مالِ مفت دلِ بے رحم

وفاقی وزیروں‘ مشیروں اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 124 فیصد اضافے کا فیصلہ قابل اعتراض‘ مگر فیصلے کا جواز حیرت انگیز ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ اگر تنخواہوں میں اضافہ نہ ہوا تو ارکان‘ پارلیمنٹ کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے اور حکومت کو کسی وقت شرمندگی کا سامنا پڑ سکتا ہے۔
رواں سال مئی میں روزنامہ دنیا اسلام آباد کے زیر اہتمام بجٹ سیمینار میں وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار کے کلیدی خطاب سے قبل میں نے ان کی توجہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں اور مراعات میں مناسب اضافے کی طرف دلائی‘ اور کہا تھا کہ یہ بے چارے ارکان اسمبلی کی طرح اپنی تنخواہوں میں راتوں رات اضافہ کر سکتے ہیں‘ نہ اپنے نمائندوں کو اس بات پر مجبور کہ وہ کبھی کبھی ایوان میں ان کے حقوق و مراعات کا معاملہ بھی اٹھا لیا کریں۔ اسحق ڈار صاحب نے ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی حمایت تو کی‘ مگر یہ وضاحت فرمائی کہ وزیر اعظم اضافے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس ضمن میں انہوں نے بیوروکریسی کی تنخواہوں اور مراعات کا موازنہ ارکان پارلیمنٹ کے ماہانہ مشاہرے سے کیا۔
بلاشبہ عوامی نمائندوں کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت نکال کر‘ بیوی بچوں کو اکیلا چھوڑ کر‘ وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں قدم رنجہ فرماتے اور اپنے حلقہ نیابت کا حق خدمت ادا کرتے ہیں‘ مگر یہ عوامی خدمت گار پورے سال میں کتنے دن منتخب ایوانوں میں حاضر ہوتے‘ قانون سازی میں بھر پور حصہ لیتے اور وہاں بیٹھ کر کتنی بار لب کشائی فرماتے ہیں؟ یہ سوال اگر ان سے کیا جائے تو استحقاق مجروح ہونے کا خطرہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے چند ارکان کے سوا‘ جو پارلیمانی معاملات میں دلچسپی لیتے‘ تحاریک التوائے کار پیش کرتے‘ بڑھ چڑھ کر بولتے‘ اور اپنے انتخاب کو درست ثابت کرتے ہیں‘ اکثریت کا حال پتلا ہے۔ ایسے ارکان بھی موجود ہیں جو یہ قسم کھا کر ایوان میں داخل ہوتے ہیں کہ کبھی لب کشائی نہیں کریں گے۔ شاید انہوں نے فارسی کا یہ محاورہ سن کر حرزِ جان بنا رکھا ہے: تا مرد سخن نگفتہ باشد‘ عیب ہُنرش نہفتہ باشد (جب تک کوئی شخص زبان نہیں کھولتا‘ اس کی خوبیاں اور خامیاں چھپی رہتی ہیں) باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اسی بنا پر ایک شخص سے کہا ''کچھ بولو تاکہ پہچانے جائو‘‘ علاقائی سطح پر پہچان‘ اثرورسوخ‘ رعب و دبدبے کے لیے یہ عوامی نمائندے کروڑوں روپے نہیں تو لاکھوں خرچ کرتے اور ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے سے منتخب ہوتے ہیں‘ مگر جہاں انہیں بولنا چاہیے وہاں خاموش رہتے ہیں؛ البتہ سرخ سگنل پر کوئی گستاخ وارڈن انہیں روک لے‘ سرکاری دفتر میں کوئی ایماندار افسر سفارش نہ مانے اور کوئی پولیس افسر سیاسی مخالفین کے خلاف اندراج مقدمہ میں لیت و لعل سے کام لے تو خوب بولتے اور بندہء گستاخ کو سزا دلا کر چھوڑتے ہیں۔
موجودہ اسمبلیوں میں ایسے ارکان اسمبلی موجود ہیں جو بطور رکن اسمبلی اپنی تنخواہ میں گزارا اور قومی خزانے سے ملنے والے مشاہرے کو حلال کرتے ہیں‘ اکثر و بیشتر مگرکروڑ پتی‘ جاگیردار‘ وڈیرے‘ سرمایہ دار اور تاجر ہیں۔ اضافے کے بعد ملنے والا مشاہرہ ان کے یومیہ اخراجات سے بھی کم ہے مگر اضافے کے مطالبہ میں یہ بھی پیش پیش ہیں اور چند ماہ پیشتر جب تنخواہوں میں اضافے کی قرارداد پیش ہوئی تو تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی کے ارکان نے بھی آنکھیں بند کرکے حمایت کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ پہلے سرکاری ملازمین اور پنشنروں کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے‘ پھر اگر قومی بجٹ میں گنجائش ہو تو ہمارے بارے میں بھی سوچا جائے۔ اگر اسمبلیاں حکومت کی رہنمائی اور حکمرانوں کے احتساب کا فرض خوش اسلوبی سے انجام دے رہی ہوں‘ عوام دوست پالیسیوں کی تشکیل میں ان کا جاندار کردار ہو اور عوامی خدمت پر مامور اداروں کی نگرانی میں ہمہ تن مصروف ہوں تو ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں ایک سو چوبیس فیصد کیا دو سو پچاس فیصد اضافے پر بھی کسی کو اعتراض نہ ہو‘ مگر عوام کو پتہ چلے کہ اہم ترین مواقع پر‘ مثلاً بھارتی مسلّح جارحیت اور جنگ کے خطرے کے موقع پر بھی قومی اتحاد و یکجہتی اجاگر کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاس میں کورم پورا کرنا مشکل ہے‘ تو تنخواہوں میں یکبارگی ایک سو چوبیس فیصد اضافے کا سن کر عوام جھرجھری ضرور لیں گے کہ آخر اس کا جواز کیا ہے؟ قوم کے اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک اکائونٹس اور جائیدادوں میں اضافہ کرنے والوں سے باز پرس تو درکنار‘ ان کو اخلاقی طور پر دبائو میں لانے کے لیے بھی سپریم ادارے کا کردار صفر ہے‘ تھر میں سینکڑوں بچے غذا کی کمی‘ پیاس اور بیماریوں سے مریں‘ پنجاب کے ہسپتالوں میں غلط ادویات کی سپلائی سے اموات واقع ہوں یا آلودگی میں اضافہ سے سموگ ہزاروں انسانوں کو بیماریوں میں مبتلا کر دے‘ پارلیمنٹ نے کبھی کسی کو ذمہ دار ٹھہرایا‘ نہ مستوجب سزا سمجھا اور نہ ہی قانون سازی کے ذریعے روک تھام کی سعی کی۔ کبھی قرارداد مذمت بھی منظور نہ ہوئی کہ عوام کی خیر خواہی کا تاثر اُبھرے۔
سیاستدان اور ان کے اندھے حمایتی رونا روتے ہیں کہ ملک میں جمہوری ادارے کمزور ہیں اور ان پر بے رحمانہ تنقید ہوتی ہے لیکن اپنے گریبان میں جھانکنے کی توفیق کسی کو نہیں کہ جب پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے پر حکمران پارلیمنٹ کے سامنے اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرنے کے بعد سات ماہ تک متفقہ ٹی او آرز کے تحت جوڈیشل کمشن بنانے پر آمادہ ہوں نہ پارلیمنٹ ان سے پوچھنے کی روادار کہ حضور! آپ کے فلور آف ہائوس پر کیے گئے عہد و پیمان کا کیا بنا؟ جب تحریکِ انصاف‘ جماعتِ اسلامی کی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے کر عدالت عظمیٰ مقدمہ سننے لگے تو اچانک حکومت کو آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت حاصل عدالت عظمیٰ کے اختیارات فیئر ٹرائل کے تقاضوں سے متصادم نظر آنے لگیں اور وہ فرینڈلی اپوزیشن کو ساتھ ملا کر 24ویں آئینی ترمیم منظور کرانے پر تل جائے اور کوئی سرکاری رکن اسمبلی یہ پوچھنے کی جرأت بھی نہ کرے کہ 1973ء سے آئین میں شامل اس شق کو اب تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟ کیا یہ شخصی و خاندانی مفاد کا معاملہ نہیں؟ تو پھر جمہوریت اور جمہوری اداروں کی کمزوری کا ذمہ دار کون ہے؟
غربت و افلاس کی چکی میں پسے بھوک‘ پیاس اور بیماری سے موت کے منتظر اور ڈگریاں لے کر تلاش روزگار میں جوتیاں چٹخاتے نوجوان بھلا کروڑ پتی ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے خوش کس طرح ہو سکتے ہیں اور انہیں جمہوریت کے نام پر بے وقوف مزید کتنے عرصہ تک بنایا جا سکتا ہے۔
تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ جائز سہی مگر اسے منوانے کے لیے پارلیمنٹ کے اجلاسوں سے غیر حاضری اور حکومت کو شرمندگی سے دوچارکرنے کی دھمکی؟ کیا میاں نواز شریف کی اپنی پارلیمانی پارٹی پر گرفت واقعی کمزور پڑ گئی؟ کیا بیرون ملک اثاثوں اور افراد خانہ کے متضاد بیانات نے حکمرانوں کی اخلاقی ساکھ اس قدر مجروح کی کہ بادشاہ سلامت کی ایک جھلک دیکھنے اور ہاتھ ملانے کے لیے بے تاب ارکان اب حاضری لگوانے اور کورم پورا کرنے کے روادار بھی نہیں؟ نوبت باینجا رسید کہ تنخواہوں اور مراعات میں اضافے سے عوامی نمائندوں کو رام کیا جا رہا ہے مبادا وہ تحریک انصاف کا رخ نہ کر لیں یا آئین میں چوبیسویں ترمیم کی منظوری کے وقت کوئی اور گل نہ کھلائیں؟
کیا مسلم لیگ واقعی بکھر رہی ہے اور یہ اضافہ داخلی انتشار کو روکنے کی تدبیر ہے؟ برادرم ہارون رشید حکمرانوں کی شیلف لائف ختم ہونے کی پیش گوئی کرتے ہیں‘ کیا ارکان اسمبلی بھی یہی سوچنے لگے ہیں کہ انہیں راضی کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ برادرِ عزیز قیوم نظامی تھوڑی دیر پہلے اپنی تازہ تصنیف معاملاتِ عمر فاروقؓ دے گئے۔ بائیس لاکھ مربع میل رقبے کے حکمران امیرالمومنین کا یہ فرمان پڑھ کر مجھے عوامی نمائندوں اور حکمرانوں کے اندازِ فکر پر حیرت ہوئی۔ فرمایا ''خدایا! اس قوم کا کیا حشر ہو گا جو اپنے آپ کو اپنے ملازموں پر ترجیح دیتی ہے‘‘۔ سرکاری خزانے سے کم مشاہرے اور عام آدمی سے بھی کمتر اخراجات کے حوالے سے آپ کا نقطہ نظر یہ تھا ''اگر مجھ پر وہ نہ گزرے جو عوام پر گزرتی ہے تو مجھے ان تکلیفوں اور پریشانیوں کا احساس کیسے ہو سکتا ہے اور جب مجھے ان کا احساس ہی نہیں ہو گا تو میں انہیں رفع کرنے کی فکر کیسے کروں گا‘‘ یہ مگر ماضی کی باتیں ہیں۔ جیبیں بھرنے اور زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کی دوڑ میں کوئی‘ کسی دوسرے سے پیچھے کیوں رہے۔ مالِ مفت دلِ بے رحم۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں