اسلامی نہ سہی ایک زرعی ملک کے لیے ہے تو یہ شرم کی بات کہ انیس کروڑ آبادی کے ملک میں چار کروڑ لوگ بھوکے سوتے ہیں اور آٹھ فیصد بچے پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سب چلتا ہے‘یہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دینے والی خبر ہے۔ قابل توجہ نہ لائق بحث و تمحیص۔
انٹرنیشنل فوڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے گلوبل ہنگر انڈیکس میں پاکستان کو گیارہویں نمبر پر رکھا ہے۔ ہم سے بدتر صورتحال صرف صحارا‘ وسطی افریقہ‘ چاڈ‘ مڈغاسکر‘ سر الیون اور زمبیا کی ہے۔ پاکستان اس لحاظ سے شرمناک صورتحال سے دوچار ہے کہ یہاں وافر مقدار میں اناج پیدا ہوتا ہے‘ اعلیٰ درجے کی سبزیاں اور پھل دستیاب ہیں اور ہم زرعی اجناس کپاس‘ گنا ‘ گندم اور پھلوں سے زرمبادلہ کماتے ہیں۔ بیس ارب ڈالر سے زائد زرمبادلہ کمانے کے شوق میں ہی ہم اپنے عوام کو بھوکااور مکمل غذائیت سے محروم رکھتے ہیں جبکہ یہ زرمبادلہ ہماری حکمران اشرافیہ اور مراعات یافتہ مخلوق کی عیش و عشرت پر خرچ ہوتا ہے۔
سرورکائناتﷺ نے امت کو تاکید یہ فرمائی کہ کسی مسلمان کا ہمسایہ کبھی بھوکا نہ سوئے ورنہ روز قیامت اس سے باز پرس ہو گی۔ لیکن انٹرنیشنل فوڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ پاکستان کی ہر گلی اور محلے میں سینکڑوں نہیں تو درجنوں لوگ بھوکے سوتے ہیں جو ظاہر ہے اپنے مالدار اور پیٹ بھرے ہمسایوں کو دعائیں دیتے ہوں گے نہ ریاست و حکومت کے گن گاتے ہوں گے۔
ہمیں حکم یہ ہے کہ گھر میں پھل کھا کر چھلکے باہر کھلے عام نہ پھینکو۔ تاکہ کسی غریب ہمسائے کے بچّے احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ یتیم بچوں کے سامنے اپنے بچوں کو پیار کرنے کی ممانعت ہے یہاں غربت کی شرح ساٹھ فیصد تک پہنچ گئی‘ چار کروڑ آبادی بھوکی سونے پر مجبور ہے اور اڑھائی کروڑ بچے سکول جانے سے محروم ہیں ایک نیو کلیر سٹیٹ کی ساورن گارنٹی کوئی نہیں مانتا ۔ایک ارب ڈالر کے سکوک بانڈ بیچنے کے لیے موٹر وے کا ایک حصہ گروی رکھنا پڑتا ہے مگر حکومت کا دعویٰ یہ ہے کہ ملک ترقی و خوشحالی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ اور چار کروڑ شہری بھوکے سوئیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہ نہیں کہ پاکستان واقعی مفلوک الحال ملک ہے کسی افریقی ملک کی طرح پانی‘ زرخیز رقبے اور قدرتی وسائل سے محروم۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو چار موسموں سے نوازا ہے‘ معدنی وسائل سے بھر پور پہاڑ‘ صحرا‘ لاکھوں ایکڑ سونا اگلتی زرعی زمینیں‘ پانچ دریا اور بہترین نظام آبپاشی‘ محنتی اور ذہین افرادی قوت جس میں نوجوانوں کا تناسب غالب ہے۔ بدقسمتی مگر یہ ہے کہ لوٹ مار کا بازار گرم ہے‘ عوام دوست پالیسیوں کا فقدان ہے اور لوٹی دولت بیرون ملک منتقل کرنے کا رواج ہے کرپشن جملہ امراض کی ماں ہے مگر اس کے خلاف آواز‘ بلند ہو تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے اور سارے لٹیرے‘ ڈاکو‘ چور‘ نوسر باز اکٹھے ہو کر دہائی دینے لگتے ہیں کہ بچائو‘ بچائو جمہوریت بی بی اغوا ہونے لگی۔ اس جمہوریت کے بارے میں چیف جسٹس کا فرمان ہے کہ اس کے نام پر بدترین بادشاہت قائم ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ہو یا آمریت لوٹ ‘مار کا نظام دونوں کو مرغوب ہے اور غربت و افلاس کا خاتمہ کسی کو مطلوب نہیں۔ ورنہ اربوں ڈالر کے قرضوں اور قومی پیداوار سے چار کروڑ انسانوں کو دو وقت کا کھانا تو فراہم کیا جا سکتا تھاجو بے چارے شہروں میں اُگی فلک بوس عمارتوں‘ جملہ آسائشات سے آراستہ ایکڑوں رقبے پر مشتمل محلات‘ اور اُمرا کی مہنگی آبادیوں کے اردگرد‘ بستے اوربھوکے سوتے ہیں۔
یہ عجیب ریاست ہے جہاںایک محدود طبقہ خوش خوراکی سے بیمار ہوتا اوربسیار خوری سے مرتا ہے جبکہ اکثریت پوری غذا نہ ملنے کے سبب قبرستان آباد کرتی ہے۔کسی کو احساس ہو تو پارلیمنٹ بحث کرے‘ کابینہ اور حکومت کی معاشی پالیسیوں کا رخ تبدیل ہو اور سیاسی و مذہبی جماعتیں حشر برپا کردیں۔ ہمارے قومی مباحث مگر کیا ہیں؟ ' سول بالادستی‘ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو امریکہ اور بھارت کی خواہش کے مطابق نکیل ڈالنا‘ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھنے والے عناصر کو زندہ درگور کرنا اور حکمران طبقے کی بیرون ملک جائیدادوں اور اکائونٹس سے عوام کی توجہ ہٹانا۔ ایک ہفتے سے قومی سطح پر ایک اخبار کی سٹوری زیر بحث ہے‘ اربوں ڈالر لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے‘ کراچی میں اسلحے کے انبار لگا کر بارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے اور پاناما لیکس کے ذریعے ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بننے والے کسی فرد یا گروہ کے خلاف آج تک کوئی موثر کارروائی ہوئی نہ نیٹو اسلحہ کی کھیپ برآمد ہونے کے بعد کسی شخص کو ای سی ایل میں ڈالا گیا مگر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی اندرونی کہانی کو خبر کی شکل دینے والے صحافی سیرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔ وزارت داخلہ کا دعویٰ ہے کہ اس حوالے سے ہونے والی تحقیقات سے جڑے دیگر افراد کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل ہے مگر صحافی اور سرکاری عہدیدار ان کے ناموں سے بے خبر ہیں۔
سیرل المیڈا کے پاس خبر چل کر آئی۔ یہ تحقیقی صحافت کے معیار پر پوری اترتی ہے نہ موجودہ سرحدی صورتحال اور عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی سرگرمیوں کے حوالے سے اس کی اشاعت مناسب لگتی ہے سکیورٹی کے حوالے سے خفیہ معاملات یوں افشا ہونے لگیں تو آئندہ اعلیٰ فوجی عہدیدار پیٹ کے ہلکے سویلین کے سامنے زبان کیوں کھولیں گے اور تبادلہ خیال کی نوبت کہاں آئے گی۔اخباری مالکان کے کاروباری تقاضوں اور حکومتی ضرورتوں نے اشاعت کی راہ ہموار کی۔سارا ملبہ صحافی پر ڈالنا اور پاک فوج کو دنیا کے سامنے روگ آرمی کے طور پر پیش کرنے والے عناصر سے چشم پوشی کہاں کا انصاف ہے۔؟ اس وقت پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار مودی قرار دے رہا ہے یا جنرل راحیل شریف کی مقبولیت اور آپریشن ضرب عضب کے علاوہ کراچی و بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائی سے خائف مودی کے پاکستانی یار ‘جو امریکی و بھارتی دبائو کو پاک فوج اور آئی ایس آئی سے اپنا حساب چکانے کے لیے استعمال کرنے کے درپے ہیں یہ خبر رپورٹر تک پہنچانے والوں نے ایک تیر سے کئی شکار کئے پاکستانی میڈیا پر جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم‘ پاناما ایشو پر عمران خان کی تحریک اور 30اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کی کال جیسے ایشوزبیک برنرپر چلے گئے جبکہ قومی سطح پر موضوع بحث ڈان کی سٹوری ہے یا نئے آرمی چیف کا تقرر۔ صرف پاکستان نہیں بھارتی میڈیا بھی خوب جوہر دکھا رہا ہے اور پاک فوج کے لتے لیے جا رہے ہیں۔ نیو یارک‘ واشنگٹن ‘ لندن ‘ پیرس‘ بون اور نئی دہلی کو پیغام مل گیا ہے کہ پاکستان کی موجود سول حکومت حقانی نیٹ ورک‘ حافظ سعید کی جماعت الدعوہ اور مولانا مسعود اظہر کی جیش محمد کا قلع قمع کرنے کے لیے یکسو اورتیار ہے وہ بھارت اور امریکہ کی خواہش اور اطمینان کے مطابق پٹھان کوٹ اور ممبئی واقعہ کی تحقیقات چاہتی ہے اور ہمسایوں بالخصوص بھارت و افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کشمیریوں اور افغانوں کی تحریک مزاحمت کی قربانی دے سکتی ہے مگر فوج اور آئی ایس آئی روڑے اٹکا رہی ہے۔
یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ فوج اور آئی ایس آئی کی ڈکٹیشن قبول نہ کرنے کی وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں موجودہ تنائو ہے اور عمران خان کی کرپشن کے خاتمے اور پاناما سکینڈل کی تحقیقات کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس جس کو یہ پیغام دینا مقصود تھا اسے مل چکا۔ دو شریفوں کی اس لڑائی میں جمہوریت کی مرغی کا کیا بنتا ہے؟ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں خاص طور پر ان چار کروڑ خاک نشینوں کو جورات کو بھوکا سوتے اور دن‘ حکمرانوں کی طرف سے ترقی و خوشحالی کے نعرے سن کرکڑھتے گزارتے ہیں۔ حکمرانوں کا یہ پرانا طریق واردات ہے کہ جب بھی وہ دبائو کا شکار ہوں ایک نیا تنازعہ کھڑا کر کے فوج اور عوام کو الجھا دیں اور خود پتلی گلی سے نکل جائیں۔ نومبر میں آرمی چیف کی تبدیلی سے ان کے من میں لڈو پھوٹ رہے ہیں اور وہ چار پانچ ہفتوں کی درمیانی مدت دھول اُڑا کر گزارنا چاہتے ہیں جنرل راحیل شریف اپنی ریٹائرمنٹ کاقبل از وقت اعلان کر کے مشکل صورتحال سے دوچار ہیں مگر درمیان میں 30اکتوبر بھی آتا ہے جو عمران خان کے علاوہ حکمرانوں کے لیے یوم آزمائش ہے اگر عمران خان ان چار کروڑ فاقہ کشوں کو احتساب تحریک کی طرف متوجہ نہیں کر پاتا اور فاقہ کش بھی شانت رہتے ہیں تو پھر قصور کس کا ہوا؟ ایک اسلامی اور زرعی ملک میں چار کروڑ عوام بھوکے سوئیں؟ ہے تو یہ شرم کی بات ‘مگر یہاں شرم کس کو‘حیا کہاں؟