ترکی میں پرویز مشرف کی ’’خاطر تواضع‘‘

یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب میں ایف ایم92.6ریڈیو کی پرکشش افتتاحی تقریب سے فارغ ہو کر گاڑی میں بیٹھا تو کرامت غوری کی کتاب ''بارِشناسائی ‘‘نے بار دگرورق گردانی کی دعوت دی۔ غوری صاحب نے لکھا:
''منتخب وزیر کا تختہ الٹنے کے دس روز بعد ہی جنرل مشرف انقرہ تشریف لے آئے۔میں حیران تھا کہ انقرہ کا دورہ کرنے کی ایسی کیا جلدی تھی۔ ملک میں ہنگامی صورتحال تھی اور نئے سربراہ مملکت اس ہنگامے کو چھوڑ کر انقرہ آ رہے تھے‘ آخر کیوں؟اسلام آباد سے تو ظاہر ہے میری کوئی رہنمائی نہیں ہوئی لیکن میں نے خود ہی دو جمع دو کر کے یہ نتیجہ نکالا کہ جنرل صاحب شاید انقرہ کو اپنا وطن ثانی سمجھتے ہیں۔ آخر یہاں انہوں نے اپنے لڑکپن کے سات برس گزارے تھے جب ان کے والد بزرگوار مشرف الدین صاحب ہمارے سفارتخانے میں بطور اکائونٹنٹ تعینات تھے۔ جنرل مشرف تھوڑی بہت ترکی زبان بھی بول لیتے تھے اور پاکستان اور ترکی کے درمیان سب سے گہرا ناطہ دونوں افواج کا باہمی تعاون اور اشتراک تھا‘‘۔
''جنرل مشرف کی بدنصیبی کہ اس وقت کے صدر ترکی سلیمان دیمرل اور وزیر اعظم بلند ایجوت دونوں ہی فوج کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے۔ سو جب میں جنرل مشرف کو سلیمان دیمرل سے ملانے کے لیے قصر چنا کالے لے کر گیا تو دیمرل صاحب نے ان کا استقبال تو بہت خندہ پیشانی سے کیا لیکن جب بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے جنرل صاحب کو بقول شخصے بہت کھری کھری سنائیں‘ انہیں نیک و بد سمجھانے کے لیے‘‘۔
''اس ملاقات میں جنرل مشرف تھے‘ میرے عزیز دوست اور اس وقت کے سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد اور میں تھا ۔صدر دیمرل نے انتہائی تحمل اور بردباری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:''جنرل! مجھے عملی سیاست میں پچاس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا‘ وہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے۔ ہمارے جرنیلوں کے دماغ میں بھی یہ خنّاس تھا کہ وہ ملک کو سدھار سکتے ہیں لیکن ہر بار وہ جب اپنا تماشا دکھا کے واپس بیرکوں میں گئے تو حالات پہلے کی بہ نسبت اور خراب کر گئے۔ جنرل! دنیا کی کوئی فوج کسی ملک کی تقدیر نہیں سنوارسکتی۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور تمہیں میں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں‘ لہٰذا بڑا بھائی ہونے کے ناطے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنی جلد ہو سکے‘ اقتدار سیاستدانوں کو واپس کرو اور اپنی بیرکوں کو لوٹ جائو‘‘۔
''میں دیکھ رہا تھا کہ جنرل مشرف کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ وہ کیا سوچ کر آئے تھے اور ماجرا کیا ہوا۔ دیمرل صاحب نے تو ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ شاباشی دینے کے بجائے کان مروڑ دیے۔ملاقات ختم ہونے پر باہر نکلے تو مجھ سے اور شمشاد سے فرمایا:''یہ صدر دیمرل کچھ زیادہ ہی نہیں کہہ گئے؟‘‘۔ 
''وہاں سے اگلی ملاقات کے لیے وزیر اعظم بلند ایجوت کے دفتر پہنچے تو ایجوت صاحب الگ چھریاں تیز کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سلیمان دیمرل کے مقابلے میں فوج کے بہت زیادہ ڈسے ہوئے تھے۔ وہ کٹّر سوشلسٹ نظریات کے حامل تھے اور ان کے سوشلزم میں صرف زبانی جمع خرچ نہیں تھا۔ وہ ہمارے قائد عوام‘ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کے سوشلسٹ نہیں تھے کہ رہن سہن ‘ رکھ رکھائو‘ سب بادشاہوں کا سا لیکن زبان پر سوشلزم کے پرفریب نعرے۔ ایجوت وزیر اعظم ایک بار نہیں تین بار بنے تھے لیکن میں دیکھتا تھا کہ وہ اپنے تیسرے عہد وزارت میں بھی‘ جب میں وہاں تھا‘ کبھی ایک دن بھی وزیر اعظم کی شاندار سرکاری رہائش گاہ میں نہیں رہے۔ وہی اپنے تین کمروں کے پرانے فلیٹ میں رہتے تھے اور وہی بیس برس پرانی فیاٹ(Fiat)گاڑی خود چلاتے تھے جسے وزیر اعظم تو کجا ہمارے اکیس گریڈ کے افسر بھی کھٹارا کہہ کر کب کے ٹھکانے لگا چکے ہوتے۔ جنرل مشرف کو اپنے مختصر قیام انقرہ کے دوران شاید میرا وہ جملہ بہت ناگوار گزرا تھا جب وہ میرے سامنے پاکستان اور ترک افواج کے درمیان مشترک اقدار گنوا رہے تھے اور میں نے ان کی تقریر سننے کے بعد کہا تھا:''جنرل صاحب!یہ مماثلت اپنی جگہ درست لیکن پھر بھی ایک بہت بڑا فرق ہے دونوں افواج کے کردار میں اور وہ یہ کہ ترکی کے کسی شہر میں آپ کو پاکستان کی طرح ڈیفنس کالونی نہیں ملے گی۔ یہاں فوج کا سربراہ اعلیٰ یعنی آپ کا ہم منصب بھی جب ریٹائر ہوتا ہے تو تین چار کمروں سے زیادہ کے فلیٹ میں نہیں رہتا ہے۔ اس لیے کہ سرکار اسے نہ کوئی مراعات دیتی ہے اور نہ ہی زمینیں۔سو بلند ایجوت نے تو جنرل مشرف کو اور بھی آڑے ہاتھوں لیا اور ان تمام نقصانات کی فہرست گنوائی جو سیاسی عمل میں فوج کی مداخلت بے جا سے ترکی میں پیدا ہوئے تھے اور بقول ان کے دنیا کے ہر اس ملک میں ہوسکتے تھے اور ہوئے تھے‘ جہاں فوج اپنے ڈنڈے کی حکمرانی زبردستی مسلط کرتی ہو۔
''ایجوت صاحب نے تو ایک مرحلے پر تفریح لینے کے لیے جنرل مشرف سے کہا: جنرل ! ہمارے دونوں ملکوں میں بہت سی اقدار مشترک ہیں اور اب تو ہم اس اسکور میں بھی برابر ہو گئے کہ دونوں جگہ جرنیلوں نے چار بار سیاسی عمل میں رخنہ ڈالا ہے۔ایجوت کے اس سنگین مذاق پر جنرل مشرف کا منہ لٹک گیا لیکن کیا کرتے بات بالکل درست تھی‘ لہٰذا کڑوی کسیلی گولی نگلنی پڑی۔ یہ تو کہہ نہیں سکتے تھے کہ ترک انہیں گھر بلا کر جھاڑ پھٹکار رہے تھے۔ اس لیے کہ موصوف تو خود ہی ترکی دوڑے آئے تھے‘‘۔
کرامت غوری مزید لکھتے ہیںپاکستان کے متعلق انہوں نے مجھ سے بہت سی باتیں کیں‘ کرید کرید کر سوالات کئے ۔ یہ کہہ کر کہ انہیں بتایا گیا تھا کہ میرا شمار دفتر خارجہ کے سب سے زیادہ با خبر اور ذہین افسروں میں ہوتا تھا اور میں نے حتی الامکان ان کے ہر سوال کا جواب وضاحت سے دیا۔میں نے کہا:''جنرل صاحب! دنیا آپ پر ڈکٹیٹر ہونے کی چھاپ تو ان آٹھ دس دن میں ہی لگا چکی ہے اور جتنے عرصے آپ پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے رہیں گے‘ یہ لیبل آپ پر مزید چسپاں ہوتا رہے گا لیکن اگر آپ واقعی ملک اور قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو کڑوی گولی ہی نہیں بلکہ کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی۔ آپ نے کمال اتاترک کو اپنے لیے رول ماڈل قرار دیا ہے تو پھر آپ ان کی تقلید ہی کر لیجیے۔ اتاترک میں بہت سی خامیاں تھیں۔ بہت سے عیب تھے لیکن ایک بہت بڑی صفت تھی۔ وہ جو ہر اس رہنما میں ہوتی ہے اور ہونی چاہیے جنہیں اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ ہوتا ہے۔ اتاترک نے جو کام کرنے کا فیصلہ کیا‘ پھر اس کے متعلق نہ اپنے ذہن میں کوئی ابہام رہنے دیا اور نہ اپنی قوم کو کسی مغالطہ میں رکھا۔ بس جو قوم کے لیے بہتر سمجھا وہ کر گزرے۔ یہی صفت مائوزے تنگ میں بھی تھی۔ عوامی انقلاب کی فتح کے بعد مائو نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جاگیرداروں اور زمینداروں کا قلع قمع کر دیا۔ اس لیے کہ یہ صرف مائو کا وہم ہی نہیں تھا بلکہ وہ لوگ چینی عوام اور قوم کے مفادات کے بدترین دشمن تھے۔ امام خمینی نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ان شاہ پرستوں اور استحصال پسندوں کو جنہوں نے ایران کے غریب عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا‘ تِہ تیغ کروا دیا۔یہ کہہ کر کہ یہ لوگ انسانیت کے دشمن ہیں اور کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ ایرانی عوام کے دوست نہیں تھے‘‘۔ جنرل صاحب نے لقمہ دیا:''لیکن پاکستان میں یہ کام کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘۔
میں نے کہا:''جنرل صاحب نیّت ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک فارمولا ہے اور وہ یہ کہ آپ1971ء کے سقوط ڈھاکہ کو خط تنسیخ قرار دیجیے۔ وہ جسے انگریزی میں Watershed کہتے ہیں۔ پاکستان اس سانحہ کے نتیجے میں دولخت ہو گیا تھا۔ یہ فیصلہ تو آج تک نہیں ہو سکا کہ اس کی ذمہ داری کس پر تھی لیکن عوام کی عدالت میں پاکستانی سیاستدانوں کی کھلی ناکامی ایک بڑی وجہ تھی جو ملک کے ٹکڑے ہوئے اور قائد اعظم کا پاکستان منتشر ہو گیا۔ آپ یہ حکم نافذ کر دیجئے کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے جو لوگ بھی پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن تھے وہ اور ان کے بیٹے‘ بھتیجے‘ داماد وغیرہ وغیرہ آئندہ بیس برس کے لیے عملی سیاست میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے‘ بیس برس میں کم از کم چار الیکشن ہو چکے ہوں گے اور اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف پرانے جغادری اور کھلاڑی پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے مٹ چکے ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک نئی اور متبادل قیادت قوم سے اپنا وجود منوا چکی ہو گی۔ کہیے کیسی لگی یہ تجویز؟‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں