’’لُوٹو گینگ‘‘ کے خلاف فوجی آپریشن

ایک نہ دو پورے گیارہ فوجی افسر برطرف۔ یہ کرپشن کے خاتمے اور بلا تفریق احتساب کا نقطہ آغاز ہے یا کرپشن کی دلدل میں پھنسے سول حکمرانوں کو شرم دلانے کی سعی؟ سول حکمران سرخرو ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں یا ماضی کی طرح آئیں بائیں شائیں پر گزارا ہو گا؟پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
پاکستان دنیا کے ان بدنصیب ممالک میں سرفہرست ہے جہاں سیاست اور جرم میں گہری ساجھے داری اور جمہوریت و کرپشن میں مضبوط بھائی چارہ ہے۔ اس بھائی چارے نے ملک کو برباد اور معاشرے کو معاشی‘ اخلاقی اور سماجی طور پر کنگال کر دیا ہے؎
شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیرؔ
شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا
ہماری سیاسی اشرافیہ کو گاڑی‘ گھڑی‘ موبائل فون‘ گھریلو کراکری‘ چشمہ‘ کف لنکس‘ حتیٰ کہ جوتے بھی 2016ء ماڈل کے پسند ہیں جدید‘ مہنگے‘ پُرکشش اور دیدہ زیب؛ البتہ جمہوریت انہیں قبل از مسیح دور کی بھاتی ہے‘ جسے افلاطون نے مسترد کر دیا تھا۔ اسی جمہوریت کی آڑ میں وہ یونانی اشرافیہ کی طرح ‘ چوری چکاری کا بازار گرم رکھ سکتے ہیں۔ جدید ماڈل کی گاڑیاں منگواتے ہوئے انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ مہارت سے چلانے والے ڈرائیور‘ دستیاب ہیں‘ نہ چیک اپ کرنے والے پڑھے لکھے اور جدید ٹیکنالوجی سے آشنا مکینک۔ ہر دو چار ماہ بعد نئے ماڈل کا فون خریدتے ہوئے ہرگز نہیں سوچتے کہ نئی اپلیکیشن کسے سمجھ میں آئیں گی مگر کوئی سر پھرا یہ مطالبہ کر دے کہ ہمیں جمہوریت بھی 2016ء ماڈل کی درکار ہے امریکہ‘ برطانیہ‘ ناروے‘ فرانس اور سویڈن میں رائج شفاف‘ عوام دوست‘ جوابدہ اور پابند آئین و قانون جمہوریت‘ تو جواب ملتا ہے کہ ابھی عوام اس قابل ہیں نہ اداروں کو چلانے والے افراد موجود۔ اللہ نے چاہا تو 4716ء تک عوام جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہو پائیں گے۔
آرمی چیف کے بیان پر ''جمہوریت خطرے میں ہے‘‘ کا شور مچ گیا۔ کرپشن کی تباہ کاریوں کا اعتراف کرنے کے بجائے بعض فوجی افسروں کی کرپشن اور پرویز مشرف دور میں احتساب کو سیاسی انتقام اور حکومتی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے کی دہائی دی جانے لگی۔ کس کافر کو انکار ہو سکتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں‘ اور سیاستدانوں کی طرح ججوں‘ جرنیلوں اور بیوروکریٹس نے بھی لوٹ مار کو شعار کیا مگر اس سے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں کسی کا احتساب نہیں ہوا تو اب بھی اس پر اصرار کرنے کی ضرورت نہیں۔
جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ملک کے طول و عرض میں دہشت گردوں کا راج تھا اور یہ سلسلہ زرداری دور میں بھی جاری رہا جب جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے۔ اگر دانشوروں کی یہ منطق تسلیم کر لی جائے کہ ماضی میں کرپشن کا نوٹس کسی نے نہیں لیا‘ احتساب کسی کا نہیں ہوا‘ اب کیا ضرورت ہے؟ تو پھر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کی ضرورت بھی نہیں اسے بھی قسمت کا لکھا اور قوم کا مقدر سمجھ کر چلنے دیا جاتا۔ جمہوری نظام جوں جوں پھلتا پھولتا‘ مضبوط ہوتا دہشت گردی خود بخود معدوم ہو جاتی ۔
طرفہ تماشہ ہے کہ اربوں روپے لوٹنے والوں کے خلاف نیب کارروائی کر سکتا ہے نہ ایف بی آر‘ ایف آئی اے اور کوئی دوسرا ادارہ۔ حرام کی کمائی سے ووٹروں کو یرغمال بنا کر اقتدار پر قبضہ کرنے اور پھر سرکاری خزانے سے کبھی بصورت ترقیاتی فنڈز‘ صوابدیدی فنڈز اور کبھی بشکل قرض معافی اربوں روپے تاوان وصول کرنے والوں سے باز پرس نہیں ہو سکتی بلکہ اسے جمہوریت کا حسن اور میثاق جمہوریت اور مفاہمتی سیاست کا تقاضا سمجھا جاتا ہے مگر ایک بکری چور‘ معمولی جیب کترا اور راہزن چھترول‘ جیل اور برسوں قید کا سزاوار ہے۔ اور بلا امتیاز احتساب کی بات ہو تو ماضی کی قصّے کہانیاں چھڑ جاتی ہیں۔
عوام کو پائیدار امن درکار ہے‘ غربت و افلاس کا خاتمہ باعزت روزگار کے مواقع اور تعلیم و صحت کی سہولتیں مگر سارے قومی وسائل ظالم‘ بدکردار‘ سنگدل اور بے شرم اشرافیہ کے لیے وقف ہیں وہ انہیں نمائشی منصوبوں پر ضائع کرے‘ اپنی آل اولاد اور عزیز و اقارب کا مستقبل سنوارنے یا سوئٹزرلینڈ کے بینکوں اور لندن‘ دبئی اور واشنگٹن میں کاروبار کے لیے مصرف میں لائے‘ اس کا صوابدیدی اختیار ہے۔ رہے عوام تو ان کا کام ڈھور ڈنگروں کی طرح مشقت کرنا ہے یا ہر پانچ سال کے بعد قیمے والا نان کھا کر ان کی صندوقچی میں پرچی ڈالنا۔ روزگارکسی کا حق ہے‘ نہ تعلیم اور نہ کوئی طبّی سہولت۔ پانی یہ بے چارے جوہڑوں کا پیتے ہیں‘ علاج معالجے کے لیے یہ عطائیوں اور ان پڑھ حکیموں کے محتاج ہیں یا عاملوں اور تعویز گنڈے بیچنے والے جعلی پیروں کے جو بسا اوقات ان کی عزت لوٹنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے یہ ہر جائز و ناجائز پر تیار؎
مفلسی حسّ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچوں میں ڈھل نہیں سکتی
بجا کہ احتساب کا نعرہ ماضی میں مذاق بنا؟ نیب اور دوسرے ادارے کسی کا مواخذہ کرنے کے قابل نہیں اور کوئی حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہے نہ خوش دلی سے تیار‘ لیکن کیا اس بنا پر اس قومی ضرورت سے انکار اور فرار ممکن ہے؟ پاکستان میں عام آدمی تو کیا اشرافیہ کے لیے بھی اچھے سرکاری سکول اور ہسپتال کیوں نہیں؟ جن کے پاس پیسے کی فراوانی ہے ان کے لیے نجی شعبے میں سہولتیں دستیاب ہیں اور جنہیں سرکاری وسائل خرچ کرنے کا اختیار ہے وہ بیرون ملک اپنے علاج اور بچوں کے لیے تعلیم میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ سنگا پور میں ہر سرکاری اہلکار اور عوامی نمائندہ اپنے بچوں کو سرکاری سکول میں پڑھانے کا پابند ہے یہی وجہ ہے کہ چند برسوں میں بین الاقوامی معیار کے سرکاری تعلیمی ادارے وجود میں آئے۔ یہاں جو اچھے ادارے تھے بھی بے فیض اور بسیار خور جمہوریت کی نذر ہو گئے۔ ایک تجویز ہے آ ج سے سرکاری افسروں اہلکاروں اور عوامی نمائندوں پر یہ لازم کر دیں کہ وہ نجی ہسپتالوں میں اور بیرون ملک علاج کرا سکتے ہیں نہ تجارتی تعلیمی اداروں میں بچوں کو داخل۔ صرف پانچ سال میں اعلیٰ معیار کے تعلیمی ادارے اور ہسپتال وجود میں نہ آ جائیں تو میرا نہیں میاں شہباز شریف کا نام بدل دیں۔
