تیری آواز مکّے اور مدینے

جنرل اسمبلی میں میاں نواز شریف کا خطاب سن کر طبیعت خوش ہوئی۔ بجا کہ لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے انداز میں نہیں بولے‘ بھارت کو براہ راست نہیں للکارا۔ بلاشبہ بلوچستان میں بھارت کی دراندازی کا ذکر نہیں کیا۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کا ذکر گول کر گئے‘ جب اس حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کو ڈوزیئر دے چکا ہے تو پھر بولنے میں کیا حرج تھا؟ مگر جتنا بولے‘ خوب بولے اور بھارتی ردعمل دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے کہاں کہاں‘ کیسی کیسی چوٹ لگائی۔
بھارت کی کمزوری مقبوضہ جموں و کشمیر ہے اور چڑ جہاد‘ برہان مظفر وانی کا نام سن کر بھارتی سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور دانشوروں پر پاگل پن کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ میاں صاحب نے اپنی تقریر میں برہان وانی کو کشمیریوں کا نوجوان لیڈر اور جدوجہد کو انتفاضہ قرار دے کر بھارتیوں کی دکھتی رگ چھیڑی اور بی جے پی کے سیکرٹری جنرل مادھو کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ نواز شریف نے حزب المجاہدین کے کمانڈر کی زبان بولی۔ ایم جے اکبر کو پاکستان میں ایک متوازن شخصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر موصوف نے بھی اسے دہشت گردی کو قبول کرنے کے عمل سے تعبیر کیا۔ میاں نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے حوالے سے اپنی تقریر میں جو کہا‘ وہ خلاف واقعہ تھا نہ سفارتی آداب کے منافی۔ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم بھیجنے کا مطالبہ معقول ہی نہیں اس کی نیک نیتی اور بھارت کے اندرونی معاملات میں ملوث نہ ہونے کا ثبوت بھی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر اور اُڑی کے واقعات میں دراندازی کا مرتکب کوئی فریق بین الاقوامی ادارے کی طرف سے تحقیق و تفتیش کا سامنا کر سکتا ہے نہ عالمی فورم پر اس کی دعوت دینے کا روادار۔ یہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایک غلطی میاں نواز شریف سے البتہ ہوئی۔ وہ اگر کنٹرول لائن پر تعینات فوجی مبصرین کی کارگزاری پر سوال اٹھاتے اور سیکرٹری جنرل کو رپورٹ طلب کرنے کی ترغیب دیتے تو پاکستان کا مقدمہ مزید مضبوط ہوتا‘ بھارت کے جنگی جنون سے پیدا ہونے والے خطرات کے ذکر سے بھی انہوں نے بوجوہ گریز کیا‘ جس کی وجہ سے ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں‘ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ رموزِ مملکت خویش خسرواں دانند۔ ممکن ہے کہ دفتر خارجہ‘ فوجی قیادت اور وفاقی کابینہ نے انہیں گریز کا مشورہ دیا ہو تاکہ فوکس مسئلہ کشمیر پر رہے اور بھارت کو مطلب براری کا موقع نہ ملے۔
اُڑی واقعہ سے بھارت بدحواس ہے۔ وہ بدلے کی آگ میں جل رہا ہے مگر نریندر مودی کے دو چار جذباتی ساتھیوں اور پاکستان دشمنی میں ہوش و حواس کھونے والے میڈیا کے سوا کوئی اسے جوابی کارروائی کا مشورہ نہیں دے رہا۔ دلائل ہر ایک کے الگ الگ ہیں۔ کچھ پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی سے ڈرتے ہیں۔ کسی کو اپنی ابھرتی ہوئی معیشت کی فکر ہے اور چند ایک کشمیر کو فلیش پوائنٹ بنانے کے حق میں نہیں۔ ان کے خیال میں اگر مسئلہ کشمیر پر جنگ کا خطرہ پیدا ہوا تو عالمی برادری اسے حل کرانے کے لیے میدان میں کود پڑے گی اور بھارت کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان پر حملے کے لیے بھارت کے پاس آپشنز محدود ہیں۔ وہ اونٹ کی سواری کرنا چاہتا ہے مگر کوہان سے ڈرتا ہے‘ کابل کی سیر کا شوقین مگر افغان سے خائف ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت حملے کے لیے افغان سرزمین استعمال کر سکتا ہے‘ جہاں اسے امریکی اڈے استعمال کرنے کی سہولت حاصل ہے‘ مگر کیا امریکہ اس قدر ننگی جارحیت پر تیار ہو گا اور دو ممالک کی باہمی محاذ آرائی کو عالمی اور آخری جنگ میں بدلنے کی حماقت کرے گا؟ یقین نہیں آتا۔ میاں نواز شریف کا جنرل اسمبلی سے خطاب مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے تاریخی‘ روایتی اور مبنی بر حق و انصاف موقف کا احیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے تاریخ میں اپنا نام لکھوانے اور انور سادات کی طرح نوبیل پرائز حاصل کرنے کے شوق میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھ کر بھارت کو من مانی کا جو موقع فراہم کیا‘ اس سے پاکستان اور کشمیری قیادت کے مابین غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو پرویز مشرف کشمیریوں کے اعتدال پسند لیڈر سمجھتا تھا اور سید علی گیلانی کو ایک ہٹ دھرم بوڑھا‘جو اس کی غلط سلط تجاویز کو مانتا ہے نہ بھارت کے سامنے جھکنے پر آمادہ۔ موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت نے اس ناقص‘ نقصان دہ اور باعث شرم پالیسی کی بساط لپیٹ کر بھارت کو پسپائی پر مجبور اور کشمیری عوام کو پیش قدمی پر آمادہ کیا۔
پاکستان رقبے آبادی اور وسائل میں بھارت کا ہم پلہ کبھی نہ تھا۔ 1945ء میں نہ 1965ء میں اور نہ 1987ء میں‘ جب براس ٹیک مشقوں کے نام پر جارحیت کی کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بھارت بالادستی کے زعم میں 1988ء کے بعد مبتلا ہوا جب امریکہ کے مشوروں اور برین واشنگ‘ پر پاکستان کے مرعوب دانشوروں‘ بونے سیاستدانوں اور وظیفہ خور سابق سفارت کاروں نے چھوٹے ملک اور بڑے ملک کا راگ الاپنا شروع کیا۔ بھارت کی آبادی‘ اقتصادی وسائل اور فوجی قوت سے عوام کو خوفزدہ کرنے کی مہم چلی اور سوویت یونین کی تحلیل پر بے روزگار ہونے والے نام نہاد مفکرین نے امریکہ کی گود میں بیٹھ کر پاکستانیوں کو بھاشن دینا شروع کیا کہ وہ بھارت کی سیاسی‘ اقتصادی‘ دفاعی بالادستی قبول کرکے خطے میں زندہ رہ سکتے ہیں‘ ورنہ 1971ء کی طرح لالہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ بے چارے پیٹ سے سوچنے والے۔ ممبئی‘ پٹھان کوٹ اور اوڑی واقعہ کے بعد بھارت کو مگر یہ جرات نہیں ہوئی اور نواز شریف کے خطاب پر بھارتی بوکھلاہٹ سے اس بڑے ملک کی ذہنی‘ نفسیاتی‘ سیاسی‘ معاشی اور دفاعی بالادستی کی قلعی کھل گئی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان نے بھارت کی شہ رگ دبوچ لی ہے اور وہ اپنے بل بوتے پر نہیں‘ امریکہ کے زور پر اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔ میاں نواز شریف کو حزب المجاہدین کا کمانڈر اور پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینا اسی کمزوری اور کھسیانے پن کا ثبوت ہے۔
بھارت کس قدر تنگ نظر اور ذہنی طور پر پسماندہ ملک ہے؟ اوڑی واقعہ کے بعد بھارتیوں نے بالی وڈ میں کام کرنے والے پاکستانی فنکار فواد خان پر طعن و تشنیع شروع کر دی ہے۔ غلام علی خان‘ راحت فتح علی خان اور دیگر فنکاروں سے بدسلوکی کے واقعات زیادہ پرانے نہیں‘ میاں نواز شریف کو فوج کی تابعداری کا طعنہ دینا بھی اس سوچ کا نتیجہ ہے۔ جبکہ پاکستان میں مہیش بھٹ‘ اوم پوری اور دیگر فنکاروں کو ہمیشہ عزت ملی اور کسی نے انہیں پاکستان سے بے عزت کرکے نکالنے کی بات نہیں کی۔ پاکستان میں بھارت کی بولی بولنے والے تجزیہ کاروں اور سیاستدانوں کو بھی پوری آزادی ہے۔ صبح و شام پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں کیڑے نکالنے اور پاکستان کو افغانستان و بھارت کے الزامات کی صفائی دینے پر مجبور کرنے والے سابق سفارت کاروں اور دفاعی ماہرین سے بھی کسی نے تعرض نہیں کیا حالانکہ یہی ماہرین دوران ملازمت کچھ اور کہتے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بالکل مختلف لکھتے اور بولتے ہوئے‘ ہرگز نہیں شرماتے۔ مفادات کے یہ بندے دوران ملازمت ہی اپنے خاندان کو امریکہ و برطانیہ کی شہریت دلانے کے بعد پاکستان کو غیروں کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں اور ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو قربان کرکے اپنی قیمت بڑھاتے ہیں۔ یہی مرعوب ذہن امریکہ و بھارت کا پاکستان میں اثاثہ ہیں ورنہ پاکستان اتنا کمزور ہے کہ اسے کوئی مسل دے اور نہ اس قدر حقیر کہ اس کی بات ہی نہ سنی جائے۔ بس پالیسی میں وہ بانکپن چاہئے جو 1988ء سے پہلے ہمارا وتیرہ تھا اور آج کل ترکی‘ چین اور روس کا شیوہ ہے۔ چین‘ روس اور ترکی نے معاشی بدحالی کے دور میں بھی اپنا سر بلند رکھا اور اپنے آپ کو کسی کا باجگزار نہ سمجھا‘ آج تینوں کی بات سنی جاتی ہے۔ ہم بھی یہ تجربہ کر کے تو دیکھیں۔ جنرل اسمبلی میں جرأت مندانہ خطاب سے کسی نے نواز شریف کو روکا نہ پاکستان کا حقہ پانی بند کیا۔ کاش باقی معاملات میں بھی ہمارا وتیرہ یہی رہے۔ بھارتی مظالم کی تحقیقات کے لیے اقوام متحدہ کے کمیشن کا مطالبہ کرنے والے میاں صاحب پاناما سکینڈل کی تحقیقات کے لیے بھی جوڈیشل کمشن مان لیں تو عمران خان اور دیگر ان کے سامنے پانی بھریں۔ اے کاش!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں