سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا

پاکستان کے بارے میں بھارت اور امریکہ کے عزائم ڈھکے چھپے ہیں نہ مطالبات۔ امریکہ افغانستان میں ہاری ہوئی جنگ پاکستان کے ذریعے جیتنا چاہتا ہے اور بھارت جموں و کشمیر میں عوامی جدوجہد کو پاکستان کی مدد سے کچلنے کا خواہشمند۔ پاکستان امریکہ کی ناکامی کو کامیابی میں بدل سکتا ہے نہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی سے آنکھیں بند کرکے اپنے کشمیری بھائیوں کے زخموں پر نمک پاشی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اسی باعث دونوں کا معتوب ہے۔
جان کیری نے نواز شریف سے ملاقات میں ایٹمی پروگرام محدود کرنے کا مطالبہ کیا‘ امریکہ کی اس دیرینہ خواہش پر بھارتی میڈیا کی خوشی دیدنی ہے۔ ہمارے ہاں بھارتی شردھالو عموماً کہتے ہیں کہ پاکستانی میڈیا‘ بالخصوص اردو اخبارات اور چینلز غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے اور بھارت کے خلاف عوام کے جذبات بھڑکاتے ہیں‘ دوستی اور مفاہمت کے جذبات کو پروان نہیں چڑھنے دیتے مگر گزشتہ چار روز سے بھارتی چینلز مسلسل جنگی جنون کو ہوا دے رہے ہیں۔ پاکستان پر ایٹم بم گرانے‘ اس کے سٹریٹجک اثاثوں کو تباہ کرنے‘ دہشت گردی کے اڈوں کو فضائی حملوں سے نشانہ بنانے اور اقوام متحدہ سے اقتصادی‘ معاشی اور دفاعی پابندیاں لگوانے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ بری‘ بحری اور فضائی فوج کے سابق سربراہ‘ سابق سفارت کار اور نامور سیاسی تجزیہ کار یوں بائولے ہو رہے ہیں جیسے پاکستان خدانخواستہ بھوٹان اور نیپال ہے اور بھارت امریکہ‘ جو حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے مگر جوابی کارروائی سے محفوظ رہے گا۔ سوویت یونین اور پاکستان سمیت کئی اہم ممالک میں خدمات انجام دینے والے سابق بھارتی سفارت کار بھدر کمار نے اپنے مضمون میں بھارتی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی تلقین کی ہے‘ اور اوڑی حملے کو اپنے طور پر نریندر مودی کی 15 اگست کی تقریر کا جواب قرار دیا ہے۔ بھدر کمار کا کہنا ہے کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں علیحدگی پسندوں کی حوصلہ افزائی کا بیان دے کر مودی نے پاکستان کو جوابی کارروائی پر مجبور کیا مگر بھدر کمار جیسوں کی حیثیت نقارخانے میں طوطی کی ہے۔
پاکستان میں جنگی جنون نظر آتا ہے نہ خوف و ہراس کا عالم ہے۔ بھارت میں وزیر اعظم نریندر 
مودی سے لے کر وزیر داخلہ راج ناتھ اور اجیت دوول سے لے کر سشما سوراج تک سب ہذیانی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ بھارتی میڈیا اس جنون کو مزید بڑھا رہا ہے۔ گزشتہ روز دو امریکی ارکان کانگریس ٹیڈپیو اور ڈینا روہربیکر نے ایک بل پیش کیا جس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی سرپرستی کا ذمہ دار قرار دینے پر زور دیا گیا۔ بھارتی میڈیا نے اس خبر کو یوں اچھالا جیسے امریکہ نے واقعی پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دے دیا ہے۔ وزیر خارجہ جان کیری نے وزیر اعظم نواز شریف سے ایٹمی پروگرام محدود کرنے کی فرمائش کی تو پاکستانی سربراہ نے سنی ان سنی کر دی اور اپنا پرانا موقف دہرایا‘ لیکن بھارتی چینلز نے ناظرین کو یہ اطلاع فراہم کی کہ امریکہ نے چوبیس گھنٹے میں چار بار پاکستان کو جھاڑ پلائی۔ پاکستان ماضی میں بھی ایک بار نہیں کئی بار امریکی خواہشات کی تکمیل اور احکامات کی تعمیل سے انکار کر چکا ہے۔ امریکہ کا پاکستان پر تازہ غصّہ اقتصادی راہداری کی تکمیل پر اصرار‘ روس سے فوجی تعلقات میں اضافہ اور افغان طالبان کے خلاف براہ راست فوجی کارروائی سے انکار کی بنا پر ہے‘ نام تاہم حقانی نیٹ ورک کا لیا جاتا ہے‘ جس کے بارے میں امریکیوں کا خیال ہے کہ وہی سپر پاور کی ناکامی کا ذمہ دار ہے اور یہ سب کچھ پاکستان کی سرپرستی کے سبب ہوا۔ بالفرض اگر حقانی نیٹ ورک امریکہ کو افغانستان میں ناکامی سے دوچار کر سکتا ہے تو بھارت کو زیادہ خوفزدہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کی صورت میں طالبان کے راستے کی دیوار ہٹ گئی تو اس کا حشر کیا ہو گا۔
بھارت کے آٹے میں نمک کے برابر حقیقت پسند دفاعی ماہرین اور پاکستان کی جنگی صلاحیت 
سے باخبر دانشور زود رنج مودی اور اس کے جنونی ساتھیوں کو بار بار باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کے دور میں تشکیل پانے والی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن قابل عمل ہے‘ نہ محدود جنگ اور سرجیکل سٹرائیک کا نظریہ مفید۔ پاکستان کے چھوٹے ایٹمی ہتھیار شادی بیاہ کی تقریبات میں آتش بازی کے لیے تیار کئے گئے ہیں‘ نہ پاکستانی میزائل صرف یوم پاکستان کی پریڈ کے لیے مختص۔ بھارتی فضائیہ فرسودہ طیاروں سے لیس ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں اس کے چار قیمتی بمبار جہاز حادثات کا شکار ہو چکے ہیں۔ آخری ہتھیار کے طور پر بھارت نے کراچی اور بلوچستان میں اپنے تربیت یافتہ ایجنٹوں کو استعمال کرنا چاہا اور جموں و کشمیر میں پاکستان زندہ باد اور ''ہم چاہیں آزادی‘‘ کے نعروں کا جواب کراچی اور بلوچستان میں دینے کی کوشش کی مگر بلوچستان کے علیحدگی پسندوں اور کراچی کے ٹارگٹ کلرز کے علاوہ ان کے بیرون ملک عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والے سرپرستوں کو ناکامی ہوئی۔ الطاف حسین‘ حیر بیار مری‘ براہمداغ بگٹی‘ عبدالنواز بگٹی اور سلمان دائود نے بھارت سے مداخلت کی اپیلیں کرکے پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑا‘ اپنے ہی کارکنوں اور لسانی و نسلی حمایتیوں کا بیڑا غرق کیا۔ نہیں جان پائے کہ پاکستان میں بھارتی ٹیگ لگ جانے پر فرد اور گروہ ٹکے کا نہیں رہتا۔ قابل نفرت‘ ناقابل اعتبار۔
بھارتی حکومت اور میڈیا کی بے مثال دانش و بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ براہمداغ بگٹی کو شہریت اور کوریج دینے کے لیے بے چین ہیں جبکہ بھارت کی بلوچستان سے سرحد مشترک ہے نہ زبان و نسل اور عقیدہ‘ اور نہ بلوچستان کشمیر کی طرح متنازعہ علاقہ ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستان بھر میں کہیں بلوچ بستے ہیں نہ بلوچوں کے حمایتی انہیں خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب ہیں۔ 
بھارتی چینلز پر براہمداغ بگٹی کو پذیرائی مل رہی ہے مگر وہ شیخ مجیب الرحمن ہیں نہ الطاف حسین اور نہ عبدالغفار خان کہ جن کی اپنے ہم زبان‘ ہم نسل‘ ہم مشرب طبقے میں غیر معمولی پذیرائی ہو اور وہ پاکستان میں وسیع پیمانے پر گڑ بڑ کرا سکے۔ الطاف حسین کی صلاحیت بھی بھارتی حمایت کے سبب کند ہوئی اور آج فاروق ستار‘ خواجہ اظہار اور سید سردار احمد بھی اُسے غدار بتا رہے ہیں‘ ع 'لیوے نہ کوئی نام ستمگر کہے بغیر‘۔ بلوچستان میں حالات معمول پر آرہے ہیں فراری کیمپوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور بگٹی‘ مینگل‘ مری‘ زہری سردار کسی نہ کسی سطح پر ریاستی معاملات میں شامل ہیں۔ کلبھوشن یادیو نیٹ ورک کا خاتمہ مقامی بلوچ اور پشتون عوام کے تعاون سے ممکن ہوا ‘جس کا احساس بھارت اور بگٹی کو نہیں۔ حیر بیار مری نے اسی بنا پر بگٹی کی طرف سے بھارتی شہریت قبول کرنے کی مخالفت کی۔ بھارت کا سارا انحصار امریکہ پر ہے اور نریندر مودی کو زعم ہے کہ وہ امریکہ اور پاکستان کے مابین سردمہری کا بھرپور فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہے۔ مودی کے خیال میں امریکہ‘ افغانستان میں اپنی ناکامی پر مشتعل ہے‘ وہ پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے بھارت کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو گا۔ یہ کسی بھارتی دانشور نے نہیں سوچا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود اور عالم اسلام کی واحد نیوکلیئر پاور کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی بھارتی خواہش امریکہ پوری کر دے تو اس کے ہاتھ کیا آئے گا؟ 
1990ء کی دہائی میں امریکی سیاستدان‘ دفاعی ماہرین اور دانشور اس بات پر پچھتائے کہ انہوں نے سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ کر غلطی کی۔ اب اگر امریکہ بھارت کی حُب اور چین کے بُغض میں پاکستان کو صرف تنہا نہیں چھوڑتا بلکہ سزا دینے کی کوشش کرتا ہے تو ایک نیوکلیئر پاور جو ہر زبان‘ نسل اور نظریے کے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی ہے عدم استحکام کا شکار ہو کر خطے اور ہمسایوں کے لیے کس قدر مفید ہو گی؟ بھارتی تو انتقام کی آگ میں جل کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہیں مگر امریکیوں کے بارے میں پاکستان اب بھی خوش گمان ہے کہ وہ اس پاگل پن کا شکار نہیں ہوں گے۔ دوستی اور دشمنی کا ملا جلا تعلق برقرار اور پاکستان دبائو برداشت کرنے کی دیرینہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔ 
بھارت نے اگر امریکہ کی شہ پر کوئی حماقت کی تو اُسے بدترین انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ امریکیوں کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا اور بھارت کو بھی ہمی جانتے ہیں۔ سرینگر میں پاکستان زندہ باد کے نعرے سُن کر بھی بھارتی نیتائوں اور سینکوں کو کچھ سمجھ نہیں آئی تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ راجیو گاندھی‘ واجپائی اور من موہن سنگھ کے دور میں بھارت نے کوشش کر دیکھی‘ ناکام رہا۔ نریندر مودی ناکام تجربہ دہرانے کا شوق پورا کر لے‘ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور بھارت کو جنگ کے نقصانات کا شاید اندازہ نہیں۔ اقتصادی و معاشی ترقی‘ جمہوری استحکام اور خطے کی قیادت کا خواب 'سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں