رہیں نہ رند یہ زاہد کے بس کی بات نہیں

کسی دور اندیش اور صاحب ذوق مشیر کی صحبت میسر ہوتی تو وہ میاں صاحب کو منیر نیازی کی زبان میں مدّعا بیان کرنے کی ترغیب دیتا ؎
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
مگر میاں صاحب ان دنوں جن نابغہ روزگار لوگوں کے نرغے میں ہیں وہ انہیں دلدل میں دھکیل رہے ہیں ؎
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پاراترا تو میں نے دیکھا
پانامہ لیکس کو صدر ممنون حسین نے قدرت کی طرف سے اٹھایا گیا معاملہ قرار دیا ہے۔ حکمران جس طرح ایک کے بعد دوسری غلطی سے معاملے کی سنگینی میں اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں اس سے یہی لگتا ہے یہ کوئی غیبی معاملہ ہے۔ پارلیمنٹ سے خطاب میں وزیر اعظم نواز شریف نے پانامہ لیکس کی ڈور کوسلجھاتے سلجھاتے مزید الجھا دیا کہا''دبئی اور جدہ کی سٹیل ملیں بیچ کر ہم نے 2005ء میں لندن کے فلیٹس خریدے‘‘ یا للعجب۔ دبئی کی مل1980ء میں بکی۔ حسین نواز جدہ کی مل کی فروخت کا سال2006ء بتاتے ہیں اور فلیٹس 2007ء میں خریدنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر بڑے میاں صاحب پارلیمنٹ میں اعتراف کرتے ہیں کہ فلیٹس 2005ء میں خریدے گئے ۔ کیا یہ تقریر نویسوں کا کیادھرا ہے یا شریف خاندان کی کمزور یادداشت کا شاخسانہ کہ پہلے حسن نواز‘ حسین نواز‘ مریم نواز اور بیگم کلثوم نواز کے بیانات میں تضاد تھا اب میاں صاحب اس مجموعہ اضدادکا حصہ بن گئے۔برادر بزرگ ساٹھ ستر کے عشرے میں اپنے خاندان کی امارت اور بائیس خاندانوں میں شمار کا راگ الاپتے ہیں مگر برادر خورد غریب باپ کا بیٹا ہونے پر فخر کرتے ہیں ؎
کس کا یقین کیجیے کس کا نہ کیجیے
لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ 
میاں صاحب بلکہ پورا حکمران ٹولہ پانامہ پیپرز سے توجہ ہٹانے اور کرپشن کہانی کو من پسند موڑ دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور پارلیمنٹ کی تقریر بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھی مگر وہ ابھی تک اپوزیشن کو پٹڑی سے اتارنے میں کامیاب ہوئے نہ قوم کی یادداشت سے یہ واقعہ کھرچنے کی کوئی تدبیر کارگر نظر آتی ہے۔ گلف سٹیل مل کے ذکراور ٹیکسوں کی ادائیگی کے ضمن میں ذاتی انکم ٹیکس کی تفصیل سے گریز جبکہ سیلز ٹیکس کو بھی اپنے ٹیکس میں شمار کر کے میاں صاحب نے مزید سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور مسلم لیگ کے ہمدرد بھی حیران نظر آتے ہیں کہ آخر میاں صاحب صاف گوئی سے کام لینے اور اپوزیشن کے سوالات کا منہ توڑ جواب دینے کے بجائے قوم کی یادداشت اور فوج کی قوت برداشت کا امتحان لینے پرکیوں تلے ہیں؟۔1936ء سے 1971ء تک کا حساب کتاب انہیں یاد ہے اور حالات و واقعات بھی۔1999ء بھی انہیں نہیں بھولتا مگر لندن میں خریدے گئے چار فلیٹ وہ اس طرح گول کر جاتے ہیں جس طرح یورپ کے لوگ تیرہ کا عدد اور ہمارے لبرلز قائد اعظمؒ کی تقریروں سے اسلام کا ذکر۔
وزیر اعظم کی تیسری تقریر نے یہ تاثر پختہ کر دیا ہے کہ میاں نواز شریف اپنے بچوں کی آف شور کمپنیوں اور اپنی بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں کھل کر کچھ بتانے کو تیار نہیں۔ اور اپنے کارندوں کے ذریعے مخالفین کی کردار کشی سے اپنے اوپر اٹھنے والے سوالات کے جوابات گول کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مرضی کا جوڈیشل کمشن بنانے میں ناکام رہے اور اب حکومت کی خواہش یہ نظر آتی ہے کہ متحدہ اپوزیشن میں پھوٹ پڑے‘ ایم کیو ایم نے پہل کی ہے شائد پیپلز پارٹی بھی سندھ میں کچھ مراعات کے عوض ایک بارپھر میثاق جمہوریت یامفاہمتی سیاست کا طوق گلے میں ڈال کر پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کر دے عمران خان کو تنہا کر کے کردار کشی کی مہم کے ذریعے دفاعی پوزیشن میں لا کر اس وقت کا انتظار کیا جائے جب آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے میں دو تین ماہ رہ جائیں اور وزیر اعظم1991ء کی طرح نئے آرمی چیف کے تقرر کا قبل از وقت اعلان کر کے کسی تفریق اور امتیاز کے بغیر احتساب کے علمبردار جنرل راحیل شریف کو آسانی سے گھر بھیج سکیں جو پانامہ سکینڈل کو جلداز جلد حل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
میاں نواز شریف ابھی تک تمام تر دبائو کے باوجود نہ تو اپنے اثاثے ظاہر کرنے پر آمادہ ہوئے ہیں نہ اپوزیشن کے سات سوالات (جن کی تعداد مزید بڑھ گئی ہے) کے جوابات دینے پر تیار ہیں۔فوج کی براہ راست مداخلت کے سوا تبدیلی کا کوئی دوسرا دروازہ کھلانہیں اپوزیشن کا اتحاد بھی ڈھیلا ہے اور عمران خان سراج الحق‘ شیخ رشید احمد اور چودھری برادران کے سواکوئی وزیر اعظم سے استعفے طلب کرنے پر بھی تیار نہیں۔ پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کا امکان ہے نہ احتجاجی تحریک کے لیے حالات ساز گار تو پھر ہو گا کیا؟کچھ لوگ وزیر اعظم آرمی چیف ون آن ون ملاقات کی طرح جنرل راحیل شریف کے دورئہ چین کو بھی معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے ہیں اور پاک امریکہ تعلقات میں سرد مہری کو میاں نواز شریف کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہیں کہ سپر پاور جمہوریت کی حفاظت کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے جبکہ سی پیک منصوبے کی بحفاظت تکمیل کا فرض فوج ادا کر سکتی ہے ایک ایسی سول حکومت نہیں جو کرپشن کے الزامات کی بنا پر اپنی ساکھ کھو بیٹھی ہے اور جس کا ع 
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
نواز شریف کواپوزیشن کے علاوہ میڈیا کی طرف سے سخت سوالات کا سامنا ہے جس سے مسلم لیگی ارکان اسمبلی مایوسی‘ بے چینی اور بے یقینی کا شکار ہیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کے خطاب کے دوران تین درجن سے زائد سرکاری ارکان کی غیر حاضری حکمران جماعت کے لیے لمحہ فکریہ ہے جس کی وجہ سے مخالفین کو یہ افواہیں پھیلانے کا موقع مل رہا ہے کہ وزیر اعظم کے قریبی حلقے بھی استعفے کے آپشن پر غور کرنے لگے ہیں اور فارورڈ بلاک کا خطرہ بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ مسئلہ جلد حل نہیں ہوتا تو نیشنل ایکشن پلان اور اقتصادی راہ داری منصوبہ دونوں تعطل کاشکار ہوں گے بیورو کریسی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے گی۔جبکہ معاشی دہشت گردوں کو ایک بار پھر اپنے پائوں پھیلانے کا موقع ملے گا‘ پاکستان کی عالمی سطح پر تنہائی اب کوئی راز نہیں‘ حکومتی طرز عمل سے مزید اضافہ ہو گا اور جس طرح2007ء میں پرویز مشرف نے عدلیہ تحریک کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر اپنے سات سالہ کیے کرائے پر پانی پھیر دیا‘اسی طرح مقبولیت اور استحکام کے زعم میں مبتلا موجودہ حکومت بھی اپنی ہچکولے کھاتی کشتی کو کسی چٹان سے ٹکرا کر پاش پاش کر سکتی ہے۔
عمران خان پر الزام لگا۔ آف شور کمپنی کا شور اٹھا تو اس نے دستاویزات پیش کر دیں اور ثابت کیا کہ اس نے غیر قانونی طریقے سے رقم بیرون ملک منتقل کی نہ کسی کالے دھندے میں ملوث رہا اور نہ اپنے کسی عزیز و رشتہ دار حتی کہ بیٹوں کے نام جائیداد بنائی۔ ویسے بھی عمران خان آج تک کسی حکومتی منصب پر فائز رہا نہ مسلم لیگ (ن) کے چند کارندوںکے سوا کسی نے اس کی دیانت و امانت پر کبھی شک کیا اپنے خطاب میں اس نے انہی ٹی او آرز کے تحت اپنا اور شوکت خانم ہسپتال کااحتساب کرنے کی جرأت مندانہ پیشکش کی جن کے تحت وزیر اعظم کا مواخذہ مطلوب ہے۔ میاں صاحب بھی متحدہ ہندوستان ‘مشرقی پاکستان‘ دبئی اور جدہ کے ذکر سے عوام کو بور کرنے کے بجائے اپوزیشن کے سات سوالات کا جواب دے کر ملک کو بحران سے کیوں نہیں نکالتے ؟۔اپنے مخالفین کے خلاف کردار کشی کی مہم چلا کر مسلم لیگ ماضی میں کامیاب ہوتی رہی مگر اب کی بار شائد ایسا ممکن نہ ہو اور پیپلز پارٹی بھی عمران خان کو دغا دے کر حکومت کی کوئی مدد نہ کر سکے البتہ پنجاب میں اپنی رہی سہی ساکھ ضرور تباہ کر بیٹھے گی۔ جمہوریت کی بقا و استحکام کا دارو مدار اب میاں نواز شریف کے طرز عمل پر ہے یا پھر مسلم لیگ کے بحیثیت جماعت جمہوری کردار پر‘ کہ وہ خاندانی مفادات کا دفاع کرتی ہے یا جمہوری تقاضوں کے مطابق شفاف احتساب اور جوابدہی کا اہتمام۔ پارلیمنٹ میں آکر تو وزیر اعظم نے جمہوریت پسندوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کیا جبکہ ایک دن کے وقفے سے خورشید شاہ اور عمران خان نے جو جوابی حملہ کیا وہ بھی خواجہ آصف پسپا نہ کر سکے۔ یہ ان کے بس کی بات نہ تھی۔ عمران خان پر جوابی حملے سے معاملے کی سنگینی کم ہوگی نہ حکمرانوں کی پاک دامنی ثابت ۔ مخالفین کی زبان بھی الزام تراشی اور کردار کشی سے بند نہیں کی جا سکتی ؎
رہیں نہ رند یہ زاہد کے بس کی بات نہیں
تمام شہر ہے دوچار دس کی بات نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں