ایک ٹی وی ٹاک شو میں حافظ حمد اللہ اور ماروی سرمد کے مابین غیر شائستہ گفتگو پر ردعمل سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہے اور اچھے بُرے کی تمیز سے عاری۔ ماروی سرمد سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی ان بے باک خواتین میں شامل ہیں جو دوران گفتگو مدمقابل کے جذبات کو مجروح کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں اور مخالف ردعمل کو اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں اس شو میں بھی بیرسٹر مسرور اور ان کا طرز عمل قابل اعتراض تھا مگر حافظ حمد اللہ نے جو کیا اور کہا اس پر معدودے چند لوگوں کے سوا سب نے تنقید کی‘ حافظ صاحب کے غلط کو غلط کہا اور ان کی گرم گفتاری کو بیرسٹر مسرور یا ماروی سرمد کے اشتعال انگیز طرز تخاطب کا منطقی ردعمل ماننے سے انکار کر دیا۔ معاشرے میں اعتدال‘ توازن اور انصاف کا جذبہ موجود اور توانا ہے اور جہالت وتعصّب کی جڑیں ابھی اتنی گہری نہیں کہ اچھے بُرے کی تمیز ہی باقی نہ رہے۔
حافظ حمد اللہ کو ان کی مذہبی حیثیت کی بنا پر بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا۔ ایوان بالا کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے بھی وہ غلطی کے مرتکب ٹھہرے اور ایک خاتون کے ساتھ گفتگو کے مشرقی اور اسلامی قرینوں سے تجاوز کے باعث بھی تنقید کا ہدف بنے۔ عذر لنگ کا سہارا لیتے رہے تو تنقید میں مزید اضافہ ہو گا مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس صورتحال کے تنہا ذمہ دار اور ٹاک شو کی میزبان اور ماروی سرمد و بیرسٹر مسرور بالکل بری الذمہ ہیں۔ پیمرا اس ٹاک شو کا نوٹس لے چکا ہے مگر یہ کسی ایک چینل یا ٹاک شو کا معاملہ ہے نہ دو چار افراد کا جس سے نمٹنے کے بعد معاملہ درست ہو جائے گا۔ حافظ حمد اللہ ‘ خواجہ آصف‘ شیخ رشید احمد اور فیصل رضا عابدی اگر غیر محتاط گفتگو کے حوالے سے ایک مخصوص طرز فکر کے نمائندے ہیں تو سول سوسائٹی اور آزادی اظہار ‘انسانی حقوق اور صنفی مساوات کے نام پر وجود میں آنے والے حشرات الارض بھی بگاڑ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ آداب محفل اور مختلف الخیال شرکاء کے جذبات و احساسات کی پروا کئے بغیرجملے بازی اور دوسروں کے مذہبی معتقدات اور معاشرے کی حسّاسیّت کو مدنظر رکھے بغیر انتہائی پھوہڑ پن سے اظہار خیال ان کا طرہ امتیاز ہے اور اسے لبرل ازم‘ جدیدیت اور ترقی پسندی سے موسوم کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں قدیم و جدید کا تنازعہ ہے اور مذہبی و غیر مذہبی طبقے میں کشمکش بھی۔ تعصب و تنگ نظری سے انکار بھی ممکن نہیں اور ہمارے کٹھ مُلاّ ہی نہیں جدید تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل مذہبی نوجوان بھی بسا اوقات اس میں مبتلا نظر آتے ہیں، مگر جس طرح ماضی میں کمیونسٹ عناصر اس حقیقت کا ادراک نہ کر سکے کہ لٹھ مار طریقے سے تبدیلی کی خواہش و کوشش جوابی اور شدید ردعمل پیدا کرتی ہے، اسی طرح ہمارے دیسی لبرل خواتین و حضرات بھی وہی غلطی دہرا رہے ہیں اور ایسے معاشرے میں غیر ملکی نظریات کی آبیاری کرنے پر مصر ہیں جن کے لیے زمین ہموار نہ موسم ساز گار اور نہ آب و ہوا موافق‘ مثلاً مساواتِ مرد وزن کی بحث میں ہم جنس پرستی کی حمایت‘ خواتین کے حقوق کے نام پر نوخیز نسل کو ماں باپ کے خلاف سرکشی پر اکسانا اور ہندوانہ اور قبائلی رسوم کی مخالفت میں اسلام اور مذہب کو نشانہ بنانا۔ خواتین کو جلانے کے جو واقعات حالیہ دنوں میں ظہور پذیر ہوئے وہ معاشرے میں جہالت‘ ذہنی پسماندگی‘ اولاد کے حقوق سے لاعلمی اور نکاح و شادی کے اسلامی احکام سے یکسر ناواقفیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دیول شریف اور لاہور میں جلائی جانے والی خواتین کے خلاف مولانا محمد خان شیرانی نے فتویٰ دیا تھا نہ حافظ حمد اللہ کی طرف سے کوئی بیان جاری ہوا تھا۔ ہندوستان میں ایسے واقعات بکثرت ہوتے ہیں جہاں اسلامی نظریاتی کونسل قائم ہے نہ حدود کے قوانین نافذ۔ یہ قبائلی‘ ہندوانہ اور جاگیردارانہ سماج کے مسائل ہیں جنہیں تعلیم‘ تربیت اور شعور و آگہی کی ترویج سے حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر امریکہ و یورپ سے فنڈ بٹورنے والی این جی اوز اور ان کے مذہب بیزار نمائندگان واقعہ کا ذمہ دار مذہب اور مذہبی رہنمائوں پر ڈال کر فتنہ انگیزی کرتے اور عدم برداشت کو پروان چڑھاتے ہیں۔ حقوق نسواں کی علمبرداربعض این جی اوز یہاں معصوم بچیوں کو اپنی معاشرتی اقدار اور مذہبی روایات سے روگردانی اورخاندانی نظام سے برگشتہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اور ہمارا الیکٹرانک میڈیا خوب مدد گار ہے، جس کا منفی ردعمل سامنے آ رہا ہے جو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے مگر کوئی بند باندھنے کے لیے تیار نہیں۔
بدقسمتی سے خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی توفیق ہمارے مذہبی طبقے کو کم نصیب ہوتی ہے، لیکن کوئی عالم دین یہ جرأت کرے تو ہمارا میڈیا درخور اعتنا نہیں سمجھتا، مثلاً مولانا شیرانی کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے بچیوں کو والدین کی جائیداد میں سے حصہ نہ دینے‘ غیرت کے نام پر قتل اور قرآن سے شادی کے خلاف جرأت مندانہ موقف اختیار کیا مگر میڈیا نے صرف ہلکے تشدد کو موضوع بحث بنایا اور رانا ثناء اللہ نے اس پر جو دلآزار تبصرہ کیا یعنی ''مولانا کے سر پر بیس جوتے ہلکا تشدد تصور ہوں گے یا بھاری‘‘ سے چشم پوشی کی یہ تقاضائے انصاف نہیں کہ معاشرے میںصنفی امتیاز کی ساری ذمہ داری علماء اور مذہب پر عائد کر دی جائے‘ خواتین پر تشدد کو مذہبی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیا جائے اور خواتین کے حقوق کی پامالی کا مرتکب ان مذہبی جماعتوں کو ٹھہریا جائے جنہیں عوام نے کبھی حکمرانی کے قابل سمجھا نہ جن کی وعظ و نصیحت پر کان دھرا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مولانا شیرانی اور حافظ حمد اللہ کی مذمت کرتے کرتے ہم ریٹنگ کے شوق میں ذمہ دار صحافت اور اخلاقیات کے بنیادی اصول فراموش کرنے والے خواتین و حضرات کوبھولیں نہ مختلف ٹاک شوز میں بیٹھ کر مذہبی اقدار‘ اخلاقی اصولوں اور معاشرتی روایات کا مذاق اڑانے والے ان روشن خیال عناصر کو جو چند ٹکوں کی خاطر ملک میں ایک ایسا مادر پدر آزاد ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں، جس میں باپ اور بیٹی کے رشتے کی حرمت برقرار نہ بھائی اور بہن کے مابین تقدس و پاکیزگی پر مبنی تعلق کی ضرورت و اہمیت۔ بعض ٹی وی چینلز پر باپ بیٹی اور بہن بھائی کے مقدس رشتے کو پامال کرنے والے ڈرامے اس کی زندہ مثال ہیں۔ ہمارے تھیٹر میں ماں‘ بہن کے رشتے کی جس طرح تذلیل ہوتی ہے اور بعض مزاحیہ ٹاک شوز میں بھی اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ خواجہ آصف اور حافظ حمداللہ کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ سے زیادہ تلخ‘ سنگین اور قابل اعتراض مگر اسے تفریح کے نام پر قبول کیا جاتا ہے اور عورت کا احترام کسی کو یاد نہیں رہتا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد پاکستان میں ڈالروں کی جو بہار آئی اور افغان جنگ کے بعد جس طرح این جی اوز کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ امریکہ کے کھونٹے پر ناچنے والے ان عناصر کو پاکستان کی قومی اقدار و روایات اور مذہبی تعلیمات کے خلاف پروپیگنڈے اور ہمارے معاشرتی بندھن کو توڑنے کے علاوہ مذہبی عناصر کو رسوا کرنے کا معاوضہ ملتا ہے اور وہ ان دنوں خوب گرج چمک رہے ہیں‘ مگر حیرت ان لوگوں پر ہے جن کا ان این جی اوز سے لینا دینا نہیں مگر اپنی کم علمی کی بنا پر یا روشن خیالی کے زعم میں ٹی وی چینلز پر حساس دینی موضوعات چھیڑ کر اپنے عقیدے کے حوالے سے حساس عوام کے جذبات کو ضرب لگاتے ہیں۔ حمزہ علی عباس نے گزشتہ روز ایک رمضان شو میں مسئلہ ختم نبوت سے جس غیر سنجیدہ انداز میں چھیڑ چھاڑ کی وہ اس کے لیے ہی نہیں تحریک انصاف کے لیے بھی ضرر رساں ہے۔ ایسے تمام خواتین و حضرات کو اپنی اس غیر محتاط روش کے خلاف اجتماعی ردعمل کا ادراک و احساس ہونا چاہیے ع
عدمؔ احتیاط لازم ہے لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
کئی عشرے تک سوویت یونین کی شہ پر ہونے والی اچھل کود کا نظارہ ہم کر چکے، اب شاید امریکہ کو خدا ماننے والوں کا خیال ہے کہ وہ جو چاہیں کر گزریں، انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، مگر خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، یہ قوم اپنی اقدار و روایات سے دستبردار ہوئی ہے نہ اپنے مذہبی تصورات کو یکسر فراموش کرنے کے موڈ میں ہے۔ انصاف اور اعتدال کا جذبہ زندہ و توانا ہے، قوم اپنے مذہبی و سیاسی رہنمائوں کو اخلاقی حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی اجازت دے سکتی ہے نہ مولوی کی آڑ میں مذہب کی تضحیک کے شوقین عناصر کو۔ سوویت یونین کے بعد تو ان بندگانِ زر کو امریکہ کا سہارا مل گیا‘ امریکہ کے بعد ان کیا ہو گا؟ بھارت تو اس قابل نہیں کہ انہیں گود لے سکے۔ لہٰذا احتیاط ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں