"IMC" (space) message & send to 7575

ہم شرمندہ ہیں

لاہور کی جوزف کالونی میں رہائش پزیر ایک شخص کے خلاف توہین رسالت کے الزام کے بعد مشتعل افراد نے دھاوا بول کر عیسائیوں کے پونے دو سو کے قریب مکانات اور دکانوں کو نقصان پہنچایااور دو گرجا گھر نذرِ آتش کر دیئے۔پولیس اس واقعہ کی تحقیق کررہی تھی لیکن مظاہرین نے ایک فرد کی انفرادی غلطی کا بدلہ پوری بستی سے لیا۔ اس وحشیانہ حملے میں جس بے دردی سے ملک کے اقلیتی طبقے کی جائیداد کو خاکستر بنایا گیا‘ وہ ہرگز حیرت کا باعث نہیں۔ ریاستی سرپرستی میں نفرت کے جو بیج اس ملک میں بوئے گئے‘ وہ اب اپنا رنگ پوری آب وتاب سے دکھا رہے ہیں۔مساجد ‘خانقاہیں‘ مندر اور گرجا گھر تک محفوظ نہیں۔لاہور جیسے بڑے شہر میں ہونے والا یہ حادثہ اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ شدت پسندی صرف بندوق برداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ پورا معاشرہ اس مرض کا شکار ہوچکاہے۔ پونے دوسو عیسائی بے گھر نہ ہوتے‘ اگر ماضی میں ایسے واقعات میں ملوث افراد کو عبرتناک سزائیںدی جاتیں‘ جرائم پیشہ افراد کو کھلی چھوٹ نہ ملی ہوتی ۔2009ء میں گوجرہ میں آٹھ عیسائیوں کو زندہ جلایا گیا۔ان کے ساٹھ گھر وں کو آگ لگائی گئی۔ ایک بھی فرد کو اس واقعہ میں سزا نہیں ہوئی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ کارنامے اسلام اور نبی رحمت ؐسے عشق کے نام پر کیے جاتے ہیں۔اقلیتوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک معمول بن چکا ہے۔قانون حرکت میں نہیں آتا۔ حملہ آوروں کوسزا نہیں ملتی۔سزا ملے بھی کیوں ؟ عیسائیوں کو دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتاہے۔نام نہاد سول سوسائٹی چند ایک مظاہرے کرتی ہے۔انگریزی اخبارات میں اداریے اور کالم رقم کیے جاتے ہیں ۔اردو اخبارات میں ان موضوعات پر لکھنے سے پرہیز کیا جاتاہے کہ قارئین کے ناراض ہونے کا خدشہ ہوتاہے۔چند دنوں میں معاملہ ر فت گزشت ہوجاتاہے۔ چند ہفتوں یا ماہ بعد پھر ایک اور حادثہ رونما ہوتاہے۔میڈیا چیختا چلاتاہے لیکن ان حادثات سے کوئی سبق نہیں سیکھا جاتا۔کوئی سماجی تبدیلی نہیں آتی ۔آئے بھی کیسے‘ ان موضوعات پر سنجیدہ بحث مباحثہ ہوتا ہی نہیں ۔ معاشرے میںشدت پسندوں کے نقطہ نظر کو ان کے میدان میںچیلنج کرنے والوں کا نام ونشان ہی نظر نہیں آتا۔ عیسائیوں کے گھر جلے تو دل بہت دکھا کہ ہمارے نبی ؐکے نام پربے گناہ شہریوں پر کیا کیا قیامت نہیں ڈھائی جاتی ۔ کالج کے زمانے میں جسٹس امیر علی کی کتاب سپرٹ آف اسلام کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔انہوں نے حضور ﷺ کے زمانے میںعیسائیوں کے ساتھ ہونے والے ایک عہد نامہ کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ جسٹس امیر علی لکھتے ہیں: 628 ء میںسینٹ کیتھرین کی خانقاہ کے ایک وفد نے حضرت محمدﷺ سے پناہ کی درخواست کی۔ رسالت مابﷺ نے نہ صرف انہیں پناہ دی بلکہ حقوق کا ایک عہد نامہ بھی لکھ دیا۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ جب نبی کریمﷺ نے عیسائیوں کو پناہ دی تو کیا احکامات صادر فرمائے اورپھر اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم نے عیسائی شہریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا: ’’ یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم اْن کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمت گار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے ‘جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اُس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مُرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے رُوگردانی نہیں کرے گا‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اس عہد نامے کے تناظر میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ہمارے دل ودماغ پر وحشت طاری ہے حالانکہ مٹھی بھر بے بس اقلیت سے ہمارے مذہب اور تہذیب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ اس کے باوجود ہم انہیں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اس عذر پر بھی نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ دشمن کی سازش ہے ۔ اب یہ ناٹک بند ہونا چاہیے کہ یہ حملے دشمن کی سازش ہیں ۔ مسلمان تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا؟کوئٹہ ‘کراچی اور اب لاہور کے واقعات پر لوگ بڑی آسانی سے یہ کہہ کر جان چھڑادیتے ہیں کہ حملہ آور مسلمان نہیںہوسکتے۔اب یہ لنگڑے بہانے چھوڑ کر اس پُرتشدد ذہنیت (mindset)سے پنجہ آزمائی کی جائے ۔ یہ جائزہ لیا جانا چاہیے کہ مذہب کی تعلیمات کی تعبیر وتشریح میں ایسی کیا خرابی رہ گئی ہے کہ لوگ سیرت سرورِ عالمؐ کی رحم دلی اور عفوودرگزرجیسی صفات سے متاثر ہونے کے بجائے بے گناہ اور معصوم لوگوں کا خون بہانے میں لذت محسوس کرتے ہیں۔ اسپین میں غیر مسلموں کے ساتھ روا رکھا گیا حسن سلوک ضرب المثل ہے لیکن اس کے علاوہ بھی مسلم حکمرانوں نے غیر مسلموں کے مقدس مقامات کی تعمیر کرائی اور بسا اوقات تعمیر میں مدد دی۔ کوفہ میں خالد بن عبداللہ نے چرچ تعمیر کراکر عیسائیوں کے حوالے کیا۔ ایسے بے شمار واقعات تاریخ کی کتب میں محفوظ ہیں ۔بدقسمتی سے ان واقعات کو نہ تو سکولوں کے نصاب میں پڑھایا جاتاہے اور نہ مسجد اورمکتب میں ان کا ذکر ہوتاہے۔ ایسے تاریخی واقعات کو عام کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستانیوں کو دیگر مذاہب اور مسالک کے ساتھ رہنے کا قرینہ سکھائے۔ ملک اور معاشرے کو اس عذاب سے نکالنے کے لیے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ایسے عناصر کو جو قانون ہاتھ میں لیتے ہیں‘ عبرت ناک سزائیں دی جائیں‘ ان کی تشہیر کی جائے‘ طاقتور طبقات پر قانون کا سختی سے اطلاق کیا جائے تو باقی لوگ خودبخود سدھر جاتے ہیں۔عیسائیوں کو دو لاکھ روپے کی امداد سے ٹرخا دینا کافی نہیں۔ انہیں انصاف ملنا چاہیے ۔ایسا انصاف جو نظر آئے اور جسے ہوتے دیکھ کر لوگ ایسے واقعات دہرانے کا تصور بھی نہ کرسکیں۔ شہباز شریف جاتے جاتے مظلوموں کی دعائیں لے سکتے ہیں‘اگروہ سانحہ جوزف کالونی کے ذمہ داروں کو عبرت ناک سزا دلواسکیں۔ان کی حکومت کے پاس صرف چار دن رہ گئے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں