ماں نے بیٹے کو پیالہ پکڑایا‘ اور بازار سے ایک روپے کا مٹی کا تیل لانے کو کہا۔ بھلا زمانہ تھا روپے کی قدر تھی اور مٹی کا تیل سستا تھا۔ صاحبزادے نے دکاندار کو پیالے میں ایک روپے کا تیل ڈالنے کو کہا۔ پیالہ بھر گیا اور دکاندار کے پیمانے میں کچھ تیل بچ رہا۔ صاحبزادے نے پیالہ الٹا کیا اور باقی ماندہ تیل الٹی طرف بنے پیندے میں ڈالنے کو کہا۔ دکاندار نے باقی ماندہ تیل پیندے میں ڈال دیا۔ تیل لے کر نوجوان گھر پہنچا تو پیندے میں پڑا چند قطرے تیل دیکھ کر ماں نے پوچھا: ایک روپے کا اتنا کم تیل؟ صاحبزادے نے پیالہ سیدھا کیا اور کہا: زیادہ تیل پیالے میں ہے؟ جو دکان پر ہی صاحبزادے نے پیالے کو الٹا کر انڈیل دیا تھا۔
پینتیس سال تک ہم نے تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کی‘ انہیں ٹھکانہ فراہم کیا اور ان کے نام پر بین الاقوامی ایجنسیوں سے امداد بٹوری۔ انہیں کیمپوں میں بند نہ کر سکے تو یہ ہماری اپنی مرضی اور نالائقی تھی۔ ان مہاجرین کی وجہ سے پاکستان کو سستی لیبر دستیاب ہے، جفا کش‘ ایماندار اور محنتی چوکیدار‘ ڈرائیور اور مزدور گھروں‘ کاروباری مراکز اور دفتروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ گلی محلے میں جوتے پالش کرنے اور مکئی کے بھٹے بیچنے والے ان پائوندوں سے کبھی کسی کو شکایت رہی نہ اینٹوں کے بھٹوں‘ سبزی اور پھل منڈیوں‘ کپڑے کی مارکیٹوں اور فرنیچر کے کارخانوں میں کاروبار کرنے والے افغانوں کے بارے میں یہ تاثر ملا کہ خدانخواستہ کسی کے فرستادہ تخریب کار اور دہشت گرد ہیں۔ ان میں قانونی اور غیر قانونی دونوں طرح کے مہاجرین شامل ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں صحافیوں کے ایک وفد نے پشاور کا دورہ کیا‘ جس میں مجیب الرحمن شامی‘ قدرت اللہ چودھری‘ نذیر حق مرحوم کے ساتھ راقم السطور شامل تھا۔ اے این پی کے قوم پرستوں اور افغان مہاجرین کی کاروباری سرگرمیوں سے خائف بعض تاجروں کے سوا کسی نے شکایت نہ کی‘ اُلٹا لوگ اس بات پر حیرت زدہ تھے کہ لاکھوں کی تعداد میں مرد و خواتین پاکستان میں آباد ہو چکے ہیں‘ مگر کسی سڑک اور گلی محلے میں کبھی کوئی افغان بھیک مانگتا نظر آتا ہے نہ عصمت فروشی کے کاروبار میں کوئی افغان خاتون ملوث پائی گئی‘ حالانکہ دنیا بھر میں پناہ گزین عموماً ان دو علتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ سوویت یونین کی شکست و ریخت پر ماتم کناں حلقوں نے بھی آج تک ایسا کوئی اعتراض نہیں کیا۔
1979ء میں سوویت یونین نے مشرقی یورپ سے فارغ ہونے کے بعد افغانستان میں فوجی مداخلت کی تو اپنی جان و مال‘ عزت و آبرو اور عقیدہ بچانے کے لیے افغان عوام نے پاکستان اور ایران کا رخ کیا۔ ایرانی حکومت نے افغان مہاجرین کو شہروں سے باہر کیمپوں تک محدود کر دیا کیونکہ ایران خود اندرونی انتشار‘ دہشت گردی اور امریکہ دشمنی کا شکار تھا اور سوویت یونین بھی اس کے خلاف تھا۔ پاکستان میں کسی نے یہ زحمت گوارا نہ کی؛ چنانچہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کیمپوں سے نکل کر ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ یہ ہماری غلط پالیسی تھی مگر اس کے کچھ فوائد بھی تھے جس کا ذکر ابتدائی سطور میں ہو چکا کہ سستی لیبر ملی‘ کاروباری مسابقت کا جذبہ بیدار ہوا اور یہ لوگ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے محنت مزدوری کر کے معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے لگے۔ ایک فائدہ یہ بھی کہ نالائق پولیس‘ انتظامیہ اور خفیہ ادارے کبھی ناخوشگوار واقعہ پر نااہلی کا ملبہ باآسانی افغان مہاجرین پر ڈال کر سرخرو ہوتے۔
پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز بھٹو دور میں ہوا جب سردار دائود کی افغان حکومت نے نیپ کے ذریعے لاہور اور دیگر شہروں میں بم دھماکے کرائے۔ ضیاء الحق دور حکومت میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا مگر پکڑے جانے والے افراد ہمیشہ مقامی ہی نکلے۔ تربیت اگرچہ ان کی بھارت میں ہوئی یا افغانستان میں‘ کراچی اور کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں ملوث بیشتر افراد کا تعلق پاکستان کے مختلف لسانی و نسلی گروہوں سے ہے مگر بعض حلقوںنے واویلا شروع کر دیا کہ یہ سارا کیا دھرا افغان مہاجرین کا ہے اور بلوچستان کے صوبائی وزیر سرفراز بگتی کے بقول انہیں دھکے مار کر نکال دیا جائے۔ پشاور اور ملتان میں دو چھوٹے چھوٹے جلوس بھی نکلے اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے مہاجرین کی افغانستان واپسی کا مطالبہ شد و مد سے کیا۔ یہ وہ سوچ ہے جو برطانیہ میں یو کے پارٹی نے پیدا کرکے یورپی یونین سے نکلنے کی راہ ہموار کی اور برطانیہ کا ہر ذی شعور ریفرنڈم کے بعد پچھتا رہا ہے جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ میں پروان چڑھا کر نسلی فسادات کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر افغان مہاجرین کی وطن واپسی پر اعتراض ہے نہ انہیں پاکستان میں رکھنے پر اصرار مگر جس بھونڈے طریقے سے ان مہاجروں کو زبردستی ملک سے نکالنے کی تدبیر کی جا رہی ہے یہ دانشمندی ہے نہ حب الوطنی اور نہ قومی مفاد کا تقاضا۔ اسلامی اخوت اور جذبہ انسانی ہمدردی کو تو ہماری حکمران اشرافیہ کب کا خیرباد کہہ چکی‘ ورنہ بنگلہ دیش میں پاکستان کے وفاداروں کو پھانسی کے پھندے چومتے دیکھ کر ہم گونگے شیطان نہ بنے ہوتے لیکن کیا ہم اپنے نفع و نقصان کا میزانیہ تیار کرنے کے قابل بھی نہیں؟
پاکستان افغان مسئلہ کا فریق اور چار فریقی گروپ کا حصہ ان مہاجرین کی وجہ سے ہے اور خطے میں اہم کردار کا تقاضا بھی اسی بنا پر کر سکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے بے دخل کرنے کے لیے بھارت بے تحاشہ سرمایہ کاری اور جارحانہ سفارت کاری کر رہا ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایران اور افغانستان کو ساتھ ملا کر پاکستان کا گھیرائو کر رہے ہیں۔ چاہ بہار میں سرمایہ کاری کے علاوہ مودی نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ملٹری اکیڈمی اور جلال آباد کابل شاہراہ پر جدید میڈیکل کمپلیکس بنانے کا وعدہ کیا جس میں افغان شہریوں کو علاج معالجے کی جدید سہولتیں فراہم کی جائیں گی تاکہ ان کا پاکستان پر انحصار کم کیا جائے۔ پاکستان نے جلال آباد میں جو ہسپتال بنایا تھا اس کی حالت خستہ اور سہولتوں کا فقدان ہے جبکہ افغان مریضوں کے ساتھ پاکستان میں بدسلوکی کی شکایات بھی عام ہیں۔ وفاقی حکومت نے افغان مہاجرین کی واپسی میں چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق امریکی فوج کے مکمل انخلا تک مہاجرین پاکستان میں رہ سکتے ہیں مگر عبدالقادر بلوچ اور عمران خان کے ساتھی بضد ہیں کہ انہیں زبردستی افغانستان دھکیل دیا جائے۔ کے پی کے پولیس نے گرفتاریاں بھی شروع کر رکھی ہیں۔ کسی کو احساس نہیں کہ مہاجرین کو اگر زبردستی بھیجا گیا تو یہ افغانستان سے پاکستان کا بوریا بستر گول اور افغان مسئلہ میں پاکستان کا کردار ختم کرنے کے مترادف احمقانہ فیصلہ ہو گا۔ اپنے اداروں کی نالائقی کی سزا پاکستان کو دینے کے مصداق۔
افغان مہاجرین بین الاقوامی قوانین کے تحت یہاں مقیم ہیں اور انہیں اقوام متحدہ کی مرضی کے بغیر واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ غیر قانونی‘ مشکوک اور بھارت کے ہمدرد مہاجرین کے انخلا پر کسی کو اعتراض نہیں‘ مگر یہاں تو سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں افغان کیمپوں کا رقبہ حکومت لیز پر دے چکی ہے اور ڈالروں میں رقم وصول کی گئی تھی۔ معاہدے کے تحت لیز کی مدت ختم ہونے سے قبل انہیں کیمپوں سے نکالا نہیں جا سکتا‘ لیکن چونکہ ان کیمپوں کی وجہ سے ویرانے آباد ہوئے اور اب یہ رقبے قیمتی ہو چکے ہیں اس لیے لینڈ مافیا کی ان پر نظر ہے اور خیبر پختونخوا کی تحریک انصاف حکومت میں شامل یہی عناصر عمران خان کو اکسا رہے ہیں کہ وہ مہاجرین کی زبردستی واپسی کے لیے دبائو ڈالیں۔ میاں نواز شریف کے بعض ساتھیوں کی سوچ بھی یہی ہے تاکہ لینڈ مافیا کے وارے نیارے ہوں۔ مہاجرین کی آڑ میں پاکستان کا رخ کرنے والے دہشت گردوں کی روک تھام ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے اور مہاجروں کو کیمپوں تک محدود رکھنا‘ افغان باشندوں کے غیر قانونی داخلہ‘ اسلحہ و منشیات کی سمگلنگ کو روکنا تقاضائے دانشمندی‘ لیکن دہشت گردی کا واویلا کرکے ان مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجنا مٹی کا تیل خریدنے والے صاحبزادے کی عقل و دانش کے مطابق ہے۔ نانی نے خصم کیا بُرا کیا‘ کر کے چھوڑ دیا مزید بُرا کیا۔
ہم آخر افغانستان اور افغانوں کو زبردستی بھارت کی جھولی میں پھینکنے پر کیوں تل گئے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے ساتھ یہی تو ظلم کیا کہ ''سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا کر اسے ایک طفیلی ریاست بنانے کی راہ ہموار کرتا رہا۔ خیبر پختونخوا حکومت وفاق سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ غیر ملکی امداد میں اس کی مدد کرے اور وفاقی ایجنسیاں ان کیمپوں کی سخت نگرانی کریں‘ مگر پینتیس سالہ سرمایہ کاری ضائع کرنا؟ دوستوں کو دشمن بنانا؟ یہ تنگ نظری اور کم عقلی ہے۔ لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر۔