"IMC" (space) message & send to 7575

پرویز مشرف اور حسنی مبارک

پرویز مشرف کی گرفتاری کا منظر دیکھ کر مصر کے مطلق العنان حکمران حسنی مبارک کی عدالت میں حاضری یاد آگئی۔وہ ایک پنجرے میں بند عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ بے بسی کی تصویر بنے اپنے اعمال کی صفائی پیش کرتے ہیں۔مصر کے لوگوں نے انہیں طویل احتجاجی تحریک کے بعد اقتدار سے بے دخل کیا۔وہ اب سزا کے منتظر ہیں ۔مصر میں جمہوری نظام پنپ رہاہے۔تمام ترمشکلات کے باوجود صرف صدر،ڈاکٹر محمد مرسی بخوبی کاروبارمملکت چلارہے ہیں۔ پرویز مشرف کے ساتھ کیا ہوا اور کیوں ہواپر بحث کی اب چنداں ضرورت نہیں۔دیکھا یہ جانا چاہیے کہ ان کے ساتھ کیا ہونے جارہاہے اور اس کے ملکی سیاست اور سماج پر کیا مثبت یا منفی اثرات مرتب ہوں گے؟پرویز مشرف کی گرفتاری پر جس طرح کا ملک گیر ردعمل سامنے آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا۔سیاسی اور سماجی رہنما ہی نہیں بلکہ رائے عامہ کے فعال طبقات ایک عرصے سے صدمے کی کیفیت سے دوچار ہیں۔گزشتہ چھ عشروں میں جس طرح چند مخصوص گروہوں نے ملک کوروندا اس کی عصری تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ 1979ء میں ملک کے مقبول رہنما ذوالفقار علی بھٹو کو ایک متنازعہ عدالتی فیصلے میں سولی چڑھادیا گیا ۔ قوم نے اجتماعی طور پر بھٹو کی پھانسی کا ماتم کیا۔نوازشریف کو کھڑے کھڑے وزیراعظم ہائوس سے اٹھا کر اٹک قلعہ کے تہہ خانے میں پہنچادیا گیا۔ان کے فیصلوں اور طرز سیاست سے اختلاف کیا جاسکتاہے لیکن انہیں بطور وزیراعظم یہ حق حاصل تھا کہ وہ پرویزمشرف کو سبکدوش کرتے۔برسوں پر محیط جلاوطنی محض نوازشریف پر ہی بھاری نہیں گزری بلکہ ملک کا بہت بڑا طبقہ رنجیدہ رہا۔ آمریت کے تابوت میں آخری کیل محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے ڈھونکا۔سرعام انہیں شہید کردیا گیا۔ریاستی اداروں نے انہیں مطلوبہ سکیورٹی فراہم نہیں کی۔اسلام آباد کے تخت پر پرویز مشرف براجماں تھے۔بے نظیر کے خون کے صدقے پیپلزپارٹی برسراقتدار آگئی لیکن اس کی مجبوری کا یہ عالم تھا کہ وہ پرویزمشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہ کر سکی۔ ادب سے مشرف کے دربار میں درخواست کی گئی کہ وہ مہربانی فرماکر صدارت سے دست بردار ہوجائیں۔ اس طرزسیاست نے پاکستانیوں کی روح کو زخمی کیا اور ان کی نفسیات پر گہرے اثرات ڈالے ۔رائے عامہ اس وقت تک مطمئن ہوتی نظر نہیں آتی جب تک کسی بڑے مجرم کو سزا نہیں ملتی۔پرویز مشرف کی شکل میں قربانی کا بکرا ہاتھ آگیا ہے۔ہرکوئی اس کی قربانی مانگ رہاہے۔سینٹ میں سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے متحد ہوکر پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے اور غداری کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ نون اور عوامی نیشنل پارٹی انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔اس کے باوجود سینیٹر رضا ربانی ،اسحاق ڈار اور زاہد خان نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے نگران حکومت پر زور دیا کہ وہ قانون کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے ۔ سینٹ میں موجود قاف لیگ کے رہنما سیّدمشاہد حسین ہوں یاایم کیوایم کے سینیٹر،انہوں نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔حالانکہ یہ لوگ پرویز مشرف کے نفس ناطقہ تھے۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے وہ صرف حالات کا مشاہد ہ کررہی ہے لیکن بے چین بہت ہے۔کئی اعلیٰ فوجی افسروں نے نجی محفلوں میں موقف اختیار کیا کہ پرویز مشرف اب ایک سیاستدان ہیں، عساکر پاکستان کے سربراہ نہیں۔انہیں پاکستان آنے پر نہ صرف یہ کہ سلامتی کی ضمانت فراہم نہیںکی گئی بلکہ نجی طور پر مشورہ دیا گیا کہ وہ واپسی کا منصوبہ ترک کردیں لیکن کمانڈو نے سنی ان سنی کردی ۔ اسٹیبلشمنٹ کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ محض ایک شخص کی خاطر رائے عامہ سے ٹکرا ئے۔مصر کی فوج نے بھی آخری وقت میں اپنے کمانڈر انچیف سے کہا تھا کہ بہت ہوگئی، اب آپ تشریف لے جائیں۔ کچھ مبصرین کوخدشہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مشرف کو بچانے کے لیے کسی بھی انتہا تک جاسکتی ہے۔ان کا استدلال یہ ہے کہ اصغرخان کیس میں سیاستدانوں میں سرکاری روپیہ تقسیم کرنے پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونے دیا گیا۔جنرل (ر) اسلم بیگ نے دھمکی دی کہ اگر انہیں ہاتھ لگایا گیا تو جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے بھی اپنا دفاع کیا ۔ وہ اب بھی سفارتی تقریبات میں نظر آتے ہیںاور طُرم خان کے طور پر شہر میں گھومتے ہیں۔انہیں احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام کیا ہے۔این ایل سی کرپشن کیس میں چار ریٹائرڈ جنرلوں کے خلاف ٹھوس شواہد سامنے آئے۔ابھی تک ان پر سول یا فوجی عدالت میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ اور این ایل سی کرپشن کیس میں ملوث افسروں کے خلاف مقدمات شروع نہ کرنے سے اس امر کی غمازی ہوتی ہے کہ سابق فوجی افسروں کا احتساب جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پرویز مشرف کی ساری امیدیں سعودی عرب اور امریکا سے وابستہ ہیں۔ ان کا خیال ہے جس طرح ان دونوں ممالک نے نواز شریف کو چھڑایا تھا اسی طرح وہ ان کی مدد بھی کریں گے۔مشرف کے برعکس نوازشریف ایک مقبول سیاسی رہنما تھے ۔ان کی ملک گیر سطح کی سیاسی جماعت تھی ۔دوسرے وہ مختلف عہد تھا،رائے عامہ بیدار نہ تھی۔حالیہ برسوں میںمیڈیا کی آزادی اور سوشل میڈیا کے ذریعے آنے والے انقلاب نے پاکستانیوں کی سیاسی اور سماجی فکر کی بنیادوں کو حیرت انگیز طور پر بدل دیا ہے۔معاشرے کے فعال طبقات قانون کی حکمرانی اور یکساں انصاف پر ہرگز مفاہمت پر آمادہ نہیں ۔عدالتیں نہ صرف آزاد ہیں بلکہ ایک وزیراعظم کو گھر بھیج چکی ہیں۔دوسرے نے منتیں ترلے کر کے الیکشن لڑنے کی اجازت پائی۔وہ مشرف کے ساتھ کہاں رعایت کرنے والی ہیں۔ کوئی بھی ملک ہو ، وہ رائے عامہ اورملک گیر سیاسی اتفاق رائے کے خلاف جانے سے گریز ہی کرے گا۔امریکا کی ہمارے ہاںپہلے ہی شہرت بڑی خراب ہے۔لوگ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتے۔ پاکستانیوں کے جذبات کو ملحوظ خاطررکھا جانا چاہیے ۔متنازعہ سیاسی معاملات میں مداخلت سے گریز ہی بہتر ہے ۔ مشرف کو بچانے والے کم اور اسے سزا دلانے کے متمنی زیادہ ہیں۔پرویز مشرف کے ساتھ ہونے والے سلوک سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا تاثر پختہ ہوگا۔غیر قانونی اقدامات کی حوصلہ شکنی ہوگی۔طالع آزمائوں کو پیغام ملے گا کہ وہ اپنی حدود میں رہیں۔مشرف کی گرفتاری سے الیکشن مہم کا فوکس ہی بدل گیا ہے ۔لوگ انتخابات کی تیاری کی طرف دھیان دینے کے بجائے مشرف کے مقدمہ میں الجھ گئے ۔زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ میڈیا انتخابی مہم پر توجہ مرکوز کرے ۔مشرف کے مقدمے کو معمول کے مقدمات کی طرح چلنے دیا جائے ۔ اس کا فیصلہ راتوں رات تو ہونانہیں ۔کافی وقت لگے گا اور مشرف کو عدالتوں کی عرصہ تک خاک چھاننی پڑے گی۔ مشرف نے واپس آکر نہ صرف اپنے لیے مشکلات پیداکیں بلکہ آئندہ حکومت کو بھی مصیبت میں ڈال دیا۔وہ ان کے خلاف غداری کا مقدمہ چلاتی ہے تو بحران کا شکار ہوتی ہے اور نہیں چلاتی تو غیر مقبول ہو جائے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں