قربانی

چند برس قبل جان لیوا حادثات اور گلے پر دھاتی ڈور پھرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا اوربسنت پر پتنگ بازی خونی تہوار میں بدلی تو حکومت نے قاتل کھیل پر پابندی لگا دی۔ یہ انسانی جانیں بچانے اور دھاتی ڈور کے استعمال کو روکنے کی تدبیر تھی مگر مخصوص سوچ کے حامل انشوروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا‘ حکومت کو خوشیوں کا قاتل اور پابندی کی حمایت کرنے والوں کو تنگ نظر‘ کوتاہ اندیش اور قدامت پسند قرار دیا۔
رواں برس اللہ تعالیٰ کی اس عجیب مخلوق نے سنّت ابراہیمی یعنی قربانی کے خلاف دلائل کے انبار لگا دیئے۔ ایک سے ایک بودی دلیل اور احمقانہ منطق پیش کی اور عوام کو جانوروں کی قربانی سے روکنے کی سعی کی۔مگر بھلا ہو پاکستانی عوام کا پہلے سے زیادہ اور قیمتی جانور ذبح کر کے ان کی خواہشات پر پانی پھیر دیا۔ انسانیت کو اپنا مذہب اور اپنے آپ کو جانوروں کا ہمدرد قرار دینے والے ان دانشوروں نے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اپنے فن کے جوہر دکھائے اور وہ تمام دلائل دہرائے‘ جو برسوں بلکہ عشروں قبل اُمہ رد کر چکی اور جنہیں تاریخ کے کوڑے دان میں ڈھونڈنے کے لیے بھی تعصّب بھرا دل اور مذہب بیزار گُردہ درکار ہے۔ قربانی بنیادی طور پر مذہبی فریضہ ہے جو مسلمان اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے انجام دیتے ہیں۔ یہ رسم ہے نہ کوئی علاقائی و قبائلی روایت۔ کلمہ گو یہ قربانی کس نیّت سے کرتا ہے؟دنیا میں ابھی تک کوئی ایسا پیمانہ ایجاد نہیں ہوا‘ جس سے کسی انسان کی نیت کے بارے میں ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کر رہا ہے‘ دکھاوے کے لیے یا محض اپنے بیوی بچوں کے اصرار پر؟
تیس چالیس ہزار روپے مالیت کے بکرے کی جگہ ڈیڑھ دو لاکھ کا بکرا خریدنے والوں کو بھی اسراف اور نمود و نمائش کا مرتکب وہی قرار دے سکتا ہے جو دلوں کے بھید جاننے کا دعوے دار ہو۔ جنہیں مذہبی احکامات کا علم ہے نہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ وہ جانوروں کو سجانے سنوارنے پر اعتراض کرتے ہیں مگر قربانی دینے والوں کے ذوق و شوق اور جذبے پر غور نہیں کرتے ‘قدر کرنا ان کے ضمیر میں نہیں اور قوم کے مذہبی معتقدات اور جذبات کا احترام کرنا سیکھا نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ معاشرے میں لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہیں‘ لاکھوں بچیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں۔ مفلسی کے ہاتھوں لوگ اپنے بچے اور گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں ... خالی شکم بچے شہر میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے غذائی اشیا چنتے نظرآتے ہیں۔ غریب بچیوں کے جہیز اور یتیم بچوں کے پھٹے کپڑوں کا نہایت دکھ بھرے انداز میں ذکر ہوتا ہے اور تین روز میں کروڑوں جانوروں کے اتلاف پر مرثیہ خوانی کی جاتی ہے۔سرعام جانوروں کے ذبح پر معصوم اذہان کئی نفسیاتی مسائل اور لاکھوں روپے کے جانور خریدنے والوں کو دیکھ کر غریب و نادار کس قسم کے احساس محرومی کا شکار ہوتے ہوں گے؟ آخر یہی رقم شوکت خانم ہسپتال‘ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے ادارے اور دیگر رفاہی تنظیموں کو دے کر ثواب کیوں نہیں کمایا جاتااور نقد امداد سے مستحقین کی دلجوئی کیوں نہیں کی جاتی‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ حکمران اشرافیہ کی لوٹ مار‘ ناقص منصوبہ بندی‘ غلط ترجیحات اور ریاست کی ناکامی ہے یا قربانی دینے والوں کی غلطی؟ سب جانتے ہیں۔
ملک بھر میں جتنے بھی رفاہی ادارے چل رہے ہیں ان میں نوّے فیصد امداد‘ زکوٰۃ ‘ صدقات و عطیات کی صورت میں یہی لوگ دیتے ہیں جو حج‘ عمرہ اور قربانی پر اپنی حق حلال کی کمائی خرچ کرنے کے عادی ہیں۔ یہی خوش نصیب اپنے محلے کی رفاہی کمیٹیوں میں شامل ہوتے اور دل کھول کر راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ انسانیت کے علمبردار اور درختوں‘ جانوروں اور ماحولیات کے نام پر چرند پرند کے ہمدرد لنڈے کے دانشور بس زبانی جمع خرچ ہی کرتے اور لوگوں کو بھلائی سے روکتے ہیں۔ مخیر خواتین و حضرات کو نیکی کا راستہ مذہب نے دکھایا ہے اور وہ اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا فرض سمجھتے ہیں۔ نیت ان کی یہی ہوتی ہے‘ طریقہ کار میں غلطی ‘کوتاہی بشری تقاضہ ہے۔ دوسرے یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ اگر ملک میں غربت و افلاس ہو‘ اور بچیاں ہاتھ پیلے ہونے کے انتظار میں بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہوں تو قربانی‘ حج‘ عمرہ اور دیگر عبادات کو ترک کر دینا چاہیے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی شخص بجلی کا بل دینے سے اس لیے انکار کر دے کہ اس نے ایک یتیم بچی کی شادی کے لیے عطیہ دیا ہے یا اپنے ذمہ ٹیکس ادا نہ کرے کہ وہ ایک غریب طالب علم کے تعلیمی اخراجات پورے کرنا چاہتا ہے۔ ایسے نادہندہ کا ٹھکانہ جیل ہے یا پاگل خانہ۔سال میں ایک بار بکرے کی خریداری اور قربانی پر معترض دانشور خود لاکھوں کی خریداری اور فضول خرچی کرتے ہوئے کبھی محلے کی کسی یتیم بچی اور مسکین طالب علم کی ضروریات کا نہیں سوچتے۔منافق اور خودغرض کہیں کے۔
حج‘ قربانی‘ عمرہ اور دیگر عبادات کے خلاف یہ بیانیہ پروان چڑھانے والے بخوبی جانتے ہیں کہ معاشرے میں معاشی و سماجی افراد و تفریط‘ نمود و نمائش‘ اسراف اور امتیاز و تفریق کا سبب یہ مذہبی فرائض و واجبات اور اسلامی شعائر نہیںبلکہ وہ منحوس نظامِ زر ہے جو منڈی کی معیشت کہلاتا اور ان دانشوروں سے داد پاتا ہے۔ پاکستان میں بھوک سے خودکشیاں نظامِ زر کا تحفہ ہیں یا اس مکروہ اور مردود سسٹم کا جس کا جمہوریت کے نام پر دفاع کیا جاتا ہے۔ پورے عالم اسلام میں تین دن ہونے والی قربانی میں اتنے جانور ذبح نہیں ہوتے‘ جتنے کسی ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے دنیا بھر میں پھیلے فاسٹ 
فوڈمراکزپر برگر‘ سینڈ وچ‘ رول اور ہاٹ شاٹ وغیرہ کی تیاری کے لیے ایک دن میں قربان کئے جاتے ہیں۔آج تک کسی ریستوران اور فاسٹ فوڈ چین پر یہ اعتراض نہیں ہوا کہ وہ جانوروں کی نسل کشی میں مصروف ہے۔ غریب لوگ بھوکے مر رہے ہیں‘ افلاس زدہ خاندانوں کی بچیوں کے بالوں میں چاندی اتر رہی ہے مگر ایک ایک خاندان مہنگے ریستوران میں بیٹھا پندرہ بیس ہزار روپے کا لنچ یا ڈنر کر رہا ہے۔ لاہور میں گاڑیوں کی افراط ہے۔ ٹریفک جام معمول بن گیا ہے اور ماحولیاتی آلودگی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں مگر قربانی مخالف میں سے کسی نے آواز بلند نہیں کی کہ جب تانگے‘رکشے ‘سائیکل اور موٹر سائیکل سے کام چل سکتا ہے تو گاڑیاں اور وہ بھی مہنگی خریدنے کی ضرورت کیا ہے‘ فروخت پر پابندی ہونی چاہیے۔ مہنگے ریستورانوں اور فاسٹ فوڈ مراکز کی جگہ سستے ڈھابے بنائیں جائیں۔ برینڈڈ جیولری‘جوتوں ‘ کپڑوں اور فرنیچر کی دکانیں بند کر کے پرانی طرز کے کھوکھوں سے کام چلایا جائے اور جب ایک ہزار روپے کا موبائل فون بآسانی رابطے کی ضروریات پوری کرتا ہے تو لاکھ لاکھ دودو لاکھ روپے کے مہنگے فون خریدنے اور بیچنے کی اجازت کیوں ہے؟ ایک لاکھ روپے کا فون خریدنے سے بہتر ہے دو بچیوں کی شادی کرا دی جائے اور ایک غریب طالب علم کی دو تین سال کی فیس کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔
سعودی عرب میں قربانی کرنے والے حجاج کرام میں سے بیشتر کو شائد خود بھی علم نہ ہو کہ قربانی کا گوشت فریز کر کے ان غریب افریقی ممالک کو بھیجا جاتا ہے جہاں کے شہریوں کو پورا سال چھوٹا تو درکنار‘ بڑے جانورکا گوشت بھی کھانے کو نہیں ملتا۔ پاکستان میں بھی غریب لوگ پورا سال عیدِ قربان کا انتظار کرتے ہیں تاکہ پیٹ بھر کر گوشت کھائیں اور قربانی کرنے والوں کو دعائیں دیں۔ جس کا معترض مخلوق کو علم تو ہے‘ مگر مذہبی شعائر سے کدورت لاعلم رکھتی ہے۔ گائیں‘ بھینسیں‘ بکریاں‘ بھیڑیں پالنے والوں کو ہونے والی آمدنی کے علاوہ عید قربان کے موقع پر لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے‘ چمڑے کی صنعت پھلتی پھولتی ہے‘ بارداری اور قصابوں کا کاروبار چمک اٹھتا ہے اور گھاس چھریاں ‘ کانٹے‘ چولہے‘ کوئلے اور دیگر کئی اشیا کی خریدوفروخت بڑھ جاتی ہے۔ فائیو سٹار ہوٹلوں اور ایئر کنڈیشنڈ ریستورانوں سے آتش شکم بجھانے والوں اور زمانہ جاہلیت کی رسوم و رواج کو ثقافت کے نام پر زندہ وبرقرار رکھنے کے خواہشمندوں کو اس کی پروا کہاں؟یہ قربانی کے اضافی فوائد ہیں جس کا ہر صاحبِ ایمان کو علم ہے تاہم قربانی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہونی چاہیے اور غریب و نادار کو پیٹ بھر کر اچھا کھلانے کی نیت سے۔ اللہ تعالیٰ کو گوشت کی ضرورت ہے نہ کھال کی۔ وہ صرف ہماری نیتوں کو دیکھتا اور قربانی کو قبول کرتا ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی‘ وہ اس سنت ابراہیمی سے سبکدوش اورلطف اندوز ہوئے اور یہ بے چارے مذہب بیزار کبیدہ خاطر۔ بسنت پر پابندی کے خلاف آسمان سر پر اٹھانے والوں کو قربانی سے بیر کیوںہے ؟ سب جانتے ہیں ؎
ہو فکر اگر خام تو آزادی ٔافکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں