یہ اُس کا پاکستان ہے

ناروے کے شہر بڈو(Bodo)کے ایک ہسپتال میں بوڑھا مریض لایا گیا تو پتہ چلا کہ اس کے دل اور پھیپھڑوں کی حرکت برقرار رکھنے کے لیے درکار مشین ای سی ایم او موجود نہیں البتہ دو سو اسی میل دور ٹرونڈہیم کے ایک ہسپتال میں دستیاب ہے اور گاڑی بھیج کرمنگوانے میں اندازاً آٹھ سے دس گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ اندیشہ ہے کہ'' تاتریاق از عراق آوردہ شود‘ مارگزیدہ مردہ شود‘‘ کے مصداق جب تک مشین پہنچے گی جاں بلب مریض اگلے جہاں سدھار جائے گا ۔ہسپتال کے ڈاکٹرز نے بوڑھے مریض کی جان بچانے کے لیے ایئر فورس سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔
لیفٹیننٹ کرنل بورج گف کلیپ سے درخواست کی گئی کہ اگر وہ یہ مشین جنگی جہاز کے ذریعے بڈو بھیجنے میں مدد کر سکیں تو مریض کی جان بچ سکتی ہے۔ ایئر فورس حکام نے دو ایف سولہ طیارے مشقوں میں مصروف پائے؛ چنانچہ ایک جہاز کے پائلٹ سے کہا گیا کہ وہ مشقیں چھوڑ کر ایئر بیس پر آئے اور متعلقہ سازو سامان لے کر بڈو پہنچے ۔کرنل کلیپ نے بعدازاں بتایا کہ'' عمومی طور پر ایف سولہ بڈو سے ٹرونڈہیم تک پینتیس منٹ کی اڑان بھرتا ہے مگر ایمرجنسی کی بنا پر پائلٹ کو تیز رفتاری کی اجازت دی گئی اور وہ پچیس منٹ کے اندر ای سی ایم او مشین بڈو پہنچانے میں کامیاب ہو گیا، ایک بوڑھے مریض کی جان بچنے پر میں بہت خوش ہوں‘‘
ناروے اور سکینڈے نیویا کے دیگر ممالک بھی اپنے فلاحی ریاست ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ 1999ء میں مجھے بھی اوسلو جانے کا موقع ملا جبکہ ایک دن عباس اطہر صاحب مرحوم‘ ضیاء الحق قاسمی مرحوم‘ اختر شمار اور میں نے سویڈن کے سرحدی شہر میں بھی گزارا۔ یہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور بیشتر کا گزارا ریاست کی طرف سے ملنے والے بے روزگاری الائونس پر ہے۔
یہاں'' عمرؓ لاء‘‘ نافذ ہے جس کے تحت ہرضعیف‘ یتیم‘ کم سن‘ بیوہ‘ معذور اور بیروزگار کی کفالت ریاست کا فریضہ ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص بھاری بوری اٹھائے مشکل سے چل رہا ہے پوچھا تو پتہ چلا کہ غریب یہودی ہے اور اس عمر میں بھی محنت مزدوری پر مجبور۔ حضرت عمر ؓ نے حکم دیا کہ اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا جائے اور آئندہ ہر بوڑھے کو اس کا حق دار سمجھا جائے۔ فرمایا اس نے جوانی میں اپنے خاندان اور ریاست کی خدمت کی اب ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس کی کفالت کرے۔ ناروے میں نافذ' عمر ؓلاء ‘اور یورپ میں ویلفیئر سٹیٹ کا تصور امیر المومنین حضرت عمر ؓ کے ایسے ہی فلاحی اقدامات سے ماخود ہے۔ ایک مریض کی جان بچانے کے لیے جنگی جہاز ایف سولہ کا استعمال بھی کوئی فلاحی ریاست ہی کر سکتی ہے جہاں امیر و غریب‘ کمزور و طاقتور انسان برابر اور انسانی جان کی قدرو قیمت ہر ایک کو معلوم ہے۔
پاکستان میں 1965ء کی جنگ کے ہیرو اور اپنا سب کچھ وطن کے لیے قربان کرنے کے جذبے سے سرشار ایم ایم عالم محض اس بنا پر مزید ترقی نہ کر سکے ‘ ان کی دیانت و امانت‘ خدا ترسی اور بے لوثی جنرل ضیاء اور ائر چیف مارشل (ر) انور شمیم کو بھاتی تھی نہ وہ اپنے افسران بالا کے غیر قانونی احکامات کی تعمیل کرتے تھے۔ ایک بار لاہور ایئر پورٹ پر اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایئر مارشل انور شمیم سے اختلافات کی داستان بیان کی۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بیگم صاحبہ نے ایف سولہ طیاہ بھیج کر کراچی سے کچھ سازو سامان منگوانے کی فرمائش کی۔ ایم ایم عالم کا کہنا تھا کہ ایف سولہ طیارے ہم نے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ سے مہنگے داموں لیے ہیں گھریلو سازو سامان منگوانے کے لیے نہیں ۔پاکستان میں حکمرانوں کی پسند کے دہی بھلے‘ گول گپے‘ حلیم‘ رس ملائی اور دیگر اشیائے خورو نوش لانے کے لیے ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کا رواج ہے مگر کسی ایسے مریض کو جو حکمران یا ان کا قریبی رشتہ دار‘ حاشیہ بردار اور تابعدار نہ ہو یہ سہولت میّسر نہیں ع
بناہے عیش تجمل حسین خان کے لیے
لیہ کے تھانہ فتح پور میں گزشتہ ہفتے زہریلی مٹھائی سے ایک خاندان کے ستائیس افراد باری باری جاں بحق ہوئے سترہ مزید زیر علاج اور بیس کے قریب خطرے سے دوچار ہیں واقعہ کی تفصیلات اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں ۔کم نصیب عمر حیات نے اپنے پوتے کی پیدائش پر مٹھائی تقسیم کی جو قریبی اڈے پر واقع مٹھائی فروش سے خریدی گئی تھی۔ اب تک کی تفتیش کے مطابق دکاندار کے سٹور میں زرعی ادویات کے پیکٹ بھی پڑے تھے جس میں سے ایک پیکٹ ''چھوٹے ‘‘ نے مٹھائی میں انڈیل دیا جس سے مٹھائی کا رنگ بدل گیا۔ دکاندار نے پوچھا تو ''چھوٹے ‘‘نے صاف صاف بتایا کہ اس نے غلطی سے یہ پڑیا بھی مٹھائی کے کڑاہ میں انڈیلی ہے۔ دکاندار نے مٹھائی ضائع کرنے کے بجائے سوڈا ڈال کر مٹھائی کا رنگ تبدیل کیا اور عمر حیات کے حوالے کر دی۔ یہ پڑیا کیا تھی؟ سیفلو نائل نامی زہریلی دوا جس کا پاکستان میں استعمال ممنوع‘ مگر یہ چین سے سمگل ہوتی اور مقامی طور پر تیار کی جاتی ہے۔ چند ٹکوں کے لالچ میں مٹھائی فروش نے کئی گھرانے تباہ کر دیے۔خدا کا خوف‘ آخرت کا ڈر اور نہ ضمیر کی خلش۔ سیفلونائل زرعی ادویات کے سنٹر پر عام ملتی ہے اور مقامی طور پر تیار کرنے والی فیکٹریاں بھی کچے کے علاقے یا فاٹا میں نہیں گردو نواح میں قائم ہیں مگر محکمہ زراعت کے کسی افسر نے کبھی روک تھام کی نہ محکمہ صحت کو ہوش آیا۔ سب اپنا حصہ لے کر راضی ہیں زرعی کیڑوں کو مارنے والی اس دوا کا تریاق نہیں اس بنا پر تحصیل ہسپتال اور نشتر ہسپتال ملتان میں جن مریضوں کا علاج معالجہ ہوا وہ ری ایکشن کی وجہ سے فوت ہوئے۔ نومولود کا دادا مٹھائی کھانے کے باوجود اس لیے بچ گیا کہ اپنے آٹھ بیٹوں اور تین چھوٹے بچوںکی شہادت کی وجہ سے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور ہسپتال کے بستر سے ڈرپ اتار‘ دوائیاں چھوڑ گھر بھاگ آیا۔ سترہ افراد لاہور کے جناح ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں جن لوگوں نے ڈرپ نہیں لگوائی اور کوئی دوائی نہیں کھائی وہ ری ایکشن سے بچ گئے زندہ ہیں مگر سیفلونائل کے مضر اثرات سے بچنا ممکن نہیں۔ حکومت انکوائری پر انکوائری کر رہی ہے ٹیمیں بھیج رہی ہے مگر کسی کو یہ توفیق نہیں کہ امریکہ‘ برطانیہ یا چین سے ماہرین منگوائے جو باقی ماندہ افراد کی جان بچانے کے لیے کچھ تجویز کر سکیں۔ ممکن ہے چین کے پاس تریاق ہو۔ حکمرانوں کو کسی تحصیل ہیڈ کوارٹر سے واسطہ نہیں پڑا انہیں تو بلڈ پریشر چیک کرانے کے لیے بھی برطانوی اور امریکی ہسپتالوں تک رسائی ہے لہٰذا ان کی بلا سے۔کوئی مرے یا جیئے۔
کسی مہذب جمہوری ملک میں یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو اب تک محکمہ صحت‘ محکمہ زراعت کے افسران اور منتخب حکمرانوں کا بوریا بستر گول ہو چکا ہوتا کہ ظالمو! یہ ممنوعہ اور زہریلی زرعی دوا سرعام بک رہی تھی‘ انسانی جانوں کے لیے خطرہ موجود تھا مگر کسی نے روک تھام کی کوشش ہی نہیں کی۔ مائیں اپنے بچوں کوآنکھوں کے سامنے مرتے دیکھ رہی ہیں‘ باپ لاشیں اٹھا اٹھا کر اور محلے دار قبریں کھود کھود کر تھک گئے ہیں۔ زیر علاج ہی نہیں مٹھائی کھانے والے تندرست افراد کی زندگی بھی خطرے میں ہے مگر صرف طفل تسلیوں پر گزار اہے ۔ ایک فیلڈ اسسٹنٹ غلام حسین کی معطلی پر اکتفا کیا گیا ہے۔ مرنے والوں کے لواحقین کو پانچ لاکھ روپے نقد دے کر موت کا معاوضہ ادا کر دیا گیا یہی انسانی جان کی قیمت ہے اللہ اللہ خیر سلا۔
اقبالؒ اور قائد اعظم ؒ نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور پیش کیا تھا اور وہ پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے جہاں 'عمرؓ لاء ‘نافذ ہو گا مگر ہم نے اسے اشرافیہ کی چراگاہ بنا دیا ہے جہاں تیز رفتار جہاز حکمران اشرافیہ کے دوروں اور ان کے عزیز و اقارب کے سیر سپاٹوں کے لیے وقف ہیں غریبوں کی فکر کسی کو نہیں۔ لاہور کی اورنج ٹرین دو سو ارب روپے کی لاگت سے بن رہی ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں زہریلی شراب پینے‘ ناقص ادویات کھانے اور ناقص سپرے کرنے سے درجنوں اموات واقع ہو چکی ہیں کیونکہ مناسب طبی سہولت بروقت نہ ملی۔ انہی دو سو ارب روپوں سے کم از کم دو سو تحصیل ہسپتالوں کی حالت زار تبدیل ہو سکتی ہے اور معدہ صاف کرنے کے علاوہ زہر خورانی کے تریاق کا بندوبست کیا جا سکتا ہے مگر یہ سوچے کون؟یہ ناروے نہیں پاکستان ہے پیارے۔ یہ اس کا پاکستان ہے جو ''صدر پاکستان ‘‘ہے۔ جمہوریت پرست صدر کی جگہ وزیراعظم پڑھ لیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں