تدبیر اور تقدیر

فارسی میں کہتے ہیں '' تدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ‘‘ (انسان تدبیر کر رہا ہوتا ہے اور تقدیر اس پر مُسکرا رہی ہوتی ہے۔) نریندر مودی کی جارحانہ سفارت کاری کے باوجود بھارت کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بننے کی تدبیر خاک میں مل گئی اور برہان مظفر وانی شہید نے اس کے سیکولر چہرے پر کالک مل دی۔ چند ہفتے پہلے تک پوری دنیا میں نریندر مودی کی فاتحانہ مسکراہٹ کا چرچا تھا اور اُنگلیاں پاکستان کی طرف اُٹھ رہی تھیں، مگر اب۔۔۔۔؟ 
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا
نریندر مودی اقتدار سنبھالنے کے بعد بیرونی دوروں پر نکلے تو ہر سُو دھوم مچ گئی۔ امریکہ‘ چین‘ برطانیہ‘ سعودی عرب‘ ایران‘ عرب امارات اور ہر اس ملک کا رُخ کیا جو قابل ذکر تھا اور بھارت کے لیے مفید۔ امریکہ نے ضرورت سے زیادہ لفٹ کرائی اور یمن میں فوج نہ بھیجنے کے پاکستانی فیصلے سے مایوس سعودی عرب و متحدہ عرب امارات نے پرجوش پذیرائی کی تو آنجناب نے سمجھا کہ میدان مار لیا‘ فاتح عالم بن گئے اور پاکستان واقعی محدود و محصور کشمیری عوام رام اور پاکستان کے تینوں ہمسائے غلام بے دام۔۔۔۔گلیاں واقعی ''سنجیاں‘‘ ہیں اور ''مرزا یار‘‘ کو گھومنے پھرنے بلکہ خرمستیاں کرنے کی آزادی ہے۔ پاکستان میں مایوسی پھیلانے کے فن میں طاق بھارتی شردھالو تو گویا آپے سے ہی باہر ہو گئے مگر گزشتہ دو تین ہفتوں کے بھارتی اخبارات پڑھ کر اور ٹی وی چینلز دیکھ کر لگتا ہے کہ نریندر مودی سے زیادہ ناکام وزیراعظم اور بھارت سے زیادہ بدنام ملک خطے میں موجود ہی نہیں۔ پاک بھارت سرحد پر کشیدگی سے سرمایہ کار خوفزدہ‘ مقبوضہ کشمیر میں کرفیو‘ گرفتاریوں‘ تشدد اور شہادتوں سے جمہوریت داغ داغ اور سیکولرازم۔۔۔؟ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں۔
بھارت نے جموں و کشمیر پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے؟ جموں اور لداخ کی غیر مسلم آبادی کو مسلم اکثریت کے خوف میں مبتلا کیا‘ شیر کشمیر شیخ عبداللہ کو راجہ ہری سنگھ کی طرح ریاست کا بے تاج بادشاہ بنانے کے وعدے کیے‘ پاکستان کی داخلی کمزوریوں‘ سیاسی ‘ اقتصادی اور معاشی عدم استحکام اور آزاد کشمیر پر اسلام آباد کے غلبے کا پروپیگنڈہ کر کے کشمیری عوام میں مایوسی پھیلائی‘ نریندر مودی نے اچانک جاتی عمرا آ کر کشمیریوں کو بددل کیا اور پھر اس کا اعتراف بھی ۔ مگر ہر ہتھکنڈہ ناکام اور ہر بار بے نیل و مرام۔ کشمیری آج بھی''پاکستان سے رشتہ کیا ؟ لا الہ الاللہ‘‘ کا نعرہ لگا کر‘ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرا کر اور اہل پاکستان کے ساتھ عید‘ شب برات منا کر اپنے ارادوں اور عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کا جذبہ کبھی سرد پڑا نہ جدوجہد ترک کی۔ 1989ء سے پہلے تو آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں خودمختار کشمیر کی بات ہوتی تھی اور پاکستان سے گلے شکوے بھی۔ مگر یہ جہاد کی برکت ہے یا نوجوان کشمیری نسل کی ذہنی و نظریاتی یکسوئی کا اعجاز کہ اب سرینگر سے واپس آ کر عاصمہ جہانگیر بھی یہی گواہی دیتی ہیں کہ کشمیریوں کا مطمحِ نظر بھارت سے آزادی ہے اور پاکستان سے وابستگی اتنی گہری کہ وہ بھارت کے ساتھ عید منانا بھی پسند نہیں کرتے اور پاکستانی پرچم لہرانا فرض سمجھتے ہیں۔ برہان مظفر وانی شہید کی نماز جنازہ میں پاکستانی پرچموں کی بہار اور ''پاکستان سے رشتہ کیا‘‘ کے نعرے ریفرنڈم نہیں تو اورکیا ہے؟ 
بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے 
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
جن کے ذہنوں پر حرص کے جالے چھائے ہیں اور دلوں پر مہر لگ چکی وہ البتہ اب بھی پاکستان کو کشمیریوں کی جد و جہد سے دور رہنے کے مشورے دے رہے ہیں مبادا ان کا اور بھارت کا آقا امریکہ ناراض ہوجائے۔
برہان مظفر وانی کی شہادت کے صدقے بھارت عالمی برادری اور پاکستان پر کئی زمینی حقائق منکشف ہوئے‘ بھارت کا سیکولرازم بے نقاب ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو مسالک کی بنیاد پر تقسیم کرنے اور ہندوئوں‘ سکھوں کے لیے علاقے مخصوص کرنے کے علاوہ مسلم نوجوانوں کو پیلٹ گن کی گولیوں کا نشانہ بنانے سے یہ دعویٰ باطل ہو گیا کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے اور اسے سیکولرازم کی بنا پر متحد رکھا جا سکتا ہے۔ کلدیپ نیر‘ غلام نبی خیال اور دیگر بھارتی و کشمیری دانشور عموماً یہی کہا کرتے تھے کہ اگر بھارت کشمیر کو پاکستان کا حصہ مان لے یا جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو مذہبی بنیادوںپر حق خودارادیت دے تو یہ سیکولرازم کی نفی ہوگی مگر ہندو مسلم آبادیاں الگ کرنے اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کے بعد یہ موقف اپنی موت آپ مر گیا اور قائداعظم کی وہ بات درست ثابت ہوئی جو انہوں نے شیر کشمیر شیخ عبداللہ سے کہی تھی کہ جواہر لال نہروکے جال میں پھنس کر تم پچھتائوگے۔
کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے وادی میں قیام امن کے لیے حریت کانفرنس کی قیادت سے تعاون کی اپیل کی۔ یہ وہی حریت کانفرنس ہے جس سے پاکستانی ہائی کمشنر نے ملاقات کی تو بھارتی حکومت نے سیکرٹریوں کی سطح پر ہونے والے مذاکرات منسوخ کر دیے اور میاں نوازشریف مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے گئے تو حریت لیڈر شپ سے نہ ملے مبادا میزبان کے جذبات مجروح ہوں۔ محبوبہ مفتی کی اپیل سے ثابت ہوا کہ جموں و کشمیر میں حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت حریت کانفرنس کے پاس ہے اور عوام صرف اس کی سُنتے اور مانتے ہیں۔
کشمیریوں نے ایک بار پھر بھارت سے آزادی اور پاکستان سے وابستگی کی تاریخ مرتب کی ہے۔ گزشتہ چھ روز سے وادی میں مارکیٹیں بند ہیں‘ اشیائے خورونوش ناپید اور سڑکوں پر بھارتی بندوق برداروں کا قبضہ مگر عالمی ضمیر جاگا ہے نہ بھارت کی سول سوسائٹی کا جذبۂ انسانی ہمدردی۔۔۔۔سابق مرکزی وزیر اورپردیش کانگریس کے سابق صدر پروفیسر سیف الدین سوز نے اپنے بیان میں بھارتی سول سوسائٹی کی خاموشی کی مذمت کرتے ہوئے اسے مجرمانہ خاموشی قرار دیا ہے، جس نے بھارتی فوج کے گھروں میں گھس کر چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل کرنے پر بھی انگڑائی نہیں لی۔ پاکستان میں صورت حال مگر بھارت سے بھی زیادہ افسوسناک بلکہ شرمناک ہے۔ وفاق اور پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ ہو‘ پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کسی نے بھی اب تک زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیںکیا۔ دفتر خارجہ نے تین چار روز کے بعد اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کو بلاکر احتجاج کیا‘ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک کے سفیروں کو بریفنگ دی اور پاکستانی سفیروں کی کانفرنس طلب کی‘ مگر عوامی سطح پر اب بھی سکوت مرگ کی کیفیت ہے۔ بے حسی بلکہ سنگدلی کا یہ عالم ہے کہ سری نگر میں لاکھوں کشمیری نوجوان برہان مظفر وانی کی نماز جنازہ میں پاکستانی پرچم لہرا کر جان و مال کی قربانی دینے کا عہد کر رہے تھے‘ مگر پاکستانی نوجوان ایک بھارتی فلم ''سلطان‘‘ کی ٹکٹیں بلیک میں خرید کر نئی تاریخ مرتب کر رہے تھے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق پاکستان میں اس فلم نے پانچ کروڑکا بزنس کیا۔ ہمارے ہاں بحث و مباحثے کا موضوع بھی نواز شریف کی علالت ہے‘ عمران خان کی شادی یا جنرل راحیل شریف کی ملازمت میں توسیع۔ میڈیا میں قندیل بلوچ‘ برہان وانی سے زیادہ ڈسکس ہوئی۔ پاکستان کی بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کشمیر کے الیکشن سے جتنی دلچسپی ہے اس کا عشر عشیر بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی سے نہیں۔ رہے دانشور اور تجزیہ کار تو گزشتہ روز میاں صاحب کے ایک قریبی مشیر نے اپنے ٹاک شو میں برملا کہا کہ ہم سفارتی سطح پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے علاوہ کچھ نہ کریںکیونکہ ہمارا کشمیریوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہمیں بھارت سے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں اور بس۔۔۔۔
کشمیریوں نے پاکستان کا پرچم لہرایا ‘ ''پاکستان سے رشتہ کیا؟ لا الہ الااللہ‘‘ کا نعرہ لگا کر ان تجزیہ کاروں‘ دانشوروں‘ دوچار سرکاری و غیر سرکاری دوروں میں شبینہ محافل سے لطف اندوز ہونے والے سابق جرنیلوں اورسفارت کاروں کے مُنہ پر زوردار طمانچہ رسید کیا جو بھارتی ''سرمایہ کاری‘‘ کو ثمر بار سمجھ کر یہ کہنے لگے تھے کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل بھارت کی طرح پاکستان سے بھی کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتی اور کُتے بغل میں دبا کر تصویر کھچوانے والے پاکستانی فوجی حکمران پرویز مشرف کا 'کچھ لو کچھ دو‘ کا فارمولہ مان کر ہمیں کشمیر سے دست کش ہونا چاہیے تاکہ بھارتی ٹماٹر‘ آلو‘ پیاز سستے داموںکھانے کو اور وہاں جا کر من پسند مشروب بآسانی و بافراط پینے کو دستیاب ہوں۔ کشمیری عوام نے نریندر مودی کے علاوہ پاکستان میں ان کے دوستوں‘ مداحوں اور قصیدہ خوانوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ پاکستان میں کہیں کرفیو نافذ ہے نہ کسی شہر میں لاکھوں فوجی تعینات اور نہ احتجاجی مظاہرین آزادی کے نعرے لگاتے سڑکوں پر۔یہ سب کچھ بھارت کومبارک۔ تدبیر کند بندہ‘ تقدیر زند خندہ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں