عمران خان سے ہمدردی یا……؟

مسلم لیگ (ن) اور حکمران خاندان کی پریشانی جائز اور دیدنی ہے، پاناما سکینڈل سے ان کی جان تاخیری حربوں کے باوجود چھوٹی نہ جمہوریت کی دہائی دینے اور فرینڈلی اپوزیشن کی کمک حاصل کرنے سے۔ مسلم لیگ (ن) کا اقتدار خطرے میں ہے اور حکمران خاندان کو احتساب کا ڈر ہے،صرف پاناما سکینڈل نہیں سانحہ ماڈل ٹائون اس کے لیے ڈرائوناخواب ہے۔ حیرت ان لوگوں پر ہے،جو تین میں ہیں نہ تیرہ میں، گومشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں، عمران خان کی احتجاجی تحریک سے خوفزدہ یوں نظر آتے ہیں جیسے تحریک انصاف شریف برادران کے نہیں ان کے خوابوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے۔ 
تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کی مخالفت جرم نہیں‘ عمران خان سے اختلاف رائے ہر پاکستانی شہری کا حق ہے اور اسلام آباد کے گھیرائو کی کال پر اعتراض کرنے والوں کی نیت پر کسی کو شک نہیں۔ تاہم جمہوریت کی آڑ میں شخصی حکمرانی کا جواز ڈھونڈنا اور غیرجمہوری قوتوںکی مداخلت کا شور مچا کر کرپشن، بدانتظامی اور اقربا پروری پر پردہ ڈالنا سنگین قومی جرم ہے جو محض اس بنا پر قابل معافی یا لائق ستائش نہیںکہ مرتکب‘ سلطانی جمہور اور سول بالادستی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں اور حکومت کے ہر مخالف کی کردار کشی ان کا پیدائشی حق ہے۔
ایک طرف تو سرکاری اور غیر سرکاری بھونپو2 نومبر کو تحریک انصاف کی سیاست کے خاتمے کا دن اور اسلام آباد کوعمران خان کا واٹر لو قرار دے رہے ہیں اور فرینڈلی اپوزیشن بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہے، مگر دوسری طرف تیسری قوت کی مداخلت اور جمہوریت کے لیے خطرات کا ڈھنڈورا بھی پیٹا جا رہا ہے۔ جب دعویٰ یہ ہے کہ عمران خان کو عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے نہ وہ اسلام آباد کو بند کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ حکومت کے لیے کسی قسم کا خطرہ ہیں تو پھر حکمرانوں اور ان کے قصیدہ خوانوں کو عمران خان کی سیاست اور مستقبل کی فکر کیوں ہے؟۔ یہ عمران خان کے ہمدرد کب سے ہو گئے اور دھرنے کی متوقع ناکامی سے پریشان کیوں ہیں؟۔ سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں۔ جمہوریت تو خیر سے ہے ہی نہیں، جمہوریت میں حکمران عوام اور اپوزیشن کو جوابدہ ہوتے ہیں، فیصلے مشاورت سے کیے جاتے ہیں، شفافیت کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اورقانون کی نظرمیں شاہ و گدا، امیر وبے نوا دونوں برابر ہوتے ہیں۔کسی جمہوری ریاست میں ممکن ہی نہیں کہ عام آدمی کو اسپرین کی گولی میسر نہ ہو، سانحہ کوئٹہ کے شہداء کی میتیں ویگنوں کی چھتوں پر لاد کر گھروں کو پہنچائی جائیں اور غریب کے بچے ایم اے کی ڈگری ہاتھ میں لیے معمولی کلرک کی ملازمت کے لیے جوتیاںچٹخاتے پھر رہے ہوں مگر حکمرانوں کو چھینک بھی آئے تو بیرون ملک چیک اپ کرانے چل پڑیں، کھانے کی دیگیں لاہور سے اسلام آباد اور مری پہنچانے کے لیے سرکاری ہیلی کاپٹر استعمال ہوں ، بالادست طبقے کے نالائق و غبی بچے محض اثرورسوخ اور اقرباء پروری کی بنا پر اہم اداروں کے سربراہ بن جائیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیورو کریٹس ان کے سامنے ہاتھ کر باندھ کر کھڑے ہوں۔
یہ جمہوریت کی کونسی قسم ہے جس میں پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے کیے گئے وعدے ایفا نہیں ہوتے جو ایفائے عہد کا مطالبہ کرے اسے جمہوریت کا دشمن، غیر مرئی قوتوں کا آلہ کار اور قبضہ گروپوں ، لٹیروں کا سرغنہ کہہ کر بدنام کیا جائے۔ تھر میں سینکڑوں بچے مریں، وہاڑی ، سرگودھا اور لاہورکے ہسپتالوں سے بچوں کی لاشیں اٹھیں، کسی کو پروا نہیں۔ گلشن اقبال پارک لاہور میں بم دھماکے کے بعد پتہ چلے کہ ہسپتالوں میں مناسب طبی سہولتیں میسر نہیں، حکومت کو فکر ہے، نہ پارلیمنٹ کبھی نوٹس لیتی ہے۔ دشمن کے جاسوس پکڑے جائیں تو زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں، آئی ایم ایف کی ایم ڈی لیگارڈ اسلام آباد میں بیٹھ کر روز افزوں کرپشن کوغیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ قراردیں اور پاناما لیکس پر احتساب کا مطالبہ کریں تو سنی ان سنی کر دی جاتی ہے اور چار کروڑ پاکستانی شہریوں کے رات کو بھوکا سونے کا انکشاف ایک عالمی ادارہ کرے تو کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ مگر جونہی کوئی اس شرمناک اور جعلی جمہوریت کو بدلنے کا مطالبہ کرے تو کہرام مچ جاتا ہے، اور''جمہوریت پسندوں‘‘ پر تشنج کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔ ایسی خوفزدہ جمہوریت دنیا میں کہاں ملے گی جو کرکٹ کے کھلاڑیوں کے ڈنڈ بیٹھکوں (پش اپس) سے تھر تھر کانپنے لگتی ہے ۔اس پولیو زدہ جمہوریت کو عمران خان کچھ نہ کہیں ،تب بھی کتنی دیر تک چلے گی۔ یہ جمہورئیے خود لوگوں کا خون پیتے ہیں مگر دوسروں سے توقع کرتے ہیں کہ وہ بھوک ‘پیاس برداشت کریں اپنے بچوں کوگدلے پانی سے مہلک بیماریاں لگائیں اور صبر کریں، مگر حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکلیں نہ احتساب کے مطالبے پر توجہ دیں بس حکمران اشرافیہ کی بیرون ملک جائیدادوں اور کروڑوں ڈالر کے بینک اکائونٹس میں اضافے کے لیے خون پسینہ بہاتے رہیں۔
2013 سے اب تک حکمرانوں پر جب بھی برا وقت آیا۔ عمران خان ان کے اقتدار اور دھن دولت کے لیے خطرہ بنا تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ جمہوریت پسندوں نے کھل کر کمک پہنچائی۔ مگر آج تک چار کروڑ فاقہ کشوں، سکول نہ جانے والے اڑھائی کروڑ بچوں اور خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے دس کروڑ مفلسوں کے لیے کبھی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا نہ کسی نے بحث کی اور نہ قومی وسائل ان خاک نشینوں کے لیے وقف کرنے پر زور دیا۔ جن کے دم سے گلشن وطن شادآباد ہے۔ لٹیروں کا مواخذہ تو درکنار کسی نے آج تک یہ اپیل نہیں کی کہ بھلے لوگو! اپنا بیرون ملک کاروبار ہی پاکستان میں واپس لے آئو۔ دوسرے سرمایہ کاروں کو ترغیب ملے اور گھر کا پیسہ گھر میں رہے۔ کچھ لوگوں کو روزگار ملے گا، کوئی نہ کوئی انڈسٹری پھلے پھولے گی اور مخالفین کا منہ بند ہوگا مگر جس طرح ڈاکٹر طاہرالقادری نے تہیہ کررکھا ہے کہ دنیا ادھر کی ادھر ہوجائے وہ کینیڈا کی شہریت نہیں چھوڑیں گے۔ اس طرح حکمران اشرافیہ کی بھی ضد ہے کہ بیرون ملک دولت اور کاروبار وطن واپس لائیں گے، نہ انتقال اقتدار کا کوئی پرامن اور آسان آئینی راستہ کھلا چھوڑیں گے اور نہ احتساب کی روایت قائم کریں گے۔ خواہ رہی سہی بے فیض جمہوریت ہی اس ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ جائے۔
ویسے اسلام آباد اس لحاظ سے خوش نصیب شہر ہے کہ اسے کھلا رکھنے کے لیے ہر قومی ادارہ اپنا فرض اور کردار ادا کرتا ہے۔ باقی ملک میں حکمرانوں کی آمدورفت کے دوران پورا شہر‘ بدترین ٹریفک جام، ایمبولینسوں میں مریض بالخصوص خواتین اور بچے جاں بحق ہوں اور حفاظتی انتظامات کی وجہ سے کاروبار تباہ ہو جائے کسی کو پروا نہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے بطور اپوزیشن لیڈر وہ سب کچھ کیا جو ان دنوں عمران خان کر رہے ہیں مگر کسی نے یہ نہیں کہا کہ شہریوں کو آزادانہ، نقل و حرکت کا موقع فراہم کرنا آئین کا تقاضا ہے ۔ مگر اسلام آباد پر اُفتاد پڑی تو شور مچا کہ یہ روا نہیں۔ حکمران کسی کا جائز مطالبہ مانیں نہ مانیں ان کی مرضی، لوٹ مار روکنا ان کا فرض ہے نہ کسی کے سامنے جوابدہی کے یہ مکلف۔ حقیقی اپوزیشن البتہ ایسی کوئی حرکت نہ کرے جس سے اسلام آباد کے نازک حکمرانوں اور مکینوں کو زحمت ہو۔ کراچی، لاہور، کوئٹہ اور ملتان میں سب روا‘ اور عوام کا جمہوری حق ہے۔ جب عمران خان اپنی تباہی پرتلا ہے تو حکمرانوں اور پولیس و انتظامیہ پر جان کنی کی کیفیت کیوں طاری ہے؟۔ پورے پنجاب کی پولیس، بکتر بند گاڑیاں اور آنسو گیس کا ذخیرہ اسلام آباد جمع کرنے کی کیا تک ہے ۔ اسلام آباد میں یوتھ کنوشن پر ہلّہ بول کرکیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کے تھانہ کراچی کمپنی اور گولڑہ شریف کے انچارج نے ریستورانوں‘ ہوٹلوں‘ گیسٹ ہائوسز اور مارکی مالکان کو حکم دیا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو رہائش کے لئے کمرہ دیں گے‘ نہ کھانا اور نہ کسی اجتماع کے لئے ہال وغیرہ۔ جمہوریت کی پاسداری کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ کیا جمہوریت کے دلدادہ حکمرانوں اور تابعدار پولیس و انتظامیہ کے اعصاب جواب دے گئے‘ لاٹھی گولی کا دور واپس آ گیا۔یہ کمزور دشمن سے مقابلے کی تیاری ہے یا امن و امان کی صورت حال خراب کرکے غیرجمہوری مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی تدبیر؟خدانخواستہ یہ ہوگیا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ پولیس گردی اور من مانی کرنے والے یا احتجاج کا جمہوری حق استعمال پر بضد انصافیے۔ تحریک نجات، لانگ مارچ روا مگر کرپشن و اقربا پروری کے خلاف احتجاج غیر جمہوری، غیر آئینی، غیر قانونی ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ اعمال میں تھی

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں