کوئلوں کی دلّالی

جنرل ضیاء الحق نے افغان جنگ اور جنیوا معاہدے پر تبصرہ کیا تھا ''کوئلوں کی دلالّی میں مُنہ کالا‘‘
تحریک طالبان افغانستان نے مُلّا ہیبت اللہ اخونزادہ کو امیر منتخب کر کے نہ صرف مُلا اختر منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت کی تصدیق کی بلکہ امریکہ‘ بھارت اور افغانستان کی اس خواہش پر بھی پانی پھیر دیا کہ افغانستان میں امریکی فوجی جارحیت کے خلاف برسرپیکار مزاحمتی گروہ اتفاق رائے سے نئے امیر کا انتخاب نہ کر سکے۔ افغان طالبان مختلف دھڑوں میں بٹ جائیں۔
تحریک طالبان افغانستان کے اندرونی حلقے مُلا اختر منصور پر امریکی غصے اور ڈرون حملے کا سبب گزشتہ دس ماہ کے دوران افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں کے بجائے اپنے امیر المومنین کی روس اور چین سے بڑھتی ہوئی قربت اور ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق ایران میں روسی صدر پیوٹن سے خفیہ ملاقات کو قرار دیتے ہیں جس نے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں اور افغانستان میں مزید قیام کے حامی حلقے کو وائٹ ہائوس پر دبائو بڑھانے کا موقع فراہم کیا۔ مُلا عمر کے جانشین اختر منصور مستقبل میں طالبان کے کردار کو مزید قابل قبول بنانے کے لیے روس‘ چین اور ایران سے بہتر تعلقات کے حق میں تھے‘ جبکہ روسی اور ایرانی حکومت بھی ماضی کی تلخیاں بھلا کر طالبان کو افغانستان کی زمینی مگر تلخ حقیقت کے طور پر قبول کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہے کیونکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ افغانستان کو سیاسی و سماجی استحکام کی منزل سے ہمکنار نہیں کر پائے اور حکمت یار سے مفاہمت کے بعد اشرف غنی‘ عبداللہ کشمکش مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ 
یہ بعید ازقیاس بات ہے کہ شاہ رضا شاہ پہلوی کے دور سے بہترین انٹیلی جنس نیٹ ورک رکھنے والی حکومت مُلا اختر منصور کی بار بار ایران آمد سے لاعلم ہو اور اُسے ولی محمد کے پاسپورٹ پر لگی تصویر سے یہ اندازہ نہ ہو پائے کہ موصوف دراصل کون ہیں اور کس مقصد کے لیے تفتان کے راستے ایران آ جا رہے ہیں؟۔ تاہم مُلا اختر منصور کی آزادانہ نقل و حرکت اور سیلولر فون کا بے دریغ استعمال اس سے بھی زیادہ ناقابل فہم ہے کیونکہ عرصہ دراز تک القاعدہ اور طالبان رہنمائوں نے برقی آلات کے استعمال سے اجتناب برتا اور پیغام رسانی کے لیے ہمیشہ گمنام قاصدوں اور کچی پنسل سے لکھی گئی مبہم عبارات پر اکتفا کیا۔ مُلا عمر عمومی طور پر موٹر سائیکل پر سفر کرتے اور طالبان کے شب نامے رات کے اندھیرے میں تقسیم کئے جاتے۔
طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ملا عمر اور ملا اختر منصور کے قریبی ساتھی ہیں مگر وہ کبھی طالبان کی عسکری سرگرمیوں کا حصہ نہیں رہے‘ انہوں نے نمایاں کردار پچھلے سال ملا اختر منصور کی بیعت اور طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات کے خاتمے کے سلسلے میں ادا کیا وہ طویل عرصہ تک کوئٹہ سے پچیس تیس کلومیٹر دور کچلاک (وہی کچلاک جہاں کے السلیم ہوٹل پر سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر نے رہائی کے بعد کھانا کھایا) کے ایک دارالعلوم میں شیخ الحدیث اور طالبان مصالحتی کمشن کے سربراہ کے فرائض انجام دیتے رہے اور امریکی و افغان انٹیلی جنس ادارے ہیبت اللہ اخونزادہ کی موجودگی اور افغان رہنمائوں کی آمدورفت کی بناء پر یہ الزام لگاتے رہے کہ یہاں طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کے اجلاس منعقد ہوتے ہیں۔ افغان امور کے ماہرین اور طالبان کے معاملات سے باخبر تجزیہ کار بخوبی جانتے ہیں کہ ملا اختر منصور کی طرح ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اگرچہ نرم گو اور نرم مزاج ہیں مگر تنظیمی معاملات چلانے کے لیے ایک طرف تو بانی تحریک ملا عمر کی وصیت کے پابند ہیں‘ دوسری طرف وہ اپنے نائب اُمرا ملا یعقوب اور سراج الدین حقانی کے محتاج ہیں۔ نورزئی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے سفیدریش اخونزادہ کے لیے ملا عمر کی وصیت سے انحراف ممکن ہے نہ طاقتور کمانڈروں اور نائب امراء سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب کی مرضی اور طالبان شوریٰ کی منشا کے بغیر کوئی فیصلہ کرنا ممکن۔ ملا عمر نے اپنی وصیت میں اس شخص کو طالبان کی امارت کا حقدار قرار دیا تھا ''جو افغانستان سے آخری امریکی فوجی کے انخلا تک جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو۔ بصورت دیگر شوریٰ اس کی اطاعت کی ذمہ دار نہ ہوگی‘‘ اطلاعات کے مطابق نئے انتخاب سے قبل رہبری شوریٰ نے اس وصیت کی توثیق کی اور اس کی روشنی میں نئے امیر کا انتخاب کیا گیا۔
طالبان اگرچہ ایک اہم عسکری کمانڈر کی قیادت سے محروم ہو گئے مگر اب سراج الدین حقانی اور ملا یعقوب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی جو کابل کو ٹارگٹ کرنے اور قندھار و جلال آباد پر دبائو بڑھانے کی پالیسی کے علمبردار ہیں جبکہ ملا اختر منصور نے کابل کو غیر جنگی علاقہ قرار دینے کا وعدہ کیا تھا اور زندگی کے آخری لمحات تک طالبان کمانڈروں کو کابل پر بڑے حملے سے روکتے رہے جبکہ اختر منصور کے جانشین اپنے وجود اور طالبان کی عسکری صلاحیت کا احساس دلانے اور اپنے امیر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کابل کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اگلے دو چار ہفتوں میں طالبان اپنے وجود کا بھرپور احساس دلائیں۔ امریکہ کی اس حرکت نے چار فریقی مذاکرات کے ایک اہم رکن چین کوبرافروختہ کیا‘ پاکستان کو خفت سے دوچار اور روس بھی صورتحال سے خوش نہیں۔ روس‘ چین اور ایران خطے میں امریکی اثرورسوخ کو مزید بڑھنے سے روکنے اور افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کو حصہ بقدر جُثہ دینے پر متفق ہیں اور توقع یہ کی جا رہی ہے کہ طالبان کی نئی قیادت کو پاکستان کے علاوہ ان تینوں ممالک کی خاموش تائید و حمایت حاصل ہو گی۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ملا اختر منصور پر حملے کو امریکہ اپنی کامیابی اور مذاکرات کے لیے نیک شگون قرار دے رہا ہے مگر اس کے یورپی اتحادی پریشان ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ کابل میں قیام امن کی جو اُمید پیدا ہوئی تھی وہ ایک بار پھر خاک میں مل گئی ہے اور اب افغانستان میں یورپی مفادات کو لاحق خطرات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
نوشکی میں ڈرون حملے نے پاکستان کو مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات ایک بار پھر دبائو کا شکار ہیں اور ریڈ لائنز عبور کرنے کے بعد امریکہ نے پاکستان کو عدم تحفظ اور شرمندگی کے شدید احساس سے دوچار کیا ہے۔ صدر اوباما کے اعلان کے بعد پاکستان کا کوئی علاقہ اور کوئی حساس مقام محفوظ نہیں رہا اور دونوں ممالک کے تعلقات ایبٹ آباد آپریشن اور سلالہ چیک پوسٹ حملہ کی سطح پر آ چکے ہیں کیونکہ پاکستان کو بطور ریاست امریکہ نے یہ احساس دلایا ہے کہ امریکہ خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے اور ایک نیوکلیئر مسلم ریاست کو دبائو میں لانے کے لیے ہر حد پار کر سکتا ہے اور وہ اپنے نان نیٹو اتحادی کی آزادی و خودمختاری کا احترام کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرح امریکہ کے یورپی اتحادیوں کو بھی اس بات پر تشویش ہے کہ امریکی صدر اوباما نے ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو اگلا الیکشن جتوانے اور افغان فوج کی تربیت کے نام پر کابل میں اپنے دس پندرہ ہزار فوجی برقرار رکھنے کے لیے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کیا اور طالبان کا یہ موقف درست ثابت ہوا کہ واحد سپر پاور افغانستان سے مکمل انخلا چاہتی ہے نہ قیام امن میں مخلص‘ اوباما اسامہ بن لادن کے بعد اختر منصور کو ہلاک کر کے اپنی قوم کے سامنے سرخرو ہوئے مگر اس کے بدلے میں افغانستان کو کیا ملا؟۔ مزید بدامنی اور خطے میں عدم استحکام ... 
ڈرون حملوں پر پاکستان کا موقف اپنی جگہ درست مگر مقروض اور امریکہ کی اقتصادی و دفاعی محتاج ریاست کے لیے زبانی احتجاج کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا‘ امریکہ نے اپنے بدترین مخالف کو موت کے گھاٹ اتار کر طالبان کو سپرپاور کی شرائط پر جلد مذاکرات شروع نہ کرنے کی سزا دے دی‘ پاکستان کو بھی باور کرا دیا کہ جنگل کا بادشاہ جب اور جہاں چاہے حملوں کا حق رکھتا ہے‘ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ خوش ہیں کہ اُن کے آقا نے پاکستان کے اس دعوے کو جھٹلا دیا کہ افغان طالبان پاکستان میں نہیں۔ طالبان نے تین دن کے اندر نیا امیر منتخب کر کے امریکہ اور افغانستان کو پیغام دیا کہ اندرونی انتشار کے ذریعے انہیں کمزور کرنے اور بزور طاقت دبانے کا خواب فی الحال شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہے۔ مگر کوئلوں کی اس دلالی میں ہمارے ہاتھ کیا آیا؟۔ امریکہ کے نان نیٹو اتحادی کو جو اپنے حکمرانوں کی نامزدگی کے لیے بھی واشنگٹن کی طرف دیکھتا ہے اور ہر معاملے میں اس طوطا چشم دوست کی خوشنودی کا خیال رکھتا ہے ‘ مُنہ پر کالک کے سوا کیا ملا؟چوہدری نثار کا غصّہ بجا اور آرمی چیف کی امریکی سفیر سے دو ٹوک گفتگو سر آنکھوں پر ۔ مگر اب کیا فائدہ؟ ع 
گیا ہے سانپ نکل تُو لکیر پیٹا کر 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں