کل ملکی تاریخ کا ایک غیر معمولی دن تھا۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے خلاف دائر مقدمات کی سماعت شروع کی۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے آئین توڑا،جو دستور کی دفعہ چھ کے تحت غداری کے زمرے میں آتاہے۔اس کے علاوہ بھی کئی ایک اور مقدمات ان کے منتظر ہیں۔مثال کے طور نواب اکبر بگٹی قتل کیس اور لال مسجد میں طالبات کی ہلاکتوں کے مقدمات بھی زیرِسماعت ہیں۔ پرویزمشرف اپنے ہی نادان دوستوں کے بُنے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں۔وہ لندن میں پُرآسائش زندگی گزار رہے تھے۔ مال ودولت کی فراوانی پہلے ہی بہت تھی لیکن جو کسر رہ گئی وہ لیکچر دے کر پوری کررہے تھے ۔برطانیہ میں انہیں تحفظ بھی حاصل تھا اور شامیں بھی اچھی کٹ جاتی تھیں۔نہ جانے کس حکیم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ پاکستان آکر مسائل کے بھنور میں آپھنسیں۔ پاکستان میں جاری سیاسی مباحث میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ پرویز مشرف کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور قانون کی حکمرانی اور مستقبل میں غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے جیسے مسائل کا حل بھی پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ساتھ جُڑا ہوا ہے۔میاں نواز شریف نے بڑا دانشمندانہ فیصلہ کیا کہ انہوں نے پرویز مشرف کی واپسی کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ان کے خلاف کوئی مہم تو دور کی بات ایک طرح کی خاموشی اختیار کرلی۔نواز شریف کو اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست ٹکرائو کا خدشہ ٹل گیا۔عرب دوستوں کی درخواست یا خواہش کا احترام بھی پورا ہوگیا۔ نوازشریف کی خاموشی اور مشرف کی ملک میں موجودگی کو نظرانداز کرنے کے باوجودپرویز مشرف کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔پاکستان میںاَن گنت اسٹیک ہولڈرز ہیں۔گزشتہ پانچ برس میں ملکی سیاست اور ریاستی ڈھانچہ کی ساخت ہی بدل چکی ہے۔راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے توفیق آصف اور مولوی اقبال حیدر نے عام شہری کے طور پر سپریم کورٹ میں مشرف کے خلاف درخواستیں دائر کیں۔ سپریم کورٹ کے بارے میں کسی تبصرے یا تجزیئے کی ضرورت نہیں ۔دودن قبل جسٹس افتخار محمد چودھر ی نے حیدرآبادمیں ججوں اور وکلاء کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا:عدلیہ آئین کی محافظ ہے اور رہے گی۔اداروں اور افراد کی طرف سے اختیارات کا ناجائز استعمال روکنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ہر غیر قانونی اقدام کو کالعدم قراردینا عدلیہ پر لازم ہے۔موجودہ دور میں عدلیہ آئین کی حکمرانی،بنیادی حقوق کی محافظ اور نجات دہندہ کے طور پر اُبھری ہے۔ جسٹس افتخار محمد چودھری اور عدالتِ عظمیٰ کا عمومی موڈ قانون کی بالادستی قائم کرنے کا ہے۔وہ بے خوف ہیں اور جمہوری نظام کے ساتھ اپنی گہری وابستگی ہی نہیں بلکہ اس کے تحفظ کے عزم کا بارہا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والا سلوک نوشتۂ دیوارہے۔ظاہر ہے‘اس مقدمہ کافیصلہ چند دنوں یا ہفتوں میں نہیں ہونا ۔ اس دوران ملک میں انتخابات کا عمل مکمل ہوچکا ہوگا۔انتخابی جائزے اور پیپلزپارٹی کی سیاسی میدان میں عدم فعالیت سے یہ قیاس کرنا ناممکن نہیں کہ نون لیگ اکثریتی جماعت کے طور پر اُبھرکر سامنے آئے گی۔اس منظر نامہ میںپرویز مشرف کے لیے حالات سازگار نہیں رہیں گے۔ فیصلہ چند ہفتوں میں ہوتا نظر نہیں آتا،کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔پرویز مشرف کو اپنے دفاع کا حق ملنا چاہیے اور یقینا وہ اپنا دفاع بھی کریں گے۔دوسری جانب امن وامان کی حالت دگرگوں ہے ۔ پیپلزپارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی حتیٰ کہ متحدہ قومی موومنٹ جیسی بڑی جماعتیں ابھی تک انتخابی مہم ہی شروع نہیں کرسکیں۔شدت پسندوں کی پہنچ کا یہ عالم ہے کہ ملک کا کوئی حصہ ان کی دسترس سے باہر نہیں۔وہ جہاں اور جب چاہتے ہیں حملے کرتے ہیں۔پیپلزپارٹی کی قیادت انتخابی مہم چلانے کے لیے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔اے این پی زخم خوردہ ہے۔وہ حالیہ برسوں میں اپنے کئی قابل رہنمائوںکو کھو چکی ہے۔کراچی میں بھی طالبان اور شدت پسندوں کی موجودگی کا اعتراف کیا گیاہے۔ان حالات میں پرویز مشرف کہاں اور کیسے انتخابی مہم چلائیں گے؟ سوال یہ ہے کہ مشرف کو بچانے کے لیے کونسی قوتیں یا ادارے سامنے آسکتے ہیں؟ پرویز مشرف کو امید ہے کہ ایم کیوایم ان کی مدد کرے گی۔ایم کیوایم ایک سیاسی قوت ہے، جو رائے عامہ کے جذبات اور احساسات کو نظرانداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ۔مشرف کی حمایت کی ایک بہت بڑی قیمت اسے چکانا پڑے گی۔ نواز شریف ، بلوچ قوم پرست ، طالبان اور مذہبی رجحانات رکھنے والے حلقے اس کے مزید خلاف ہوجائیں گے۔اگر مشرف کو کراچی سے الیکشن نہ لڑنے دیا گیا تو پھر ایم کیوایم کی جان چھوٹ سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق کراچی میں مشرف کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے ہیں۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے انہوں نے پرویز مشرف کو بارہا سمجھایا کہ وہ پاکستان نہ آئیں ۔اعلیٰ ترین سطح پر پیغام دیا گیا کہ ملکی سیاسی فضا سازگار نہیں۔ان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوسکتاہے۔مشرف نے سنی ان سنی کردی اور پاکستان آکراسٹیبلشمنٹ کو آزمائش میں ڈال دیا ۔رائے عامہ کی غالب اکثریت اور سیاسی قوتیں چاہتی ہیں کہ مشرف مقدمات کا سامناکریں۔میڈیا میں ان کے اقدامات کا دفاع کرنے والا کوئی قابلِ ذکر نام نہیں۔ ایک ایسے ماحول میں کون اور کیونکر مشرف کے بچائو کے لیے سامنے آئے گا۔ پاکستان میں طویل عرصہ تک فوج کی حکومت رہنے کے باوجود کسی بھی دور میں ریٹائرڈ فوجی کامیاب سیاستدان ثابت نہیں ہوئے۔جس نے بھی سیاست میں قسمت آزمائی کی یاسیاسی جماعت بنائی وہ ناکام رہا۔اصغرخان کی تحریک استقلال ناکام رہی،جنرل (ر) اسلم بیگ نے بھی ایک جماعت بنائی جو چند ہی ہفتوں میں تاریخ کے کوڑے دان میںڈال دی گئی ۔جنرل (ر) حمید گل نے بھی بڑی کوشش کی کہ عمران خان کے مربّی بن جائیں۔مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں دفاعِ پاکستان کونسل کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔چکوال کے جنرل عبدالمجید ملک گھوم پھر کر نواز شریف کے خیمے میں پناہ لے چکے ہیں۔سابق فوجی افسروں کو سیاست میں جو کامیابی ملی وہ سیاسی جماعتوں کی مرہون منت ہے۔ اچھا ہوتا کہ پرویز مشرف پاکستان نہ آتے یا وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح نون لیگ میں شامل ہوجاتے۔ اگر یہ ممکن نہ تھا تو مشاہد حسین کی طرح چودھری شجاعت حسین کے ساتھ چپک جاتے۔چودھری صاحب بچائو کا کوئی راستہ ڈھونڈ لیتے۔ پتہ نہیں مشرف کے نادان دوستوں نے انہیں پاکستان بلا کر اور انتخابی دنگل میں اتار کر کون سا حساب چُکایا ۔مشرف کے لاکھوں فیس بک مدح سرائوں کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ۔ عالم یہ ہے کہ چندپہرے داروں کے سوا مشرف کا حال احوال پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