سُبکی

اس قدر احساس کمتری اور غیر حکیمانہ سفارتی طرز عمل! تیسری بار وزیر اعظم بننے والے شخص کو زیب نہیں دیتا مگر انسان اپنی جبلّت کا اسیر ہے اور میاں نواز شریف اس سے مستثنیٰ نہیں۔
امریکی انتخابات میں پاکستان کی دلچسپی فطری تھی‘ ہم اس کے اتحادی ہیں اور خطے میں امریکی پالیسیوں سے براہ راست متاثر بھی۔ افغانستان کی جنگ ہمارے گلے پڑ چکی ہے اور بھارت امریکہ کی انگلی پکڑ کر ہمارے ہمسایہ ملک میں قدم جما رہا ہے۔ ہر امریکی انتخاب میں پاکستان کی حکومت اور وزارت خارجہ مدّمقابل صدارتی امیدواروں سے یکساںروابط بڑھاتی اور مستقبل کی صورت گری کرتی ہے مگر اس بار معلوم نہیں کس احمق نے ہماری سفارتی کور اور حکومت کو یہ باور کرا دیا کہ میاں نواز شریف کے جگری یار بل کلنٹن کی اہلیہ محترمہ ہلیری کلنٹن ہی آئندہ امریکی صدر ہوں گی، لہٰذا ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بارے میں سوچنے اور اس کے قریبی احباب سے سلسلہ جنبانی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے وزیر اعظم کو امریکہ میں اپنے ذاتی دوستوں کا سہارا لینا پڑا جن کی کوششوں سے میاں نواز شریف اور ٹرمپ کے مابین فون پر رابطہ ہوا۔
یہ میاں صاحب کا لائق تحسین اقدام تھا اور قومی خدمت ۔ بھارت پر ریجھے نومنتخب امریکی صدر اگر پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی بات سنتے اور انتخابی مہم کی تلخیاں بھلا کر پاکستان کے بارے میں مثبت انداز میں سوچتے ہیں تو عام پاکستانی کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے مگر ٹیلی فونی رابطے کے بعد حکومت پاکستان نے جو پریس ریلیز جاری کی وہ بے احتیاطی‘ احساس کمتری اوربد ذوقی کا مظہر تھی‘ پاکستان مخالف امریکی میڈیا نے جس کا کھل کر مذاق اڑایا‘ میاں نواز شریف کے علاوہ ڈونالڈ ٹرمپ کے لتّے لیے اور سفارتی آداب کی خلاف ورزی قرار دیا۔ وائٹ ہائوس کو اس سے اظہار لاتعلقی کرنا پڑا اور نومنتخب امریکی صدر کی ٹرانزیشن ٹیم نے کہا: ''پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں ایسی باتیں ٹرمپ سے منسوب کی گئیں جو کہنا ان کا مقصد نہیں تھا‘‘۔ امریکی میڈیا کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ وہ بھارت نواز ہے اور ٹرمپ کا مخالف مگر ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم کی وضاحت سے میاں نواز شریف سے زیادہ پاکستان کی بے عزتی ہوئی۔ پاکستان کو ایک ایسا ملک قرار دیا گیا جسے سفارتی آداب کا علم ہے نہ دو سربراہان مملکت کے مابین بات چیت کی پریس ریلیز جاری کرنے کا سلیقہ اور نہ اس بات کا ادراک کہ حلف برداری سے قبل امریکی صدر سے گفتگو کے تقاضے کیا ہیں۔
1999ء میں میاں نواز شریف واشنگٹن گئے تو ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا جس سے ہمارے حکمرانوں‘ سفارتی کور اور تعلقات عامہ کی ریاستی ٹیم کی اُفتاد طبع بے احتیاطی اور کور ذوقی ظاہر ہوئی۔ پاکستان کے اخبارات میں ایک تصویر اور خبر تزک و احتشام سے چھپوائی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ صدر کلنٹن اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین باضابطہ مذاکرات کے بعد اچانک امریکی صدر نے اپنے دوست سے پوچھا: ''میں نے تو سنا تھا کہ آپ کی بیگم صاحبہ بھی ساتھ ہیں۔ وہ کہاں ہیں؟ ہلیری کلنٹن ان سے ملنے کی متمنّی ہیں‘‘۔ میاں صاحب نے بتایا کہ وہ بچوں کے ساتھ شاپنگ میں مصروف تھیں‘ یہاں نہیں آ سکیں۔ چنانچہ دوسرے دن میاں صاحب اپنے افراد خانہ کے ساتھ صدارتی خاندان سے ملے۔ تصویر میں صدارتی جہاز نواز کلنٹن خاندان کے عقب میں نظر آ رہا تھا۔ خبر اور تصویر کی اشاعت کے بعد امریکی سفارت خانے نے وضاحت جاری کی کہ پاکستان کے حکمران خاندان کو 
صدر کلنٹن نے ناشتے پر ملاقات کی دعوت دی نہ کسی سے بطور خاص ملنے کی خواہش ظاہر کی‘ البتہ فوٹو سیشن کی خواہش میاں صاحب نے ظاہر کی تھی جو ایئر پورٹ پر پوری کی گئی۔ وضاحت شائع ہونے پر اسلام آباد میں ویسی ہی خاموشی چھا گئی جیسی گزشتہ دو روز سے چھائی ہے۔ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے منہ میں تو وزیر اعظم نواز شریف کے بارے میں''اچھی ساکھ‘‘ کے الفاظ ڈالے گئے، نوے کے عشرے میں سعودی بادشاہ کے منہ میں اس سے بھی زیادہ تعریفی کلمات ڈال کر ایک ایسی نیوز ایجنسی سے خبر چلوائی گئی جو تازہ تازہ لانچ ہوئی تھی۔ سعودی حکومت نے وضاحت کی تو نیوز ایجنسی کے مالک، شریف النفس صحافی کو دوستوں کے سامنے شرمندہ ہونا اور ہر آنے جانے والے سے بار بار شعیب بن عزیز کا مصرعہ سننا پڑا ع
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے کچھ بُراکیا نہ کہا‘ ڈونالڈ ٹرمپ کا سیاسی پس منظر ہے نہ تجربہ اور نہ سفارتی تربیت۔ وہ کارپوریٹ کلچر کا آدمی ہے جہاں مخاطب کے لیے توصیفی کلمات کی ادائیگی معمول کی بات ہے۔ اپنی تعریف کسے بری لگتی ہے، جو شخص مخالفین میں گھرا ہے‘ طرح طرح کے الزامات کا ہدف اور شہرت و نیک نامی دائو پر لگی ہے، وہ توصیفی کلمات سے خوش کیوں نہ ہو گا۔ امریکی صدر کی حوصلہ افزا گفتگو سے اندرون ملک اس کی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے تو اندھے کو اور کیا چاہیے‘ دو آنکھیں۔ برا میاں صاحب کی میڈیا ٹیم نے کیا یا پھر وزارت خارجہ نے جو پریس ریلیز جاری کرتے وقت یہ سوچنا بھول گئی کہ امریکی صدر کے مُنہ میں ڈالے گئے کون سے الفاظ ہضم ہو سکتے ہیں اور کون سی بات بتنگڑ بن جائیگی۔ میاں صاحب نے تو نیک نیتی اور قومی جذبے سے اپنے ساتھیوں کو بات چیت کی تفصیل بتائی ہو گی‘ یہ مشیروں اور پریس ریلیز نویسوں کا فرض تھا کہ وہ احتیاط کے تقاضے ملحوظ رکھتے اور کوئی ایسی بات نہ لکھتے جس پر وائٹ ہائوس اور ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم کو وضاحت جاری کرنا پڑے اور پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کی سبکی ہو۔اگر شرمندہ ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو کم از کم مسئلہ کشمیر کو پریس ریلیز میں ڈالا جاتا کہ امریکی صدر نے حل کرانے کا وعدہ کیا ہے مگر یہ دُور کی کسی کو نہ سوجھی۔
بات امریکی میڈیا تک رہتی تو کوئی حرج نہ تھا کہ ہم اسے بھارت کی حاسدانہ کوششوں اور معاندانہ پروپیگنڈے کا شاخسانہ قرار دے کر بھول جاتے مگر ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم نے وضاحت جاری کر کے حکمران ٹولے کی ساری محنت اکارت کر دی۔ قطری خط کے بعد ٹرمپ کارڈ سے اس کی جو ساکھ بنی تھی‘ وہ غارت ہو گئی اور ناقدین کو طرح طرح کی باتیں بنانے کا موقع مل گیا۔ عمران خان اور اس کے وکیل نعیم بخاری اور بابر اعوان پورا زور یہ ثابت کرنے پر لگا رہے ہیں کہ میاں صاحب کی تقریروں‘ بیانات اور دعوئوں میں تضاد پایا جاتا ہے اور ان پر اعتبار کرنا ممکن نہیں۔ ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کی طرح ٹرمپ سے گفتگو کی پریس ریلیز پر بھی لیبل لگ گیا ہے کہ یہ محض ایجاد بندہ اور اسلام آباد کی اختراع ہے اور ٹرمپ سے وہ باتیں منسوب کی گئیں جو کہنا ان کا مقصد نہ تھا۔
تاہم مخالفین خاطر جمع رکھیں، اس منفی پروپیگنڈے اور وضاحتی بیانات سے میاں صاحب کی صحت پر کوئی فرق پڑا‘ نہ حکومت کی سبکی ہوئی۔ جس ملک میں حکمران خاندان کے مردو زن کی مالی دیانت و امانت‘ قانون پسندی اور لین دین پر اعلیٰ عدالتوں میں لے دے ہو رہی ہو، ہر محفل میں یہی موضوع سخن اور لطائف کا محور ہو، وہاںاتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اہمیت کون دیتا ہے۔ ''آپ جب چاہیںفون کر سکتے ہیں‘‘ کو احساس کمتری کا مظہر اور سبکی کون سمجھتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے موٹی کھال کے حکمران''چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے‘‘ کے فلسفے پرعمل پیرا ہیں۔ امریکی میڈیا کی تنقید اور ٹرمپ ٹرانزیشن ٹیم کی وضاحت سے کون سا مے فیئر کے فلیٹس کی قیمت گری یا ذاتی اثاثوں اور مختلف کمپنیوں کے شیئرز پر منفی اثر پڑا کہ کوئی پریشانی لاحق ہو۔ دوسرے موضوعات کی طرح یہ معاملہ بھی دو چار دن بعد طاق نسیاں پر پڑا، کمزور قومی یادداشت کو دعائیں دے رہا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں