جنگ جانشینی

یہ ہر موقع پر آخر آرمی چیف کو ہی کیوں بولنا پڑتا ہے؟ بلوچستان میں ڈرون حملہ ہوا تو بھر پور ردعمل فوجی قیادت نے ظاہر کیا یا وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے۔ میاں نواز شریف نے ڈرون حملے کے ایک دن بعد قوم کو جان کیری کی فون کال کے بارے میں بتایا اور یہ بھی کہا کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہیں۔ اس ہومیو پیتھک سے بیان کے بعد وہ لندن میں ایک ہفتہ تک آکسفورڈ سٹریٹ میں سیرو تفریح اور خریداری کے علاوہ ریستورانوں میں پرہیزی کھانوں سے لطف اندوز ہوتے رہے اور ویڈیو لنک پر وفاقی کابینہ سے خطاب کے بعد ہسپتال چلے گئے۔
آرمی چیف نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو جی ایچ کیو بلا کر قومی جذبات اور پاکستان کے سرکاری موقف سے آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں کا موقف البتہ سخت اور عوامی اُمنگوں سے ہم آہنگ تھا جس کا اندازہ پاکستان میں امریکہ کا کھانے اور موقع بے موقع گن گانے والوں کی طرف سے چودھری صاحب کے بیان پر اظہار ناپسندیدگی سے ہوا۔ میاں صاحب چاہتے تو لندن سے کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار سے رابطہ کر کے ریڈ لائنز عبور کرنے پر احتجاج کر سکتے تھے اور نیشنل سکیورٹی کونسل کے جملہ ارکان کو لندن بلا کر ہائی کمشن میں تبادلہ خیال کیا جا سکتا تھا مگر شائد موجود حکومت کے لیے یہ اتنا اہم اور سنگین معاملہ نہیں‘ تبھی صدر ممنون حسین کے سالانہ خطاب میں اس کا ذکر ہوا نہ صبح سے شام تک ذرائع ابلاغ پر اپوزیشن کے لتّے لینے والے وزیروں نے اس موضوع پر سنجیدہ اظہار خیال کی ضرورت محسوس کی۔ سرگوشیوں میں بعض قومی اداروں کی ناقص کارکردگی پر تنقید البتہ ہوتی رہی۔
فارسی میں کہتے ہیں خانۂ خالی را دیواں می گیرند(خالی گھر میں دیو بسیرا کرتے ہیں) خارجی اور دفاعی معاملات میں حکومت کی اس عدم دلچسپی‘ بے اعتنائی اور کمزور پالیسی کا فائدہ وہ ادارے اٹھاتے ہیں جو ہمارے نام نہاد جمہوریت پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔اگر قومی خود مختاری پامال ہوتی ہے وزیر اعظم اس پر سنجیدہ اور زور دار ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور صدر اپنے سالانہ خطاب میں اس معاملے پر ایک لفظ نہیں کہتے تو پھر آرمی چیف کیوں نہ بولے۔ اور قوم کیوں نہ سوچے کہ آخر قومی مفادات کا تحفظ اور عوام امنگوں کی ترجمانی کس کا فرض ہے اور کون ادا کر رہا ہے؟چودھری نثار علی خاں دبنگ راجپوت کے طور پر بسا اوقات وہ باتیںکہہ جاتے ہیں جو وزیر خارجہ کے طور پر میاں نواز شریف ‘وزیر دفاع کے طور پر خواجہ آصف اور مشیر خارجہ کے طور پر سرتاج عزیز کہیں تو اچھا ہے مگر ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی ان سے خوش نہیں اور مسلم لیگ ن کے خواجگان بھی پسند نہیں کرتے میاں شہباز شریف سے تعلق برقرار ہے مگر وہ خود اعتمادی کے بحران کا شکار ہیں میاں نواز شریف نے اپنی یہ انفرادیت برقرار رکھی ہے کہ فوجی قیادت سے تعلقات بگاڑتے وہ خود ہیں اور سنوارنے کی ذمہ داری میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کو سونپتے ہیں‘ اپنے اصل قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں کو اس قابل نہیں سمجھتے۔
1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف سے تعلقات خراب ہوئے تو میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں نے جلتی پر پانی چھڑکا اور الائو کی تپش کم کی مگر یہ ایک جال تھا جس میں چالاک پرویز مشرف پھنس نہیں پایا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد اس نے ایک بار اخبار نویسوں کو بتایا کہ مجھے جاتی امرا سے منصوبے کی اطلاع مل رہی تھی مگر یہ دونوں آ کر مجھے یقین دہانی کرا رہے تھے کہ میاں نواز شریف کا دل صاف ہے اور وہ آپ کو آرمی چیف کے علاوہ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ پرویز مشرف نے نقل اتاری کہ ایک کہتا تھا''میں وضو سے ہوں جھوٹ نہیں بولتا‘‘ اور دوسرا''میرے سامنے رزق پڑا ہے‘‘ کہہ کر مجھے یقین دلاتا کہ معاملات سنور گئے ہیں‘ بعدمیں جو ہوا وہ تاریخ ہے اور عام خیال یہ ہے کہ میاں شہباز شریف اور نثار علی خاں کو اصل منصوبے کی بھنک نہ پڑنے دی گئی۔ اب یہی دونوں آرمی چیف کو بعض یقین دہانیاں کرا رہے ہیں۔ مگر کوئی نہیں جانتا کہ بڑے میاں صاحب کے من میں کیا ہے اور یہ دونوں قابل اعتماد یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں ہیںیانہیں۔ پاکستان ایک نرالی جمہوریہ ہے جہاں وزیر داخلہ اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ حکومت اورفوج کے درمیان پُل کا کام دیتے ہیں۔ جس سے چھوٹے صوبوں کو شکایت کا موقع ملتا ہے کہ غیر ملکی دورے ہوں یا آرمی چیف سے ملاقاتیں ان کے وزرائے اعلیٰ کو لائق التفات نہیں سمجھا جاتا۔
صرف سول ملٹری تعلقات کے ضمن میں ہی نہیں کئی دوسرے معاملات میں بھی میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خاں کے مشورے حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں۔ انتخابات 2013ء کی انتخابی کامیابی انہی مشوروں کے علاوہ پنجاب میں شہباز شریف کی بہتر کارکردگی کا ثمر ہے مگر جانشینی کا سوال ہو تو ان دونوں کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر فیصلہ سازی میں وہ دخل انداز ہوتے ہیں جن کی وجہ سے میاں صاحب ان دنوں سیاست اور صحت کے بحران سے دوچار ہیں اور کچھ پتہ نہیں کہ اس بحران کا نتیجہ کیانکلے۔ پانامہ لیکس ایک ایسی چھچھوندر ہے جس کو نگلنا اور اگلنا مشکل ہو رہا ہے میاں صاحب کی اوپن ہارٹ سرجری سے پیدا ہونے والی ہمدردی کی لہر بھی اپوزیشن کے ارادوں کو متزلزل نہیں کر سکی۔ جن لوگوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب کے آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتے ہی پاناما لیکس کے غبارے سے ہوا نکل جائیگی اور اپوزیشن دھڑکتے دل کے ساتھ کہا سنا معاف کرنے کی درخواست کرے گی‘ وہ شائد نہیں جانتے جس طرح اقتدار کی آنکھ میں شرم نہیں ہوتی اسی طرح سیاست کے سینے میں دل کہاں؟
سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ ہوا تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فی الفور نیٹو سپلائی پر پابندی لگا دی ‘جس کا کریڈٹ زرداری حکومت نے بھی لیا۔ اب مگر بات زبانی احتجاج سے آگے نہیں بڑھی جس نے قومی سلامتی کے حوالے سے حساسیت کے شکار عوام کے احساس عدم تحفظ میں اضافہ ہوا۔ لوگ مسلم لیگ(ن) میں جانشینی کی جنگ سے نالاں اور بھارت و امریکہ کے بارے میں ضرورت سے زیادہ متذبذب پالیسی پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں جبکہ فوج کے بارے میںکوئی نہیں جانتاکہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔جنرل کیانی نے غالباً مولن سے کہا تھا کہ اگر سلالہ جیسا ایک اور واقعہ ہوا تو سمجھو دو طرفہ تعلقات ختم۔ سلالہ سے بڑا واقعہ رونما ہو چکا مگر واحد اسلامی نیو کلیر ریاست بھر پور ردعمل ظاہر کرنے سے قاصر ہے۔ وزیر اعظم بستر علالت پر ہیں اللہ تعالیٰ انہیں صحت کاملہ عطا فرمائے اور کوئی دوسرا نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلا کر اتفاق رائے سے قومی موقف کی تشکیل کا اہل ہے نہ با اختیار ۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو گزشتہ روز یہ وضاحت پیش کرنی پڑی کہ وہ خود یا اسحق و نثار میں سے کوئی میاں صاحب کا جانشین نہیں۔ اس کے باوجود یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک سیاسی و جمہوری جماعت ہے‘ سیاسی اور جمہوری جماعتوں میں تو ہر فعال اور اہل سیاسی کارکن قیادت کے خواب دیکھتا‘ کوشش کرتا اور کبھی نہ کبھی کامیاب ہو جاتا ہے۔ وضاحتیں اور تردیدیں نہیں کرتا۔
ملک میں پارلیمنٹ موجود ہے‘ برا بھلا منتخب حکومتی ڈھانچہ بھی اور وزیر اعظم ماشاء اللہ روبصحت ہیں مگر قومی سلامتی اور خود مختاری کے معاملات پر ردعمل آرمی چیف کو ظاہر کرنا پڑتا ہے ۔باضابطہ اقدام کے لیے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا انتظار ہے جو اگلے تین چار ہفتے تک منعقد ہونے کی توقع نہیں۔ اس بارے میں فوج کیا سوچ رہی ہے ؟کسی کو فکر ہے نہ فرصت اورنہ دماغ۔ قومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ آج خیریت سے گزر جائے کل کی کل دیکھی جائے گی۔ وزیر اعظم کا آپریشن کامیاب رہا۔میری اور قوم کی طرف سے مبارکباد۔ بعض لوگ اب بھی بیرون ملک علاج پر معترض ہیں مجھے خانپور کے ایک رکن اسمبلی یاد آ رہے ہیں جن کی جوس فیکٹری تھی۔ ایک بار پی آئی اے پر دوران سفر جوس کی ٹرالی آئی تو کم سن پوتے نے جوس کا پیکٹ پکڑ لیا ایم پی اے نے پوتے کو پینے سے روکا کہ یہ ہماری اپنی فیکٹری کا جوس ہے بیٹا مت پیو۔ پاکستانی ہسپتالوں کے بارے میں وزیر اعظم سے زیادہ کون جانتا ہے۔؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں