"IMC" (space) message & send to 7575

صدر زرداری کا عزم

گیارہ مارچ کو صدر آصف علی زرداری اور صدر محمود احمدی نژاد زیروپوائنٹ گبدز کے مقام پرپاک ایران گیس پائپ لائن کا افتتاح کریں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ اگلے پندرہ ماہ میں پاکستان کو گیس کی سپلائی شرو ع ہوجائے گی۔صدر زرداری نے اپنی حکومت کے آخری ہفتوں میں یہ معاہدہ کرکے اپنے حامیوں اور مخالفین کو یکساں طور پر حیران کردیا۔پیپلزپارٹی اور خاص طور پر صدر زرداری کی امریکیوں سے قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔امریکی حکام نے واضح طورپرکہا :یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ کرے۔پاک ایران گیس پائپ لائن پابندیوں کی زد میں آتی ہے۔ان خطرات کے باوجود صدر زرداری نے ایران سے گیس خریدنے کا معاہد ہ کیا‘ جو پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کا اظہار ہے۔ جہاں تک امریکی پابندیوں کا تعلق ہے ۔خارجہ امور کے ماہرین کی رائے ہے کہ امریکا افغانستان میں بری طرح پھنسا ہواہے۔ پاکستان کے راستے اپنی افواج اور جنگی سازوسامان کا انخلاء شروع کرچکاہے۔پاکستان کی مدد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ بھی تعلقات میں نمایاں بہتری آچکی ہے لہٰذا امریکا پاکستان کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ امریکی صدر بارک اوباما نے دفاع اور خارجہ امور کی جو ٹیم تشکیل دی ہے وہ ماضی کے برعکس صلح جFو شخصیات پر مشتمل ہے۔وزیرخارجہ جان کیری کا شمار پاکستان کے دوستوں میں ہوتاہے جبکہ وزیردفاع چک ہیگل بھی جنگ مخالف سیاستدان ہیں۔انہیں امریکا میں ایک معتبر سابق فوجی کمانڈر اور سیاستدان کے طورپر جانا جاتاہے۔ہیگل کہتے ہیں کہ فوجی کارروائی اور اقتصادی پابندیاں صرف اسی وقت لگائی جانی چاہئیں جب تمام سفارتی اور سیاسی راستے بند ہوجائیں۔ گزشتہ برس انہوں نے کہا : بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک دوسرے محاذ کے طور پر استعمال کرتاہے ۔وہ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے لیے وہاں پیسہ خرچ کرتاہے۔اس قدر جرأت مند اورآزادمنش وزیردفاع کی موجودگی میں پاکستان کے تزویراتی ماہرین کا تجزیہ ہے کہ وہ پاکستان کے لیے مشکلات نہیں پیدا کریں گے۔ اسلام آباد میں امریکی حکام سے قریبی روابط رکھنے والے مبصرین مثال دیتے ہیں کہ افغان جہاد (1979-1988)کے دوران صدر جنرل ضیاء الحق نے ایٹمی پروگرام پر کام جاری رکھا۔ اس وقت کے امریکی صدر ریگن اور بعد ازاںصدر جارج بش ہر برس کانگرس میں سرٹیفکیٹ پیش کرتے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیار نہیںبنا رہا۔پاکستان سوویت یونین کے خلاف جاری جہاد ی سرگرمیوں کا مرکز تھا لہٰذا وہ اس کے ایٹمی پروگرام کو نظرانداز کرتے رہے۔جب سوویت یونین افغانستان سے نکل گیا تو پریسلر ترمیم کے ذریعے پاکستان پر اقتصادی اور فوجی پابندیاں عائد کردی گئیں۔اس وقت امریکا فوجی انخلاء کے لیے پاکستان پر انحصارکرتا ہے ‘لہٰذا گیس پائپ لائن بچھانے کا یہ بہترین وقت اور موقع ہے۔ توانائی کے بحران نے پاکستان کی اقتصادیات کا بیڑا غرق کردیا ہے ۔پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کی کمی ہے۔ایک تہائی آبادی کو بجلی اور گیس دستیا ب ہی نہیں۔جہاں بجلی دستیاب ہے وہاں کئی کئی گھنٹے لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔کل آبادی کے اکیس فیصد کا انحصار گیس پر ہے۔چھوٹی بڑی گاڑیاں گیس پر منتقل کی جاچکی ہیں ۔گیس کی کمی کے باعث ہفتے میں کئی کئی دن سی این جی پمپ بند رہتے ہیں۔امریکا کا موقف ہے کہ پاکستان ترکمانستان ‘افغانستان‘پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ پر توجہ مرکوز کرے۔افغانستان میں جاری بدامنی کے باعث پاکستان نے اس منصوبہ میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔علاوہ ازیں ابھی تک اس منصوبے کی تکنیکی معلومات تک جمع نہیں کی جاسکتی جبکہ ایرا ن پائپ لائن کو پاکستان کی سرحد تک پہنچا چکاہے۔ ایران اور امریکا کے مابین عشروں سے جاری کشیدگی اپنے عروج پرہے۔1996ء سے ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو گزشتہ برس مزید موثر بنانے کے لیے امریکا اور یورپی یونین نے قانون سازی کی۔اس کے باوجود ترکی اور بھارت سمیت کئی ممالک ایران سے کاروبارجاری رکھے ہوئے ہیں۔مارچ 2012ء میں صدر اوباما نے جاپان اور دس یورپی ممالک کو ایران سے کاروبار اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔ آج تک ایران پر عائد پابندیوں پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوسکا۔اس پس منظر میںیہ امید کی جاسکتی ہے کہ امریکا یایورپی یونین پاکستان کے لیے زیادہ مسائل پیدا نہیں کرے گی۔ ایران چاہتاہے کہ وہ خطہ میں امریکی بالادستی کو تجارتی اور کاروباری روابط بڑھا کرغیر موثر کرے ۔ چین ہی نہیں پاکستانی مالیاتی اداروں تک نے گیس پائپ لائن کے لیے قرضہ فراہم کرنے سے انکار کردیا تو ایران نے خود مالیاتی وسائل فراہم کیے۔ایک ریٹائرڈ بیورو کریٹ نے بتایا کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان اور چین مشترکہ طور پرشاہراہ قراقرم تعمیر کررہے تھے۔امریکا اس شاہراہ کی تعمیر کے خلاف تھا۔اس زمانے میں پاکستانی بیورو کریسی اور فوج میں امریکیوں کا اثرونفوذ بہت گہرا تھا۔امریکا کے حامی سرکاری افسر ہر مرحلے پر کوئی نہ کوئی رکاوٹ کھڑی کردیتے۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پاکستانی انجینئروں نے ہتھیار ڈال دئیے اور کہا کہ وہ اس مقام سے آگے مزید سڑک نہیں بناسکتے ۔ تعمیراتی کام رک گیا۔ صدر ایوب نے چینی سفیر کو بتایا کہ خطرناک جغرافیائی حالات کی بدولت ہمارے ماہرین شاہراہ کی تعمیر جاری رکھنے سے قاصر ہیں۔چند دن بعد چینی سفیر نے صدر ایوب کو بتایا کہ اگرچہ معاہدے کے مطابق اس حصہ کی تعمیر کی ذمہ داری پاکستان کی ہے لیکن ہماری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ یہ حصہ بھی تعمیر کردے گی۔چین کے خلوص اور فراست کی وجہ سے شاہراہِ قراقرم بن گئی ورنہ اس اہم تجارتی شاہراہ کی تعمیر میں بے پناہ رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں۔ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہد ہ بھی کئی ایک کٹھن مراحل سے گزرا ۔مالی وسائل تھے نہ سیاسی حمایت دستیاب تھی۔عرب ممالک بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ پاکستان ایران کے قریب ہو۔اس کے باوجود انشاء ا للہ یہ منصوبہ مکمل ہوگا۔ ہمیں اپنی سفارتی اور سیاسی مشکلات کم کرنے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔یہ پیش نظر رہے کہ عالمی برادری ایران کے خلاف ہے۔پاکستان کے فیصلے کو ٹھنڈے پیٹوںبرداشت نہیں کیا جائے گا۔دوست عرب ممالک کو بھی پاکستان پر دبائو کے لیے استعمال کیا جائے گا۔یورپی یونین اور عالمی مالیاتی ادارے پاکستان کو تنگ کریں گے ۔ان تمام مشکلات کے باوجود اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔صدر زرداری نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت یہ منصوبہ نہیں روک سکتی ۔ یہ اعلان بڑا حوصلہ افزاہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں