاست میں اجنبی جنس بن چکی ہے۔
پاناما پیپرز نے شریف خاندان کی ساکھ پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔ میاں نواز شریف اگر تنہائی میں بیٹھ کر جناب مجید نظامی اور حمید گل مرحوم کا مشورہ یاد کریں جو کاروبار کو مزید نہ پھیلانے کے حوالے سے تھا تو انہیں یقیناً احساس ہو گا کہ اگر وہ اور ان کے خاندان کے دیگر افراد اس مشورے پر عمل کرتے تو آج پوری قوم بلکہ بیرون ملک دوست ممالک کی قیادت کے سامنے انہیں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ امریکہ‘ ترکی کے دورے منسوخ ہوتے نہ دل پر بوجھ بڑھتا اور نہ تحقیقاتی کمشن تشکیل دینے کی ضرورت پیش آتی۔ یہ قانونی یا مالیاتی معاملہ نہیں سیاسی اور اخلاقی مسئلہ ہے۔ سیاست اور اقتدار اگر انسان کی عزت و وقار میں اضافہ نہ کریں‘ لعنت اس حکومت اور اختیار پر!خضر حیات ٹوانہ متحدہ پنجاب کے وزیر اعظم تھے اور خاندانی رئیس۔ اپنے ایک وزیر مرحوم محمد ابراہیم برق کی دعوت پر مظفر گڑھ گئے تو ان کے آٹھ سالہ بچے کو پیار سے گود میں اٹھا لیا۔ بچے کو جب باپ نے بتایا کہ یہ پنجاب کے وزیر اعظم خضر حیات ٹوانہ ہیں تو بچہ بولا اچھا وہ انکل‘ جو مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد میں رکاوٹ اور قائد اعظم کا مخالف ہے۔ایک واقعہ یہ بھی ہوا کہ مرحوم کی والدہ نے مال روڈ پر خضر حیات مردہ باد کے نعرے سن کر پوچھا بیٹے! سیاست تم عزت کے لیے کرتے ہو یا ذلت ورسوائی کے لیے؟ استعفیٰ دینے میں دیر نہ لگائی کہ ماں کے سوال کا جواب تھا نہ بچے کے استفسار کی توجیہ؟ آرمی چیف کا بیان اہل سیاست کے لیے چشم کشا ہے۔ پہلے گورننس پر کور کمانڈر کانفرنس میں سوال اٹھ چکا ہے‘ اب کرپشن کے خاتمے کو دائمی امن کی کنجی بتا کر حکمرانوں کو احساس دلایا گیا ہے مگر حکمران اور ان کے حاشیہ بردارچونکہ چنانچہ پر گزارا کر رہے ہیں ۔غلام رسول عرف چھوٹو مزاری کو موقع ملا تو وہ جرم کا جزیرہ چھوڑ کر سرنڈر کر گیا‘ ہماری سیاسی اشرافیہ شائد اس سے بھی گئی گزری ہے۔ڈھیٹ کہیں کی!