احتساب کے ضمن میں بھی ہیرا پھیری اور سیاسی انتقام سے بچنے کی صورت یہی ہے کہ جس طرح چھوٹو گینگ کی سرکوبی کے لیے فوج کو میدان میں اتارا گیا اور کامیابی ملی ''لوٹو گینگ‘‘ کے پیٹ سے قومی دولت نکلوانے اور انہیں احتساب کی چھلنی سے گزارنے کے لیے فوج کی مدد لی جائے۔ تفتیش جے آئی ٹی کرے اور سزائیں فوجی عدالتیں دیں۔ جب زلزلے‘ سیلاب‘ بارش اور دوسری قدرتی آفات کے علاوہ دہشت گردوں‘ ڈاکوئوں اور ٹارگٹ کلرز سے نمٹنے کے لیے فوج کی خدمات لینا درست ہے تو کرپشن کی صورت میں معاشی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس کی صلاحیتوں اور تجربے سے فائدہ نہ اٹھانے کا کیا جواز ہے؟
پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے کمشن بن رہا ہے لیکن جب تک 1985ء یا 1977ء سے اب تک صدر‘ وزیر اعظم‘ وزراء‘ وزرائے مملکت اور مشیروں کے منصب پر فائز رہنے والوں کو تاحیات نااہل قرار دے کر نئے دور کا آغاز نہیں ہوتا کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے نہ غربت و افلاس‘ بے روزگاری اور قانون شکنی کا سدباب آسان۔ ملک کی موجودہ حالت زار‘ دہشت گردی‘ علیحدگی پسندی اور عوام کی پسماندگی و درماندگی کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں۔ جب چار چھ بار وزیر اور رکن اسمبلی رہنے والا شخص اپنے علاقے میں صاف پانی‘ طبی مرکز‘ روزگار اور سیوریج کی سہولتیں نہ ہونے کی شکایت کرتا ہے تو وہ گردن زدنی کیوں نہیں؟ یہ اس کے علاوہ کس کی ذمہ داری تھی؟ جسے کروڑوں روپے کے فنڈز ملے‘ جملہ اختیارات اور حق نمائندگی۔ جعلی ادویات ملاوٹ شدہ دودھ اور دیگر اشیائے خورونوش کی فروخت اس ڈھیٹ کی لوٹ مار‘ نااہلی اور غلط ترجیحات کا نتیجہ ہے کُتا کنوئیں سے نکالے بغیر احتساب اور مواخذے کی کوئی کارروائی محض عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی واردات اور بار بار فوجی آپریشن‘ جذبہ جہاد سے سرشار فوج کو اندرونی معاملات میں الجھانے کی سازش ہو سکتی ہے اصلاح احوال کی مخلصانہ کوشش نہیں۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسے گا مگر جو دیانتدار اور شریف آدمی ظلم‘ لوٹ مار‘ ناانصافی ہوتے دیکھ کر خاموش رہے وہ برابر کا مجرم ہے سزاکا مستحق۔
''جمہوریت خطرے میں ہے‘‘ کا شور مچا کر چوری چکاری اور غلط کاری پر پردہ ڈالنا اشرافیہ کا پرانا طریق واردات ہے حالانکہ خطرہ ہے زرداروں کو‘ گرتی ہوئی دیواروں کو۔ قوم کو مارشل لا یا فوجی مداخلت نہیں‘ کرپشن کے خلاف فوجی آپریشن درکار ہے۔ گھر سے آغاز کے بعد جنرل راحیل شریف یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں؟ چھوٹو گینگ کی طرح ''لُوٹو گینگ ‘‘کا صفایا ۔
تحقیقاتی کمشن میں تاخیر کی طرح پانامہ لیکس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے مبیّنہ اینٹی کرپشن کی تیاری حماقت ہو گی۔ جنگ کے بعد یاد آنے والا مُکّا جسے اپنی ناک پر مارنا موزوں۔ بات بہت آگے بڑھ چکی!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں