آج کے برعکس گزشتہ چھ انتخابات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی الیکشن مہم کا مرکزی موضوعِ بحث رہی۔ خاص طور پر گزشتہ دو انتخابات میں پرویز مشرف کی امریکا نواز پالیسیو ں پر خوب تبرا بازی کی گئی ۔متحدہ مجلس عمل نے امریکا مخالف جذبات بھڑکائے اور خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے بھاری اکثریت حاصل کرکے دنیا کو ششدر کردیا۔ اسّی کی دہائی کے آخر میں جنرل ضیاء الحق اپنے آمرانہ بندوبست سمیت جہان فانی سے کوچ کرگئے۔اگلے گیارہ برسوں میں ملک میںچار عام انتخابات ہوئے۔ہر مرتبہ انتخابی مہم پر بھارت مخالف جذبات غالب رہے۔ ’’کرش انڈیا‘‘ کا نعرہ زبان زدعام ہوا۔کشمیر میں تحریک آزادی جاری تھی اور اہل سیاست رائے عامہ کے جذبات سے ہم آہنگ تھے ۔ جوشیلی تقریروں نے بھارت کے خلاف فضا کو خوب گرمایا۔ انتخابی مہم میںامریکا بھی زیر بحث رہتا لیکن مرکزی موضوع بھارت ہی ہوتا تھا۔ 2002ء اور2008ء کے انتخابات میں توپوں کا رخ واشنگٹن کی جانب مڑگیا۔بھارت کی جگہ امریکا نے لے لی۔بھارت کے بارے میں بتدریج ذرائع ابلاغ اور سیاسی چوپالوں میں خاموشی چھا گئی۔گزشتہ دس برس سے پاکستان میں امریکی پالیسیوں پر نکتہ چینی نہ کرنے والے کو محب وطن نہیں گردانا جاتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رواں الیکشن مہم میں خارجہ پالیسی پر بحث ہی نہیں ہورہی ۔عمران خان کی لاہور کی تقریر میں ڈرون حملوں پر زیادہ بات ہوئی نہ امریکا کے خلاف سخت لب ولہجہ اختیار کیا گیا۔نوازشریف نے مانسہرہ میں جو تقریر فرمائی اس میں سرے سے خارجہ پالیسی پر گفتگو سے گریز کیا گیا۔مولانا فضل الرحمن دھیمے سروں میں امریکا کے خلاف بات کرتے ہیں لیکن بھارت کے بارے میں وہ بھی زبان کھولنے سے احتراز کرتے ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی امریکا یا بھارت کے حوالے سے بیان بازی نہیں کرتی بلکہ اپنے ترقی پسند پس منظر کی وجہ سے ان دونوں ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی علمبردار ہے۔ پیپلزپارٹی کا موقف بھی ان جماعتوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ امریکیوں نے بھی کمال مہارت سے انتخابات سے قبل پاکستان کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری پیدا کی۔دھونس اور دھاندلی کے روایتی حربے ترک کر کے سرکاری اور سفارتی ذرائع سے تعلقات کو بہتر بنایا۔افغانستان میں قیام امن اور مابعد کے معاملات میں پاکستانی نقطہ نظر کو پذیرائی دی۔جمود ٹوٹ چکا ہے۔ اب واشنگٹن اور اسلام آباد ، پینٹاگان اور جی ایچ کیو کے مابین نامہ وپیام کا سلسلہ رواں ہے۔میڈیا کے ذریعے جواب الجواب کا ’کاروبار‘ رک چکا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی مقتدر قوتوں کا موڈ خوشگوار ہے۔ ڈرون حملوں کا سلسلہ بڑی حد تک تھم چکا ہے۔اسٹیبلشمنٹ بھی مطمئن نظر آتی ہے۔ اس کے حامی بھی امریکا کے حوالے سے غم وغصے کا اظہار نہیں کرتے ،حتیٰ کہ سرخ ٹوپی والا عسکری امور کا ماہر ٹیلی وژن چینلز سے غائب ہے۔ امریکا اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری جنگ بندی کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی توجہ مقامی مسائل اور ان کے حل پر مرکوز ہے۔وہ اچھی حکومت کی فراہمی اور کرپشن نہ کرنے جیسے وعدے کررہے ہیں۔میڈیا بھی دن رات امریکا کے خلاف شعلہ افشانی کے بجائے سیاست دانوں سے بہتر کارکردگی کا تقاضا کرتاہے۔گزشتہ حکومت کے بارے میں ا یسے انکشافات سامنے آئے کہ شرفا منہ میں انگلیاں داب لیتے ہیں: ع ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی حیرت انگیز طور پر بھارت اور کشمیر پاکستان کے سیاسی مباحث سے حذف ہوگیا ہے ۔آزادکشمیر کے وزیراعظم چودھری عبدالمجید ، مسلم لیگ کے صدر راجہ فاروق حیدر ،جماعت اسلامی کے امیر عبدالرشید ترابی اور حریت کانفرنس کے رہنمائوں نے مشترکہ طور پر تمام بڑی جماعتوں کے سربراہوں یا نمائندوں کادروازہ کھٹکھٹایا۔انہیں اپنی کتھا سنائی ۔وہ نائن زیرو بھی گئے جہاں الطاف حسین نے بھی انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ منشور کی حد تک تمام جماعتوں نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دیا۔ مسلم لیگ نون اور جماعت اسلامی نے مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل پر زور دیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے محض تنازعہ کشمیر کے حل پر ۔پاکستان میں موجود کشمیر ی ووٹر ز کی تعداد بیس لاکھ سے ذرا اوپر بتائی جاتی ہے۔وہ عمومی طور پر اپنے نقطہ نظر کی حامی جماعت یا شخصیت کو ووٹ دیتے ہیں۔میاں نوازشریف کشمیری نژاد ہیں ۔ کشمیری ووٹروںکا فطری جھکائو نون لیگ کی جانب ہے ۔ اگر دوسری جماعتیں توجہ دیں تووہ بھی ان ووٹوں میں سے کچھ نہ کچھ اپنی جھولی میں ڈال سکتی ہیں۔ انتخابی مہم میں خارجہ پالیسی کے علاوہ شدت پسندی اور سول ملٹری تعلقات دو ایسے موضوعات ہیں جن پر زیادہ تر سیاسی جماعتیں واضح موقف لینے سے گریز کررہی ہیں۔دہشت گردی کے خلاف پیپلزپارٹی،عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے سوا کوئی بھی جماعت دوٹوک موقف اختیار کرنے پر رضا مند نہیں۔ خصوصاً مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف اس مسئلہ کی سنگینی کا ادراک نہیں کرتیں ۔ ان دونوں جماعتوں کے منشورمیں اس مسئلہ کا سرسری ذکر تو کیا گیا ہے لیکن اس عفریت کے مقابلے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا گیا ۔نون لیگ اور تحریک انصاف کی نظر قدامت پرست اورروایتی طور پر دائیں بازو کے ووٹ بینک پر اٹکی ہوئی ہے‘ لہٰذا وہ سخت موقف لینے سے اجتناب کرتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ سے لاکھ اختلاف سہی لیکن اس نے عوامی نیشنل پارٹی کی طرح طالبان اور شدت پسندی کے خلاف سخت موقف اختیار کیا۔اے این پی نے اس کی بھاری قیمت بھی چکائی جبکہ ایم کیوایم کے لوگوں پر انتہاپسندوں نے حملے کیے ۔ان دونوں جماعتوں کی قیادت کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔اے این پی تو خیبر پختون خوا میں انتخابی مہم چلانے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔جماعت کے سربراہ اسفند یار ولی کاآزادانہ گھومنا پھرنا محال ہے ۔ اے این پی نے طے کیا ہے کہ وہ انتخابی مہم نہیں چلائیں گے کیونکہ پارٹی انہیں کھونا نہیں چاہتی۔ اسی طرح سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے بھی سیاسی جماعتوں نے دوٹوک موقف اختیار کرنے کے بجائے ملفوف انداز میں وعدے کیے ۔انہیں اندیشہ ہے کہ نازک مسائل کو چھیڑنے سے معاملات خراب ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ نازک موضوع ہے جہاں بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں ۔ان کا جوش وخروش مصلحت پسندی میں ڈھل جاتاہے۔ تازہ ترین انتخابی جائزوںاور قرائن سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ ابھی تک کوئی بھی جماعت دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔اسلام آباد ہی نہیں بلکہ صوبوں میں بھی مخلوط حکومتیں بننے کے امکانات ہیں۔اس صورت میں خارجہ پالیسی بالخصوص پاک امریکا تعلقات ،بھارت،کشمیر اور افغانستان پر سیاسی سطح پر فیصلہ سازی کا امکان مزید محددو ہوجائے گا۔ مخلوط حکومتوں میں غیر مرئی قوتیں زیادہ فیصلہ کن کردار ادا کرنا شروع ہوجاتی ہیں اور سیاستدانوں کا کردار نمائشی ہو جاتا ہے۔