چند ہفتوں میں ریلوے کا دوسرا حادثہ۔ پروفیسر احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق دوایسے وزراء ہیں جن کی دوسروں سے بہتر کارگزاری کا اعتراف میاں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ناقدین کرتے ہیں۔ ریلوے کے حادثات پر خواجہ صاحب مگر قابو نہیں پا سکے۔ ایسا نظام وضع نہیں کرپائے جس میں انسانی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ باقی نہ رہے۔ دنیا میں ریل سفر کا محفوظ ذریعہ ہے ہمارے ہاں سب سے زیادہ غیر محفوظ۔ ایک وجہ یہ کہ ریل گاڑیوں میں اب صرف غریب اور متوسط طبقہ سفر کرتا ہے جس کا کہیں کوئی پرسان حال نہیں۔
فرمایا'' جب کسی شخص کو وہ کام سونپ دیا جائے جس کے کرنے کا وہ ہے ہی نہیں تو قیامت کا انتظار کرو‘‘ جس کا کام اُسی کوساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ ہم پرروز قیامتیں گزر رہی ہیں مگر کسی کو پروا نہیں۔ خواجہ صاحب ریلوے کے وزیر ہیں مگر حادثے کے روز بھی وہ سپریم کورٹ کے باہر عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت مقدمے پر اظہار خیال فرما رہے تھے۔ گزشتہ ایک ہفتے سے وہ عمران خان کے لتے لے رہے ہیں، جس کا وزارت ریلوے سے سروکار، نہ وزارت اطلاعات خواجہ صاحب کے ماتحت۔ ایک نیک نام باپ کے ذہین وتجربہ کار سیاسی کارکن بیٹے کو کون سمجھائے کہ انہیں طلال چودھری اور دانیال عزیز کی سطح پر اترنے کی ضرورت ہے نہ یہ ان کا منصب ہے۔ ریلوے کی حالت بہتر بنا کر، حادثات کی روک تھام کرکے وہ حکومت اور قوم کی زیادہ بہتر انداز میں خدمت کرسکتے ہیں۔
لوگ حیران ہیں کہ ریاست، حکومت اور قوم نے جس شخص کو جو کام سونپا وہ اس پر توجہ دینے کے بجائے ان امور پر گوہرافشانی میں مشغول رہتا ہے‘ جواس کے دائرہ کار میں نہیںآتے۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ''را‘‘ کا ایک نیٹ ورک پکڑا گیا۔ یہ برسوں سے سرگرم عمل تھا۔ مگر چندہ خور این جی اوز اور بعض صحافتی اداروں کے ذریعے بھارتی بیانیے کی ترویج میں مصروف اس نیٹ ورک کے خلاف وزیردفاع خواجہ آصف نے تاحال اظہار خیال کی زحمت گوارا نہیں کی مگر عمران خان کے جلسے اور پاناما سکینڈل میں شریف خاندان کے دفاع کا حق خوب ادا کیا۔ یہی پاکستان کا المیہ اور قومی بدقسمتی ہے کہ جس کے ذمے جو کام ہے وہ کرنے کو تیار نہیں ۔
پاناما لیکس کا معاملہ عدالت عظمی کے سپرد ہونے کے بعد حکومت اور کابینہ کے ارکان کو سنجیدگی سے اپنے اصل فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی پر توجہ دینی چاہیے جب ان کا مقدمہ مضبوط ہے تو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ۔ لیکن عدالت عظمیٰ کی واضح ہدایت کے باوجود جمعرات کے روز تک میاں صاحب کے بچوں کی طرف سے جواب دعویٰ داخل نہ کرنا، حیرت انگیز ہے۔ یہ تاخیری حربہ ہے، عدالت عظمیٰ کو اہمیت نہ دینے کی سعی یا کچھ اور؟ کیا شریف خاندان کو یقین تھا کہ عدالت عظمیٰ ان کی ہر خواہش کی تکمیل کرے گی اور مہلت حاصل کرکے سنگین سے سنگین معاملے کو پس پشت ڈالنے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ کوآپریٹو سکینڈل،2013ء کے انتخابات میں دھاندلی سکینڈل سے انہوں نے ایسے ہی چھٹکارا پایا۔
شریف برادران اپنی جگہ سچے ہیں۔ انہیں بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری جیسے حریف ملے جنہیں پنجاب میں بھرپور پذیرائی حاصل تھی نہ سول وسکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی اور نہ ذاتی کردار اس قدر اجلا کہ پاکستان کا پڑھا لکھا اور مغربی معیار کی جمہوریت کا خواہش مند طبقہ انہیں کمک فراہم کرسکتا۔ پہلی بار میاں صاحبان کا ایک ایسے حریف سے واسطہ پڑا ہے ''جو حساب لو، حساب دو ‘‘کا نعرہ لگاتا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی ساکھ اور مقبولیت کی بنا پر وہ کردار کشی اور الزام تراشی کی ہر مہم کو اب تک ناکام و بے اثربنا چکا ہے۔ ''ضدی‘‘ اور ''ہٹ دھرم‘‘ اتنا کہ سات ماہ گزر گئے کرپشن کے پاناما سکینڈل کو عوام کی یادداشت سے محو ہونے دیا نہ دوسرے ایشوز کی دھول میں گم۔ حالانکہ یہ ہماری قومی روایت ہے اور اس کا فائدہ میاں نواز شریف ، محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سمیت ہر سیاستدان نے خوب اٹھایا۔اپنے خلاف مقدمات معرض التوا میں ڈال کر حکومت میں آنے کا انتظار اور دوران حکومت مرضی کے فیصلے حاصل کرکے اپنی بے گناہی کا پروپیگنڈا جس پر لوگ بھی یقین کرلیتے ہیں۔
دیگر کائیاں سیاستدانوں کی طرح میاں نواز شریف نے پاکستانی عوام اور سیاست کا مزاج خوب سمجھا اور پنجاب کی علاقائی عصبیت کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے یہاں کی بالا دست بیورو کریسی ، پولیس، تاجر و سرمایہ دار اشرافیہ اور دانشور طبقہ کو اپنا ہمنوا بنالیا۔ اعلیٰ عدلیہ میںبھی بیشتر جج وہ ہیں جوماضی کے طریقہ کار کے مطابق میاں صاحب کے دور حکمرانی میں تعینات ہوئے۔ یہ طبقات شریف خاندان کے اردگرد حفاظتی حصار قائم کرتے اور عمران خان جیسے مخالفین کے حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں، عمران خان اس اشرافیہ کلب میں دراڑیں ڈالنے کی جدوجہد کر رہا ہے، 2014ء میں وہ ناکام رہا۔ جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمشن نے ایک تحقیقاتی اور تفتیشی کمشن کے بجائے دیوانی عدالت کا کردار ادا کیا مگر اب عمران خان اس حد تک بہرحال کامیاب نظر آتا ہے کہ ماضی کے برعکس عدالت عظمیٰ نے سیاسی و مالیاتی معاملے کو نمٹانے کا بیڑا اٹھایا۔ اُمید یہ کی جا رہی ہے کہ موجودہ عدلیہ جسٹس منیر‘ جسٹس انوار الحق‘ جسٹس ارشاد حسن خان کو رول ماڈل نہیں سمجھتی اور ملک کے موجودہ سیاسی بحران کے علاوہ تصادم کی فضا کا مکمل ادراک رکھتی ہے، فوجی مداخلت کے اسباب اور مضمرات سے بھی واقف ہے۔یہ صرف عمران خان کی جدوجہد کا ثمر نہیں ایک وجہ اور بھی ہے فوج وہ واحد ادارہ ہے جو تاحال سول بالادستی کے نام پر حکمرانوں کا تابع مہمل نہیں بنا۔ یہ ادارہ علاقائی ‘نسلی، لسانی اور مسلکی تعصبات سے بڑی حد تک پاک ہے اور پولیس اور دیگر اداروں کی طرح حکمرانوںکے جیب کی گھڑی ، ہاتھ کی چھڑی بننے پر تیار نہیں۔ خیبرپختونخوا کے منتخب وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو اپنے ساتھیوں سمیت پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں داخلے سے روکنے کے لیے پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس مشتاق سکھیرا نے برہان انٹرچینج پر اپنی نگرانی میں جس طرح پولیس فورس کو استعمال کیا حکمران یہی توقع دفاع وطن کے ادارے سے بھی رکھتے ہیں مگروہ آمادہ نہیں۔ اسی باعث میاں صاحب کی آج تک کسی آرمی چیف سے نہیں بنی۔
پاناما لیکس اور نیوز لیکس کے معاملے پر حکومت کو جس خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہ حکمرانوں کی جدیدسماجی و سیاسی رجحانات اور تلخ زمینی حقائق سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔ میاں نواز شریف ابھی تک آزاد عدلیہ، فعال میڈیا اورایٹمی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی آٹھویں بڑی فوج کی موجودگی میں حقیقی اپوزیشن اور صوبوں کے ساتھ معاملات طے کرنے کی روش اپنانے پر آمادہ نہیں اور دونوں سنگین معاملات کو عدل و انصاف کے تقاضوں کے بجائے کچھ لو اور کچھ دوکے اصولوں کی بنیاد پر نمٹانے کے خواہش مند ہیں اور یہی وہ انداز فکر ہے جس نے انہیں عدالت عظمیٰ کے سامنے اس حال میں لاکھڑا کیا ہے کہ تاخیری حربہ بھی کامیاب ہوتانظر نہیں آ رہا۔ سات ماہ کی مہلت انہوں نے احتساب سے بچنے کی سعی میں ضائع کر دی اس دوران وہ ڈھنگ کا کوئی کام کرسکے نہ ملک استحکام سے ہمکنار ہوسکا۔ کابینہ کے بیشتر ارکان بھی اپنے فرائض پر توجہ دینے کے بجائے شریف خاندان کے دفاع میں مگن رہے۔ نتیجہ سامنے ہے کہ جن شعبوں میں بہتری آ رہی تھی وہ بھی ابتری کا شکار ہوگئے۔ ریلوے کے بار بار حادثات اس سلسلے کی معمولی کڑی ہیں ورنہ وفاقی کابینہ میں پروفیسر احسن اقبال اور خواجہ سعد رفیق کام کے آدمی ہیں۔ اپنے کام میں مگن رہیں تو بہتری لا سکتے ہیں مگر پھر شریف خاندان کا دفاع کون کرے گا؟ دانیال عزیز اور طلال چودھری کی ساکھ کیا ہے؟ پرویز رشید ، مشاہد اللہ خان کی طرح قربانی کا بکرا بن گئے۔ اصل قربانی سے پہلے معلوم نہیں اور کون کون چھری کے نیچے آئے ؟۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔
میڈیا پر ایک اشتہاردیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران عدالت عظمیٰ کے متوقع فیصلے سے خوفزدہ ہیں۔ یہ اشتہار عمران خان کے خلاف نہیں کسی اورکودبائو میں لانے کا حربہ ہے۔1997ء میں موٹر وے کا افتتاح سید سجاد علی شاہ اور جہانگیر کرامت دونوں کے لیے بدشگونی کا باعث بنا‘ خدا خیر کرے۔