کوئی اُن سے نہیں کہتا کہ نکلیں نہ عیاں ہو کر

تحمل و برداشت کی پاکستانی پالیسی قابل ستائش‘ پاکستان کی طرف سے تحمل و برداشت کو مگر امریکہ اور یورپ میں سے سراہاکس نے؟بھارت میں جنگی جنون پروان چڑھ رہا ہے اور عالمی برادری کو پروا نہیں۔ 1987ء میں بھارت نے براس ٹیک مشقیں شروع کیں تو ابتدا میں کسی نے توجہ نہ دی مگر جب پتا چلا کہ ان مشقوں کے دوران اصلی گولہ بارود سے لیس ہتھیار منتقل کیے جا رہے ہیں تو سب کا ماتھا ٹھنکا۔ نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر جنرل ضیاء الحق نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو یہی باور کرایا کہ ایک فوجی کے طور پر اصلی گولہ بارود کی سپلائی اور جدید ہتھیاروں کی منتقلی کا مطلب وہ خوب جانتے ہیں۔ اب بھی پاکستان کی سرحد اور لائن آف کنٹرول سے بھارتی آبادی کا انخلاء اور ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کی جدید ہتھیاروں سمیت نقل و حرکت سے بھارت کے جارحانہ ارادوں کا پتا چلتا ہے۔ 
بھارت واقعی جارحیت پر آمادہ ہے یا سارا شور و غوغا دبائو کا حربہ ہے؟ نریندر مودی کی اپنے فوجی سربراہوں سے ملاقاتیں دکھاوا یا جنگی حکمت عملی تیار کرنے کی سنجیدہ سعی ہے؟ بھارتی فوج‘ ائرفورس اور نیوی پاکستان سے دو دو ہاتھ کرنے کی خواہشمند ہے یا جنگ کے نتائج و عواقب سے کلیتاً آگاہ فوجی سربراہ اپنے وزیراعظم کو معقولیت کی راہ دکھا رہے ہیں؟ کوئی بھی شخص یقین سے کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کیرالہ کے اجتماع میں نریندر مودی نے پاکستان کو پوری دنیا میں تنہا کرنے کی دھمکی دی اور پاکستانی عوام کو فوج کے علاوہ نوازشریف کے خلاف اکسایا مگر فوجی آپشن کو نظرانداز کیا۔ بنیا اپنا نفع‘ نقصان خوب سمجھتا ہے۔ سینکڑوںسال کا تجربہ یہی ہے کہ بنیا خواہ تاجر ہو یا سیاستدان ‘گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتا۔ بنیے کا بیٹاگرتابھی کچھ دیکھ کر ہے۔ صدیوں کی غلامی کے بعد پچھلے دو عشروں میں بھارت کو عالمی اور علاقائی سطح پر جو پذیرائی ملی اس نے نریندر مودی جیسے اُتھلے لیڈروں کا دماغ خراب کر دیا‘ اُوپر سے امریکہ کی ہم نشینی‘ سیاں بھئے کوتوال‘ اب ڈر کاہے کا۔
عسکری محاذ پر پاکستان کمزوری کا شکار نہیں۔ نریندر مودی کی دھمکی کے باوجود ہمیں تنہا کرنا بھی آسان نہیں‘ کوشش اگرچہ امریکہ اور بھارت مل کر ضرور کریں گے۔ بھارت نے 1971ء کے بعد جنگ نہیں لڑی‘ بھارتی فوج کے مورال‘ جنگی تیاریوں‘ ہتھیاروں اور تربیت میں جدت کی قلعی اکنامسٹ میگزین نے کھول دی ہے ۔پاکستان کی فوج اور خفیہ ایجنسیاں ہی نہیں عوام بھی ڈیڑھ عشرے سے حالت جنگ میں ہیں ‘صرف بھارت ہی نہیں دیگر ممالک کی مسلط کی ہوئی پراکسی وار اور تربیت یافتہ دہشت گردوں کا مقابلہ پامردی سے کر رہی ہیں اور کامرانی اُن کے قدم چوم رہی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے ذریعے جو کامیابیاں پاکستان نے دو سال میں حاصل کیں‘بلوچستان کے باغیوں اور علیحدگی پسندوں‘ کراچی کے ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں اور فاٹا میں دہشت گردوں کی کمر توڑی‘ وہ برطانیہ‘ بھارت‘ سری لنکا اور دیگر کئی ممالک کو عشروں بعد ملیں۔ پاکستان کا اصل مسئلہ قومی سطح پر انتشار ہے اور سیاسی قیادت کی تنگ نظری و مفاد پرستی۔ میاں نوازشریف نے جنرل اسمبلی میں پاکستان اور کشمیری عوام کا مقدمہ قومی توقعات کے مطابق بہتر انداز میں پیش کیا مگر تاریخ کے نازک موڑ پر اپنے وفد کی تشکیل اور جنرل اسمبلی جانے سے پہلے دیگر سیاسی و پارلیمانی قوتوں کی تائید و حمایت کے حصول کے لیے انہوں نے وسیع القلبی اور تدبر کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر وہ نیویارک روانگی سے قبل سیاسی و مذہبی قوتوں کو اعتماد میں لیتے ‘جس طرح کہ انہوں نے آزاد کشمیر میں موجود حریت کانفرنس کی قیادت کو لیا اور اپنے وفد میں خورشید محمود قصوری‘ شاہ محمود قریشی‘ حنا ربانی کھر ‘مشاہد حسین سیداور اس سطح کے دیگر سیاست دانوں کو شامل کر لیتے تو یہ تجربہ کار لوگ اقوام متحدہ کی لابیوں میں بہتر کردار ادا کر سکتے تھے اور پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کی بھارتی کوششوں کا توڑ کرتے۔
عمران خان اور تحریک انصاف پر طلال چوہدری ٹائپ مسلم لیگ کے بھونپو اعتراض کرتے ہیں کہ کشمیر میں قیامت صغریٰ برپا ہے ‘پاکستان کی سلامتی کو بھارت سے خطرات لاحق ہیں‘ مگر خان صاحب کو شریف خاندان کے بیرون ملک کاروبار کی پڑی ہے اور پاناما سکینڈل کو قومی ایشو کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ یہ نہیں سوچتے کہ وزیراعظم خود کیا کر رہے ہیں‘ پانچ ماہ تک وزیراعظم کا وعدہ وفا نہ کرنا‘ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر کے جوڈیشل کمشن کی تشکیل میں روڑے اٹکانا ‘ اپوزیشن کے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے الزامات کا جواب نہ دینا‘ ڈنڈا بردار فورس تیار کرنا‘حکومت اور مسلم لیگ کا استحقاق ہے اور اس سے قومی اتحاد و یکجہتی کو زک پہنچتی ہے نہ سیاسی محاذ آرائی کو فروغ ملتا ہے مگر تحریک انصاف کے جلسے جلوس سے فضا مکدر ہوتی ہے ؎
سبھی مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ رکھ نیچی نگاہ اپنی
کوئی اُن سے نہیں کہتا کہ نکلیں نہ عیاں ہو کر
پاکستان میں سول بالادستی کے نام پر ہر معاملے میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں پر تبرّا بھیجنے والے عناصر اس بات پر بھارت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے تھے کہ وہاں بڑے بڑے ٹیکس چور‘ کمیشن خور‘ لٹیرے اور اربوں کی دیہاڑی لگانے والے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے عیش کر رہے ہیں۔دفاعی اداروں کے معاملات بھی سول بیورو کریسی نمٹاتی ہے اور فوجی سربراہ اس کا حکم بجا لاتے ہیں مگر اکنامسٹ کی رپورٹ سے پتا چلا کہ یہ نام نہاد سول بالادستی بھارتی فوج کی جڑوں میں بیٹھ گئی ہے۔ کرپٹ سیاستدانوں اور سول بیورو کریسی نے ہتھیاروں کی خریداری‘ پیداوار اور جرنیلوں کی ترقی و تبادلوں میں گھپلے کئے ‘فوج کا مورال پست ہوا اوراب چودہ پندرہ لاکھ افرادی قوت پر مشتمل فوج پاکستان کا سامنا کرنے سے ڈرتی ہے۔ ہمارے پورے قومی بجٹ سے بھارتی فوج کا بجٹ زیادہ ہے مگر ہتھیار فرسودہ ہیں‘ تربیت ناقص اور حوصلے پست‘ یہ کرپشن کا کیا دھرا ہے مگر پاکستان میں کرپشن کے وکیل قوم کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ قومی وسائل کی لوٹ مار‘ سرمائے کی بیرون ملک منتقلی اور اقرباء پروری کوئی ایشو ہی نہیں۔ سیاستدانوں اور میڈیا کو حکمران ٹولے کی ہوس زر‘ ہوس اقتدار اور شاہانہ طرز سیاست و حکمرانی پر انگشت نمائی کرنی چاہیے نہ قومی وسائل کی لوٹ مار ختم کرنے کا مطالبہ‘ کرپشن بے نقاب کرنے سے جمہوریت کمزور ہوتی ہے اور پاناما سکینڈل پر تحقیقات کے مطالبہ سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔ گویا جمہوریت کی بقا اور قومی سلامتی کا تحفظ اپوزیشن کی ذمہ داری ہے۔ حکمرانوں کا کام صرف قومی وسائل پر عیش کرنا اور معاشرے میں دیانت‘ امانت‘ میرٹ ‘ احساس ذمہ داری اور انصاف کا فروغ چاہنے والوں کی کردار کشی اور الزام تراشی ہے۔
کرپشن‘ ناانصافی‘ اقربا پروری‘ مفاد پرستی اور دوست نوازی کے کلچر نے پاکستان کو جہنم بنا دیا۔ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور بغاوت و علیحدگی پسندی انہی برائیوں کے ثمرات اور نتائج و عواقب ہیں جنہیں پاک فوج آہنی ہاتھوں سے ختم کرنے کی سعی کر رہی ہے۔ بلوچستان میں احساس محرومی کا سبب کیا ہے؟ کراچی میں میرٹ سے انحراف نے کیا قیامت ڈھائی؟ قبائلی علاقوں اور سرائیکی وسیب میں دہشت گرد تنظیموں کو سستا ایندھن کس بنا پر دستیاب ہے؟ یہ ناانصافی‘ کرپشن اور اقرباء پروری کے پودے کی شاخیں ہیں مگر انہیں ختم کرنے کی بات ہو تو ہزار بہانے تراشے جاتے ہیں۔ حکومت واقعی محاذ آرائی نہیں چاہتی اور قومی اتحاد و یکجہتی کی خواہاں ہے تو اپوزیشن کے طے کردہ ٹی او آرز پر جوڈیشل کمشن تشکیل دے‘ یہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینے کا اعلان ہو گا اور بھارت کے مقابلے میں قومی یگانگت کا عظیم مظاہرہ۔
سب جانتے ہیں کہ ایسا کبھی نہ ہو گا۔ ایثار و قربانی کا مطالبہ صرف قوم سے ہوتا ہے‘ تعاون اور مفاہمت کی اپیل اپوزیشن سے کی جاتی ہے اور اپنے معمولات میں کوئی فرق آتا ہے نہ مراعات میں کمی۔ یہی حکمران اشرافیہ کا چلن ہے اور ملک کے لیے خطرناک۔ ہماری سلامتی اور آزادی کو خطرہ بھارت سے نہیں‘ اپنی تنگ نظر اور مفاد پرست اشرافیہ سے ہے جوبھارت کی دھمکیوں اور جارحانہ عزائم سے بے نیاز بسم اللہ کے گنبد میں بند من مانی کر رہی ہے۔بھارتی حکمران اشرافیہ کو کوئی سمجھانے والا ہے نہ ہمارے نازک مزاج شاہوں اور اُن کے قصیدہ خوانوں کو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں