خبر لیجیے دہن بگڑا

وفاقی وزیر دفاع‘ بجلی و پانی خواجہ آصف نے ڈاکٹر شیریں مزاری کے بارے میں جو ریمارکس دیے وہ اس قدر نازیبا اور قابل اعتراض تھے کہ خواجہ صاحب کو خود ہی ضمیر نے ملامت کی اور وہ دوسرے دن معافی تلافی پر اتر آئے مگر حیرت سپیکر سردار ایاز صادق پر ہے جو خود ایک شائستہ اور مہذب انسان ہیں کہ انہوں نے موقع پر کوئی ایکشن نہ لیا‘ قابل اعتراض الفاظ پر خواجہ صاحب کی قرار واقعی سرزنش نہ کی اور صرف الفاظ حذف کرنے پر اکتفا کیا جو اسمبلی کی کارروائی سے تو حذف ہو گئے مگر زبان سے نکلی کوٹھوں چڑھی کے مصداق پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر بار بار نشر و شائع ہوئے اور سوشل میڈیا پر خواجہ صاحب کی خوب درگت بنی۔
قیام پاکستان سے پہلے اور بعد سیاستدان ہی نہیں قلم کار اور دانشور بھی ایک دوسرے پر فقرے کستے ۔ کبھی کبھی یہ جملے بازی حد ابتذال کو چھونے لگتی مگر خواتین کا احترام ہمیشہ ملحوظ رکھا جاتا۔ جب مجلس احرار اسلام کے مظہر علی اظہر ایڈووکیٹ نے اسلامیان ہند کے غیر متنازعہ اور مقبول رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کی نو مسلم زوجہ کے حوالے سے ایک بے ہودہ سا شعر جلسے میں پڑھا تو سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے کہا ''مظہر علی اظہر نے میری عمر بھر کی کمائی ڈبو دی‘ ایک عفیفہ کے خلاف زبان درازی سے پہلے یہ بھی نہ سوچا کہ مجلس احرار اسلام کو اس کی کیا قیمت چکانی پڑے گی‘‘ عام خیال یہی ہے کہ مجلس احرار کی لٹیا ڈبونے میں مظہر علی اظہر کا کردار اہم تھا اگرچہ قیام پاکستان کی مخالفت میں دیگر رہنما بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ کانگریس سے پینگیں بڑھانے والے مذہبی رہنما سب سے آگے ۔مولانا حسین احمد مدنی کی اندھی تقلید میں یہ مسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات اور کانگریس کی مسلم دشمنی کا اندازہ ہی نہ لگا سکے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی سیاست اور اسمبلیوں میں کئی قابل احترام خواتین فعال رہیں۔ ان پر تنقید بھی ہوا کرتی مگرسرعام نازیبا جملے بازی کا رواج نہ تھا۔ ایک بار ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں ناروا ریمارکس دیئے تو شدید ردعمل ہوا خود مسلم لیگی رہنمائوں نے اپنے لیڈروں کو باور کرایا کہ یہ قابل برداشت نہیں؛ چنانچہ دونوں سنبھل گئے۔ گوجرانوالہ میں البتہ ایک کنونشن لیگی لیڈر نے ‘جو ان دنوں مسلم لیگ (ن) کااثاثہ ہیں ‘محترمہ فاطمہ جناح کی مخالفت میں جو کردار ادا کیا اس پر اہل گوجرانوالہ آج تک شرمندہ ہیں۔ کوئی ذکر کرے تو ہاتھ جوڑ دیتے ہیں۔1988ء کے بعد آنے والی اسمبلیوں میں شیخ رشید احمد واحد رکن تھے جو محترمہ بے نظیر بھٹو پر غیر پارلیمانی اور غیر اخلاقی انداز میں لفظی گولہ باری کرتے اور اپنی لیڈر شپ سے داد پاتے مگر قومی سطح پر انہیں پسندیدگی کی سند کبھی نہیں ملی اور میاں نواز شریف کے بعض قریبی ساتھی بھی اس پر ناک بھوں چڑھاتے۔ معاملہ حد سے گزرنے پر بے نظیر بھٹو نے بہاولپور جیل میں ڈال دیا تو شیخ صاحب کو قرار آ گیا اب ان کا ہدف میاں نواز شریف ہیں اور لوگ اس وقت کو یاد کر کے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں جب شیخ صاحب کی ایسی باتوں پر میاں صاحب کی مسکراہٹ دیدنی ہوتی۔
شیخ رشید کی جگہ خواجہ آصف‘ طلال چودھری‘ دانیال عزیز اور عابد شیر علی نے سنبھال رکھی ہے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی‘ شیخ رشید نے میاں صاحب کے لندن کے ایک ہسپتال میں آپریشن پر جو تبصرہ کیا وہ سوشل میڈیا پر ہٹ ہوا مگر سنجیدہ مزاج اور مشرقی روایات کی پاس داری کرنے والے حلقوں میں ناپسند کیا گیا کہ کسی مخالف کی بیماری پر طنزکرنا ہمارے ہاں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔جب خواجہ آصف گزشتہ روز ایوان میں ڈاکٹر شیریں مزاری سے براہ راست معذرت کرنے کے بجائے چونکہ‘ چنانچہ کی تکرار کر رہے تھے تو اسحاق ڈار نے آہستگی سے انہیںمشورہ دیا کہ وہ ایوان سے معافی مانگنے کے ساتھ شیریں مزاری کا نام لے کر معذرت کر لیں مگر خواجہ صاحب طرح دے گئے۔ جس پر اپوزیشن کو واک آئوٹ کرنا پڑا۔ مسلم لیگی عقاب تحریک انصاف کی ایک خاتون رکن پر جملے بازی کرتے ہوئے یہ تک بھول گئے کہ حکمران جماعت میں میاں صاحب کی جانشینی کا بوجھ ان کی صاحبزادی مریم نواز نے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے؛بلکہ میاں صاحب کی عدم موجودگی میں عملاً وہ جانشینی کا فرض ادا کر رہی ہیں۔ وفاقی وزراء‘ بیورو کریٹس انہی سے ہدایات لیتے اور غیر ملکی سفرا انہی سے ملاقات کرتے ہیں‘ گزشتہ روز چینی سفیر نے میاں صاحب کی عیادت مریم نواز سے کی۔ اگر آج انہوں نے ڈاکٹر شیریں مزاری یا کسی دوسری خاتون رکن کا احترام ملحوظ نہ رکھا تو کل ان کی اپنی قیادت کی باری بھی آ سکتی ہے۔ ''لیگیوں‘‘ کو ''انصافیوں‘‘ سے ہمیشہ سے گلہ رہا ہے کہ ان کے بڑے ‘چھوٹے لیڈرزبان درازی میں طاق ہیں اور عمران خان نے ان کے بقول دھرنے کے دوران گالم گلوچ کے کلچر کو پروان چڑھایا ہے مگر اب خواجہ آصف نے ''انصافیوں‘‘ کو ہلّہ شیری دے کر اپنی لیڈر شپ کے لیے مصیبت کھڑی کر دی ہے۔خواتین ارکان اسمبلی کے احترام کو ملحوظ رکھنے کی ہدائت محترمہ مریم نواز ہی کریں تو خواجہ آصف شائد اپنے دہن کو مزید بگڑنے سے بچا لیں ورنہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ آج شیریں مزاری تو کل کوئی اور۔وہ بھی کیا دور تھا جب پاکستان کی اسمبلیوں میں حسین شہید سہروردی‘ مولوی فرید احمد‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ عبدالرب نشتر‘ سردار بہادر خان‘ ولی خان‘ ممتاز محمد خان دولتانہ‘علامہ رحمت اللہ ارشد ‘ مولانا شاہ احمد نورانی‘ مخدوم زادہ حسن محمود‘ خواجہ صفدر‘ حاجی سیف اللہ خان‘ تابش الوری اور سردار شیر باز مزاری کی موثر‘ مدلّل عالمانہ اور ادیبانہ و شاعرانہ گفتگو سننے کو ملتی تھی۔ طنزو مزاح میں بھی یک گو نہ شائستگی اور تہذیبی رچائو کو ملحوظ رکھا جاتا سردار بہادر خان نے اپنے بھائی فیلڈ مارشل ایوب خان کی کابینہ اور سیاست پر طنز کرتے ہوئے جب یہ کہا ؎
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے
انجام گلستان کیا ہو گا
تو کئی روز تک ادبی محفلوں میں چرچا رہا۔ سردار عبدالرب نشتر نے ری پبلکن پارٹی کو اقتدار سونپے جانے پر جلسہ عام میں تبصرہ کیا ؎
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
تو لوگ عش عش کر اٹھے۔ قیام پاکستان کے بعد حقیقی وارثوں کی سیاست و اقتدار کے ایوانوں سے بے دخلی اور مخالفین کی پذیرائی پر اس سے زیادہ بہتر تبصرہ ممکن نہ تھا۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خواجہ آصف حلقہ این اے110کے حوالے سے عذر داری کی سماعت پر پریشان ہیں۔ موترا نہر میں ان کی ڈبکیاں غم غلط کرنے کا بہانہ ہیں۔ جی ایچ کیو میں حسن سلوک اور چیف کے تیور دیکھ کر بھی موصوف بدمزہ ہوئے اور غصہ بے چاری شیری مزاری پر نکالا گویا ''ڈگی کھوتی توں تے غصہ کمہار تے‘‘ مگر یہ خواجہ صاحب کا پرانا اسلوب ہے اور میاں صاحب اس انداز بیاں کو پسند کرتے ہیں لہٰذا وہ جو کچھ بولے سوچ سمجھ کر بولے۔ کسی زمانے میں ارکان اسمبلی اپنے حلقہ اور ملک کے عوام‘ صحافی برادری اور گیلریوں میں بیٹھے افراد سے داد سمیٹنے کے لیے تقاریر کیا کرتے‘ جملہ کستے ہوئے بھی ان کے پیش نظر مخالف کی تذلیل نہیں محض اخباری جھلکیوں میں نام لکھوانے کی خواہش ہوتی یا پھر حریف کو زچ کرنا‘ مگر اب مقصد اپنے اپنے لیڈر کو خوش کرنا اور نمبر ٹانگنا ہوتا ہے۔ یہ دشنام طرازی سے ہو ‘ دوسرے کی توہین و تذلیل سے یا پارلیمانی روایات کی پامالی سے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو مخالف نے دھوکے باز قرار دیا تو سپیکر نے پہلے وارننگ دی اور پھر ایوان سے نکال دیا مگر سپیکر ایاز صادق سے یہ نہ ہو سکا۔ پہلے روز اپوزیشن کا ردعمل بھی کمزور تھا دوسرے دن خواتین ارکان کے شرم دلانے پر یہ واک آئوٹ کر گئے۔ 
یہ محض اتفاق ہے کہ جس روز امریکہ کے ڈیمو کریٹس تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون ہلیری کلنٹن کو صدارتی امیدوار نامزد کر رہے تھے ٹھیک اسی روز خواتین کی آمد پر استقبال کے لیے کھڑے ہونے والے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے پیرو کار ایک وفاقی وزیر نے ایک عورت کو ٹریکٹر ٹرالی قرار دے کر اپنی'' خوش ذوقی ‘‘'' شائستگی ‘‘اور ''اعلیٰ ظرفی ‘‘کا مظاہرہ کیا۔ نریندر مودی امریکہ سے نیو کلیر سپلائر گروپ میں شمولیت کا سرٹیفکیٹ حاصل کر رہے ہیں اوبامہ پاکستان کو پٹھان کوٹ سانحہ کی تحقیقات کا حکم دے رہے ہیں۔ بھارتی وزیر دفاع پاکستان سے مذاکرات کی کھڑکی بند کرنے کی نوید سنا رہے ہیں مگر ہمارے وزیر دفاع ایک خاتون رکن پر طنزو استہزا کے تیر برسا رہے ہیں۔ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں