"IMC" (space) message & send to 7575

کامیابیوں اورناکامیوں کا ریکارڈ

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نئے باب کا اضافہ ہوچکا۔ پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت نے کامیابیوں اور ناکامیوں کے ملے جلے ریکارڈ کے ساتھ پانچ سالہ مدت پوری کرلی۔صدر آصف علی زرداری ‘ جنرل اشفاق پرویز کیا نی اور نوازشریف مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ان کے تحمل اور سیاسی بصیرت کی بدولت یہ ممکن ہوسکا۔ اس دوران کئی ایک نشیب وفرازآئے لیکن جمہوریت کی گاڑی رواں دواں رہی۔بے لگام میڈیا اور سخت گیر عدالت عظمیٰ کے ساتھ گزارہ کوئی آسان کام نہ تھا ۔نوازشریف کو یہ کریڈٹ ملنا چاہیے کہ انہوں نے تمام ترغیبات کے باوجود حکومت کے خلاف تحریک نہیں چلائی بلکہ اسے مدت پوری کرنے کا موقع دیا۔مذہبی جماعتوں نے بھی بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا۔فوج کو حکومت کا تختہ الٹنے کی دہائی نہیں دی۔ لانگ مارچ کیا اور نہ کوئی دھرنا دیا۔ماضی میں اسٹیبلشمنٹ انہیں اپنے مہرے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے ۔ اس مرتبہ انہوں نے بھی جمہوری نظام کے خلاف کسی قسم کی مہم جوئی نہیں کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں براہ راست حکومت میں شامل رہی ہیں لیکن بات صرف پیپلزپارٹی کے احتساب کی ہوتی ہے‘حالانکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کے پاس بے پناہ آئینی اور انتظامی اختیارات آ گئے۔ وہ تعلیم اور صحت کے شعبے میں کارکردگی دکھا سکتی تھیں۔ صوبے کو امن وامان اور اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی تھیں۔کسی بھی فورم پر یہ بحث نہیں ہورہی کہ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی حکومت کی خیبر پختون خوا میں کیا کارکردگی رہی؟بلوچستان میں جمعیت العلمائے اسلام کے وزرا نے کیا کارنامے سرانجام دیئے؟سندھ اور وفاق میں ایم کیوایم اور قاف لیگ کے وزراء نے کس کارکردگی کا مظاہر ہ کیا؟ایم کیوایم‘ حکومت میں آتی جاتی رہی ‘ اس کے باوجود وہ حکومت کی بڑی شراکت دار رہی ہے۔ اسے حکومت کی کامیابیوں اور ناکامیوں میں اپنا حصہ قبول کرنا چاہیے۔ جہاں تک پنجاب حکومت کا تعلق ہے‘شہباز شریف نے تمام تر کمزوریوں کے باوجو د تعلیم اور صحت کے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہے۔ انہوں نے بڑے میگا پروجیکٹس مکمل کیے۔میٹرو بس سروس کے ناقد تو بہت ہیں لیکن یہ منصوبہ تاریخی ہے۔اگر اس کو ذمہ داری کے ساتھ چلایا گیا تو موٹر وے کی طرح پنجاب کا بہت بڑا اثاثہ بن جائے گا۔کرپشن اور خراب طرزِ حکمرانی میں شہباز شریف دوسروں کے مقابلے میں بہت بہتر رہے۔اگرچہ وہ کوئی مثالی کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ بہت سا پیسہ سستی روٹی کی طرح کے نمائشی کاموں میںضائع کردیا گیا ۔ اس کے باوجود انہوں نے پنجاب کو متحرک اور سرگرم رکھا۔ صدر زرداری کو اس لیے مبارک باد ملنی چاہیے کہ انہوں نے سیاست کی روایتی جہت ہی بدل ڈالی۔ تصادم اور محاذ آرائی سے گریز کیا۔دو قدم پیش رفت کی تو مصالحت کی خاطر ایک قدم پسپائی اختیار کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کی۔ پاکستانی کلچر میں جہاں لڑائی جھگڑا اور کشیدگی کو مردانگی کا حصہ تصور کیا جاتاہے‘ وہاں رواداری‘ سیاسی حریفوں کے ساتھ نبھا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔انہوں نے مشکل ترین مخالفین اور سخت سودا بازوں کے ساتھ پانچ برس گزارے۔خاص طور پر سندھ میں ایم کیوایم ایک مشکل حلیف تھی ۔وہ حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے بھی حزب اختلاف کا کردار ادا کرتی رہی۔بسااوقات فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتی۔صدر زرداری کی مفاہمت کی پالیسی کامیاب رہی۔انہوں نے سیاسی مخالفین سے انتقام لینے یا انہیں تنگ کرنے سے گریز کرکے پاکستان میں مفاہمت کے ایک نئے کلچر کی بنیاد رکھی۔آنے والی حکومت کے لیے بھی اس روایت کو ترک کرنا مشکل ہوگا۔بے نظیر بھٹو نے اپنے سیاسی مخالفین بالخصوص جنرل (ر) ضیا ء الحق کے ساتھیوں سے انتقام نہیں لیا ۔اسی طرح صدر زرداری نے بے نظیر کے قاتلوں سے انتقام کے نام پر مخالفین کو ہراساں نہیں کیا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کے روایتی حریفوں بالخصوص چودھری برادران کو ساتھ شامل کرکے حیرت انگیز لچک کا مظاہرہ کیا۔ آئینی سقم دور کیے گئے ۔صدارتی اختیارات کا خاتمہ اور اتفاق رائے سے صوبائی خودمختاری دینے جیسے اقدمات ہوئے۔ ہمسایہ ممالک بالخصوص ایران اور افغانستان ‘چین اور بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ۔بھارت کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ‘جو بدقسمتی سے ایک بار پھر کشیدگی کی طرف مائل ہیں۔تجارت کے لیے اسے پسندیدہ ملک قراردینے کا معاملہ رک گیا جبکہ سری نگر میں ہونے والے ایک دھماکے کا الزام بلاکسی تحقیق کے پاکستان پر لگایا دیاگیا۔جو اس امر کی غمازی کرتاہے کہ بھارت اور پاکستان میں تنائو میں کمی کے امکانات کم ہیں۔ حکومت میں شامل اکثر وزراء کو حکمرانی ہی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شراکت داری کی حکومت کا تجربہ نہ تھا۔حکومت سنبھالتے ہی ملک کے طاقتور ترین ادارے آئی ایس آئی کو وزارتِ داخلہ کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس وقت وزیراعظم لندن کے دورے پر تھے ۔جنرل کیانی ان کے آنے کا انتظار کرنا چاہتے تھے لیکن ساتھیوں کے دبائو پرانہوں نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ آدھی رات ہی کو یہ حکم نامہ واپس لے۔ ابتدائی مہینوں میں ہی فوج اور حکومت کے مابین بے اعتمادی پیدا کردی گئی۔ بعدازاں کیری لوگر بل‘امریکیوں کو بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے ویزوں کا اجرا اور میمو گیٹ جیسے مسائل پر زبردست کشیدگی پید اہوئی لیکن صدر زرداری اور جنرل کیانی کے تحمل نے ملک کو ایک اور بحران سے بچایا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے داخلی سلامتی اور اس حوالے سے پالیسی سازی اور بیرونی ممالک سے تعلقات جیسے معاملات فوج کے سپرد کردیئے۔ وہ اس عرصہ میں سیکورٹی کے معاملات سے لاتعلق رہی۔فوج نے جن علاقوں کو شدت پسندوں سے واگزارکرایا‘ سویلین اداروں نے وہاں بھی اپنی عملداری قائم کرنے کی کوشش نہیں کی۔انسداد دہشت گردی کا بل پاس کراتے کراتے اسمبلی کی مدت ہی ختم ہوگئی۔ دہشت گردی کے خلاف قومی سطح پر رابطہ اور پالیسی سازی کا ادارہ بنانے میں بھی پانچ برس لگادیئے۔ابھی تک یہ ادارہ مالی وسائل ہونے کے باوجود پوری طرح فعال نہ ہوسکا۔حکومت نے سویلین بالادستی قائم کرانے اور منوانے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتوں کی سب سے خراب کارکردگی امن وامان کے قیام اور معاشی بحالی کے دائرے میں رہی۔ایک جائزے کے مطابق ان پانچ برسوں میں ہر روز لگ بھگ چھ افراد قتل ہوتے رہے۔ کراچی اور بلوچستان کا حال سب سے ابتر رہاحتیٰ کہ جنرل کیانی کو کراچی کے حالات پر صدرزرداری سے ملاقات کرکے انہیں اس جانب متوجہ کرنا پڑا۔کراچی کے حالات کو ٹھیک رکھا جاتاتو بقول صدر زرداری‘ یہ پورے ملک کو پالنے کی صلاحیت رکھتاہے‘ لیکن ان پانچ برسوں میں سندھ کی حکومت ہو یا اسلام آباد کی‘ اس نے کراچی میں امن وامان برقراررکھنے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے لیکن یہ طے ہے کہ مُعلّق پارلیمنٹ ہی وجود میں آئے گی۔کوئی جماعت بھاری مینڈیٹ حاصل نہیں کرپائے گی۔ علاقائی جماعتوں کی اہمیت بڑھ جائے گی۔ وہ وفاقی، سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں صوبائی حکومتیں بنانے میں اہم کردار اداکریں گی۔نئی حکومت کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہوگا لیکن سب سے بڑا چیلنج معیشت کی بہتری اور امن وامان کی بحالی ہے۔ یہ ایسا کام ہے جس کی جڑیں خارجہ پالیسی میں پیوست ہیں۔ افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ اس موضوع پر اگلے کالموں میں افغانستان کے دارلحکومت کابل سے اظہار خیال کیا جائے گا‘ جہاں پاکستانی صحافیوں کے ایک گروپ کے ہمراہ دورے کا موقع مل رہاہے‘ انشااللہ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں