بجا کہ بھارت نے جھوٹ بولا، سرجیکل سٹرائیک نہیں کی، کنٹرول لائن پر بلااشتعال فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دے دیا، اپنی قوم اور فوج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے مودی سرکار کو جھوٹ کا سہارا لینا پڑا۔ مگر ہمارا جواب کیا ہے؟ تردیدی بیانات یا کچھ اور؟
بھارتی چینلز پر شور برپا ہے۔ بھارتی حکومت کے سول اور ملٹری عہدیدار، سابق سروسز چیفس، کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما اور دانشور آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائیکس کو اُڑی حملے کا منہ توڑ جواب قرار دے کر اپنی قوم اور فوج کا مورال بلند کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی کُل جماعتی کانفرنس میں اس حملے کی تفصیلات بیان کی گئیں تو حکومت مخالف رہنمائوں نے بھی واجبی رد و کد کے بعد آمناّ و صدقناّ کہا۔ سرجیکل سٹرائیکس جھوٹا پروپیگنڈا ہے تو پھر بھی اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت نے پہلے یہ کام نہیں کیا تو اب کر سکتا ہے کیونکہ نریندر مودی کو اس معاملے میں ساری سیاسی قیادت، میڈیا اور بنگلہ دیش جیسے اتحادیوں کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی نے بھی اس اقدام کی مخالفت نہیں کی۔ بھارت سرکاری کو ہوش کے ناخن لینے کا مشورہ نہیں دیا۔ منقسم بھارتی رائے عامہ متحد ہے اور میڈیا پر پاکستان مخالف پروپیگنڈا پاگل پن کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
کہتے ہیں تاثر اور احساس (Perception) حقیقت سے زیادہ جاندار ہوتا ہے اور ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن لیفٹیننٹ جنرل رنبیر سنگھ کی پریس کانفرنس دنیا کو یہ تاثر دینے کے لیے تھی کہ بھارت نے پاکستان کو‘ کرارا جواب دیا ہے۔ یہ کشمیر اور اقوام متحدہ میں ہاری ہوئی جنگ پاکستان دشمن میڈیا کے ذریعے جیتنے کی تدبیر ہو سکتی ہے۔ اپوزیشن کو رام کرنے کی حکمت عملی اور عوام کو متحد کرنے کا حربہ بھی۔ چانکیہ کے پیروکاروں کو یہ ہنر آتا ہے۔ پر کا پرندہ اور رائی کا پہاڑ بنانے میں یہ ماہر ہیں‘ مگر بھارت صرف اسی پر تو اکتفا نہیں کرے گا۔ 1965ء میں بھی ہم اس خوش فہمی کا شکار رہے کہ جموں و کشمیر میں جاری عوامی جدوجہد اور مسلح مزاحمت سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارت بین الاقوامی سرحد پر چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا‘ حالانکہ گوہر ایوب خان کے بقول کئی ماہ قبل بھارت کا جنگی منصوبہ پاکستانی قیادت کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشن نے ترکی کے ذریعے ایوب خان کو بھارتی تیاریوں سے آگاہ کر دیا تھا۔ یہ بات بھارت میں سابق پاکستانی ہائی کمشنر اور ایوب خان کے آخری وزیر خارجہ میاں ارشد حسین نے ذاتی طور پر مجھے بتائی؛ تاہم یہ اہم دستاویز اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور سیکرٹری خارجہ عزیز احمد نے دبا لی‘ ایوب خان تک نہ پہنچائی۔ اس میں حملے کی تاریخ تک درج تھی۔
اب صورت حال 1965ء اور 1971ء سے ملتی جلتی ہے۔ بھارت کشمیر میں عوامی جدوجہد سے تنگ ہے۔ بلوچستان، کراچی اور فاٹا بھارت کا نیٹ ورک ٹوٹا، الطاف حسین، براہمداغ بگٹی اور حربیار مری جیسے بھارتی ''اثاثے‘‘ دربدر ہیں۔ 'پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘۔ کے فار کے یعنی کشمیر کا بدلہ کراچی میں کا نعرہ بے اثر ہے، سری نگر کی گلیوں میں پاکستان زندہ باد کا جواب کراچی میں دینے کی حکمت عملی ناکام رہی، سارا منصوبہ تلپٹ ہوا۔ بھارت سیخ پا ہے اور ہم کراچی، فاٹا اور بلوچستان میں دہشت گردوں، تخریب کاروں، علیحدگی پسندوں، ٹارگٹ کلرز اور ''را‘‘ کے ایجنٹوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی جو مہم چلائی وہ چنداں کامیاب نہیں ہوئی۔ ایرانی بحری بیڑے اور روسی فوجی دستوں کی پاکستان آمد اس کا ثبوت ہے مگر اندرون ملک تخریب کاری کا بازار گرم ہے اور پاک فوج مغربی سرحد اور شورش زدہ علاقوں میں الجھی ہے۔ اُڑی واقعہ کے بعد بھارت نے پاکستان کو الجھانے اور جنگی جنون میں مبتلا کرنے کی جو کوشش کی وہ ناکام رہی۔ پاکستان نے خطے کے عوام اور عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگ نہیں، امن کے خواہشمند ہیں اور دو ایٹمی قوتوں کے مابین جنگ کے نتائج و مضمرات کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ بھارت مگر قدم بہ قدم آگے بڑھ رہا ہے۔ سات مقامات پر سرجیکل سٹرائیکس کا شوشہ چھوڑ کر اس نے چھ ممکنہ اقدامات میں سے ایک پر عملدرآمد کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ ہوئی یا نہیں؟ الگ بات ہے۔ اگر واقعی نہیں ہوئی تب بھی اس نے اعتراف جرم کیا ہے، ہم بھارت کے اعتراف جرم کو عالمی برادری کے سامنے کس انداز میں پیش کرتے ہیں؟ اپنے عوام بالخصوص کشمیری عوام کو کس طرح یقین دلاتے ہیں کہ قومی سرحدیں اور عوام سو فیصد محفوظ ہیں اور پاک فوج ہر طرح کی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے؟ یہ اہم سوالات ہیں جو بھارتی میڈیا پر جاری پروپیگنڈے کے بعد ہر شہری کو درکار ہیں۔ مربوط، منہ توڑ اور موثر جوابی کارروائی عوام کو مطمئن کر سکتی ہے۔
بھارت اس حد تک آگے بڑھ چکا ہے، مگر ہمارے ہاں عجیب سی لاپروائی نظر آتی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف جنرل اسمبلی میں اطمینان بخش خطاب کے بعد جلدی میں وطن واپس روانہ ہوئے مگر تین دن برطانیہ ٹھہرے۔ شسما سوراج کی تقریر کے بعد جوابی خطاب کا حق استعمال کرنے کے لیے مشیر خارجہ کو نیویارک میں ٹھہرنے کی ہدایت نہ کی‘ اور وطن واپس آ کر بھی انہوں نے وفاقی کابینہ کا اجلاس آج طلب کیا، ایک تیرہ رکنی کمیٹی بھی بنا دی، اور نیشنل سکیورٹی کونسل و پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اگلے ہفتے بلایا، اللہ اللہ خیر سلا۔ مودی کی طرح کل جماعتی کانفرنس طلب کرنے کی ضرورت محسوس کی‘ نہ دفتر خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرکے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیز کارروائیوں اور پاکستان کے خلاف مکروہ پروپیگنڈے پر احتجاج کرے۔ یہ سرجیکل سٹرائیک نہ سہی کنٹرول لائن کے سات مقامات پر حملہ تو ہے اور ہمارے دو فوجی جوان شہید ہوئے۔ یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ آج کے دور میں جنگ فوج نہیں قوم لڑتی ہے مگر تاحال یہ کام فوج کے سپرد ہے اور فوج کو بدنام کرنے کے لئے بھارت سرجیکل سٹرائیک کا شوشہ چھوڑ رہا ہے تاکہ پاکستانی عوام کو بدظن کرے کہ وہ بھرپور جواب نہیں دے سکی۔ ہمارے حکمران، سیاستدان بدستور سیاسی کھیل میں مشغول ہیں۔ پٹھان کوٹ حملے پر ہمارے وزیر اعظم بے چین تھے، انہوں نے سری لنکا سے بھارتی ہم منصب مودی کو فون کرکے اظہار یکجہتی کیا۔ کسی پاکستانی کے ملوث ہونے کی صورت میں بھرپور کارروائی کی یقین دہانی کرائی اور اپنے ہمسفر پاکستانی صحافیوں کے سامنے عزم ظاہر کیا کہ اگر یہ کام کسی پاکستانی تنظیم کا ہوا تو وہ نہیں چھوڑیں گے۔ واقعہ پٹھان کون میں ہوا مگر ایف آئی آر گوجرانوالہ میں درج کی گئی۔ اس کے برعکس کنٹرول لائن کے پانچ مقامات پر بھارت نے خلاف ورزی کی، دو فوجی شہید ہوئے لیکن وزیر اعظم کا ردعمل ایک بیان ہے، مودی سے فون کی نوبت نہیں آئی۔
کوئی باشعور، امن پسند اور محب وطن پاکستانی بھارت سے جنگ چاہتا ہے نہ جنگی جنون کو ہوا دینے کے حق میں‘ مگر مسلمانوں کو گھوڑے تیار رکھنے کا حکم ہے۔ بہترین کی خواہش اور بدترین کی توقع تقاضائے دانشمندی ہے۔ خدا کرے کہ جنگ کی نوبت نہ آئے مگر قوم کو تیار اور متحد کرنے اور سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھا کر دشمن کے سامنے اتفاق و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے میں حرج کیا ہے۔ اشتعال انگیز فائرنگ کو سرجیکل سٹرائیک کا نام دے کر بھارت نے اپنے عوام کو گمراہ اور فوج کو مطمئن کیا، ڈی جی ملٹری آپریشن رنبیر سنگھ کے بیان میں Across the LOC کے بجائے Along the LOC کے الفاظ استعمال ہوئے جس کا مطلب یہ ہے کہ کارروائی بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی، بارڈر کے پار پاکستانی علاقے میں نہیں۔ باقی مرچ مصالحہ پالتو بھارتی میڈیا نے ڈالا۔ یہ اُڑی کے واقعہ اور کشمیری عوام کی مزاحمت سے توجہ ہٹانے کی سعیٔ لاحاصل ہے اور ڈی جی ایم او کی پریس کانفرنس جموں و کشمیر میں ہاری ہوئی جنگ میڈیا پر جیتنے کا حربہ۔ مگر ہماری جوابی تیاری کیا ہے؟ فوج کتنی تیار ہے اور حکومت اور قوم کس قدر؟ صرف میڈیا کے بہتر استعمال سے کام نہیں چلے گا۔ سیاسی سطح پر انتشار، محاذ آرائی، باہم جوتم پیزار اور الزام تراشی سیاسی قیادت کا جنگی اثاثہ ہے۔ ع 'یہ تیری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو‘ چانکیہ کے پیروکار دشمن کا مقابلہ مشکل ہے‘ ناممکن نہیں۔ عوام کی خواہش کچھ اور ہے۔ نیوکلیئر اسلامی ریاست اور جذبہ جہاد سے سرشار فوج کے شایان شان جواب۔