"IMC" (space) message & send to 7575

ماضی کو دفن کر دیں

وکلا کے ایک گروہ نے اسلام آباد کی عدالتوں کے احاطے میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے حامیوں کو ڈٹ کرزدوکوب کیا۔ پرویز مشرف پر حملے کی ناکام کوشش بھی کی گئی۔غالباً ایسے ہی کسی موقع پرکہا گیا تھا :یا اللہ مجھے میرے دوستوں سے بچا‘ دشمنوں سے میں خود نمٹ لوں گا۔یہ کوئی اچھوتاواقعہ نہیں کہ جس پر ملال ہو ۔گزشتہ چند برسوں میں ایک درجن سے زائد مرتبہ وکلا نے مختلف لوگوں کو عدالتوں کے اندر مارا پیٹا‘ ان کی تذلیل کی ۔پرویز مشرف کے سرکردہ حامی جناب شیر افگن مرحوم پر وکلا نے اس قدر تشدد کیا کہ وہ بے سدھ ہوگئے ۔ اس طرز عمل پر وکلا برادری کے سنجیدہ حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے لیکن خوف کے مارے کوئی زبان کھولنے پرآمادہ نہیں۔اعتزاز احسن ہوں یا جسٹس طارق محمود، علی احمد کرد ہوںیا اطہر من اللہ‘ مصلحت کے مارے یہ رہنماہردم تشدد پرمائل ایسے واقعات کی چشم پوشی کرتے رہے ہیں جس سے جارحانہ مزاج کے حامل وکلا کو ہلا شیری ملی۔عدالتوں نے بھی اس طرح کے واقعات پر کوئی سوموٹو ایکشن نہیں لیااورنہ ہی وکلا کو شائستہ رویے کی تلقین کی ۔ جسٹس افتخارمحمد چودھری کی جبری معزولی کے بعد پورے ملک میں وکلا برادری نے بڑی شان سے قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کی جنگ لڑی۔اس تاریخی جدوجہد نے پاکستان کا سیاسی اور سماجی نقشہ بدلا۔نوجوان اور دبنگ وکلا نے ریاستی تشدد کا بہادری سے مقابلہ کیا حتیٰ کہ شہریوںنے اپنے بچوں کے نام وکلا رہنمائوں کے ناموں پر رکھنا شروع کردیے۔ طلبہ وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کی خواہش کرنے لگے۔سیاسی جماعتوں او ر سول سوسائٹی کی بھرپور مدد سے یہ تحریک کامیاب ہوئی۔ اس کامیابی کا منفی اثر یہ ہوا کہ وکلا برادری اس زعم میں مبتلا ہوگئی کہ وہ قانون سے بالاتر ہے۔وکلا یونینیں طاقت ور ہوتی گئیں۔وکیلوں نے جارحانہ رویہ اختیار کرلیا۔ان کے طرزعمل کے خلاف حرف شکایت زبان پر لانے والے کی کوئی شنوائی نہیں ۔ یہ مسئلہ صرف وکلا تک ہی محدود نہیں بلکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسانہیں جو افرا ط وتفریط کا شکار نہ ہو۔جس بھی ادارے یا شخصیت کو اختیار ملتاہے وہ اس کا بے دریغ استعمال کرتاہے۔کسی زمانے میں لوگ سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ سے شاکی تھے کہ وہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہے لیکن اب یہ سلسلہ عام ہوچکا ہے۔ ایک زمانے تک وکلا کو قانون کے محافظ کے طور پر شناخت کیاجاتاتھا۔اس خطے میں استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک کی قیادت زیادہ تر وکلا کے ہاتھ میں رہی۔قائد اعظم محمد علی جناح کا شمار نامور وکلا اور عظیم سیاستدانوں میں ہوتاتھا ۔ساری زندگی قانون کی حکمرانی کے پرچم برداررہے۔تمام تر مشکلات کے باوجود پرتشدد یا غیر قانونی حربوں سے سیاست کو آلودہ نہ ہونے دیا۔مہاتماگاندھی بھی وکیل تھے۔اپنی ہٹ کے پکے کہ آخری وقت میں پاکستان سے بھارت نقل مکانی کرنے والے ہندئووں اور بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو واپس اپنے اپنے گھروں میں آباد کرانے کا اعلان کیا۔دہلی میں مسلمان غیر محفوظ ہوئے ۔بھارتی حکومت نے پاکستان کے حصے کی رقم فراہم کرنے سے انکار کیا تو مرن برت (بھوک ہڑتال ) کا اعلان کیا۔اسی کشمکش میں ایک انتہاپسند نے ان کی جان لے لی۔ پوری عمر سیاسی جدوجہد سے عبارت ہے لیکن کبھی پرتشدد کارروائیوں کی حمایت نہ کی۔ چودہ اگست 1947ء کو آزادی کا سورج طلوع ہوا تو وکلا نے تعمیر پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔نامور قانون دان سرظفراللہ خان کو قائد اعظم نے خود وزیر خارجہ مقررکیا۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے۔معاشرے کے ذہین اور معززخاندانوں کے لوگ اس پیشے سے وابستہ ہوتے رہے ہیں۔اب عالم یہ ہے کہ لوگ وکلا کا نام سن کر گھبرا جاتے ہیں ۔ خدشہ ہے کہ اگر وکلا نے اپنا موجودہ طرزعمل نہ بدلا تو عام لوگ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ پرویز مشرف کے گناہ ہزار سہی لیکن ان کی تذلیل کرنا اور انہیں جوتے مارنے کی کوشش کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ پرویزمشرف کو اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے لیکن صرف قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق۔مجھے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کا رویہ بڑا معقول لگا۔ وہ کہتے ہیں:پرویز مشرف سے میرا کوئی ذاتی جھگڑ انہیں ۔میں نے انہیں معاف کردیا ہے۔ میاں نواز شریف نے مشرف کے معاملے کو عدالتوں کے رحم وکرم پر چھوڑکراور خود انہیں سزا دینے یا دلوانے کا علمبردا رنہ بن کر دانشمندانہ فیصلہ کیا۔ مشرف نے جو کچھ کیا وہ اب تاریخ ہے اور تاریخ سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔پاکستان کو آگے بڑھنا ہے۔ ماضی کو دفن کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں تلخی او ر کشیدگی کی فضا پیدا نہ ہو۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی مخالفین کے ساتھ مفاہمت کا گڑواگھونٹ پیا ۔ سیاسی مخالفین کو معاف کرنے دینے کی جو روایت محترمہ نے ڈالی وہی کامیابی اور کامرانی کا راستہ ہے۔انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے ساتھیوں کو پھانسیاں دینے اور انہیں جیل میں ڈالنے کے بجائے معاف کیابلکہ کئی ایک کو پیپلزپارٹی کی صفوں میں بھی شامل کرلیا۔ سیّد یوسف رضا گیلانی اس کی ایک اعلیٰ مثال ہیں۔ صدرآصف علی زرداری نے بھی اسی پالیسی کو جاری رکھا۔انہوں نے چودھری شجاعت حسین کے ساتھ بھٹو خاندان کی روایتی دشمنی کو نظرانداز کیا اورچودھری پرویزالہٰی کو نائب وزیراعظم بنایا۔چودھری برادران کو عزت واکرام سے نوازا حتیٰ کہ چودھری اور بھٹو خاندان شیر وشکر ہوگئے۔ماضی میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے مابین کشیدگی کا ایک بڑا محرک ستر کی دھائی میں ذوالفقار علی بھٹو کاچودھری ظہور الہٰی کے ساتھ کیا جانے والا سلو ک بھی رہاہے۔ مشرف کے ساتھ عدالتوں کے اندر اور باہر جو سلوک ہوا اس نے یہ حقیقت طشت از بام کردی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اب کسی طالع آزما کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ لوگ جمہوری نظام کے ساتھ گہری وابستگی کااظہار کرچکے ہیں اور اب اس باب میں کوئی تقسیم نہیں۔یہ پیغام اسٹیبلشمنٹ کو مل چکاہے اورانہیں اس ماحول کا بخوبی ادراک بھی ہے۔ گیارہ مئی کے انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کی پہلی ترجیح ملک میں امن کا قیام ہونا چاہیے تاکہ ریاستی مشینری پوری تندہی سے معاشی بدحالی اور توانائی کے بحران پر قابو پانے کے اقدامات کرسکے۔پرویز مشرف کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جائے ۔ اس طرح کے مقدمات حکومت اور معاشرے کی ساری توانا ئی نچوڑلیتے ہیں لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا۔صرف کشیدگی اور نفرت پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں