ملک کے طول وعرض میں حیرت اور رنج کے ساتھ یہ خبر سنی گئی کہ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے چوتھی بار پاکستان آنے کی دعوت مسترد کردی ہے۔انہیں میاں محمد نوا زشریف نے وزارت عظمیٰ کے منصب کی حلف برداری کی تقریب میںشرکت کے لیے مدعو کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ نواز شریف کا یہ اقدام ایک غیر معمولی جرأت کا مظاہرہ تھا جس کی تائید امریکی وزیرخارجہ جان کیر ی نے بھی کی ۔نوازشریف نے روایتی سفارتی آداب سے ہٹ کرمیڈیا کے ذریعے بھارتی وزیراعظم کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی۔اگر وہ پاکستان آجاتے تو دونوں ممالک کے مابین ایک نئے باب کا آغاز ہوسکتاتھا ۔ نون لیگ کو ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں پر نظرثانی کا مینڈیٹ حاصل ہے۔نوازشریف کا نقطہ نظر ہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد نوے دنوں کے اندر ہی بڑے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔بعد میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی مجبوریاں گھیر لیتی ہیں اور کارکردگی سست پڑجاتی ہے۔وہ بھارت اور افغانستان سے تعلقات کو گرم جوشی میں بدلنے اور تنازعات کے حل کے لیے پرعزم نظر آتے ہیں۔نون لیگ نے اپنے منشور میں بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی حکومت سے بات چیت کا سلسلہ جہاں ٹوٹاتھا وہیں سے دوبارہ شروع کیا جائے گا۔ اگرچہ اس دوران پُلوں کے تلے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے جس کا نوازشریف کو ادراک نہیں۔ کارگل کی ناکام مہم کے معمار پرویز مشرف برسراقتدار آنے کے بعد امن کی فاختہ بن گئے۔ دومرتبہ بھارت کا دورہ کیا ۔مسئلہ کشمیر پر روایتی موقف ترک کیا۔ملک کے فعال طبقات کو قائل کیا کہ لچک دار اور غیر روایتی اندازِ فکر اختیار کرکے مسئلہ کشمیر کاحل تلاش کیا جاسکتاہے۔ 2008ء کے آخر میں ممبئی کے تاج ہوٹل پر ہونے والے حملوں میں پاکستانی شہری اجمل قصاب زندہ پکڑا گیاتو یہ پیش رفت رک گئی۔ پیپلزپارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں من موہن سنگھ کے دورہ پاکستان کے لیے ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ ناموزوں حالات کا بہانہ کرکے ٹالتے رہے ۔ صدر آصف علی زرداری اورسابق وزیر اعظم راجہ پرویزاشرف اجمیر شریف حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے مزار کی ز یارت کے لیے جبکہ یوسف رضاگیلانی کرکٹ میچ دیکھنے بھارت گئے۔ بھارت کو تجارت کے لیے انتہائی پسندیدہ ملک قرار دیا گیا ۔اس کے باوجود من موہن سنگھ پاکستان نہ آئے۔ امسال جنوری میں کنٹرول لائن پر دو بھارتی اور تین پاکستانی فوجی باہمی جھڑپوں میں لقمہ اجل بن گئے ۔بھارت نے الزام لگایا کہ پاکستان نے اس کے فوجیوں کی گردن کاٹی اور نعشوںکی بے حرمتی کی۔بھارتی میڈیا نے جنگی جنون پیدا کردیا۔ پاکستان کے بارے میں فوجی سربراہ اور وزیردفاع نے اشتعال انگیز لب ولہجہ اختیار کیا ۔ نہ صرف ویزے کی نرمی کے معاہدے پر عمل درآمد روک دیا بلکہ پاکستانی کھلاڑیوں کو بھی بھارت سے نکال دیا گیا۔اسلام آباد نے جوابی طور پر غیر معمولی ضبط کا مظاہر ہ کیا لیکن موسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینے کے فیصلے پر عمل درآمد ملتوی کردیا گیا۔اس وقت دونوں ممالک کے تعلقات نچلی ترین سطح پر منجمد ہیں۔پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ بھی معطل ہے اور فضا میں کافی تلخی پائی جاتی ہے۔ اب میاں نوا زشریف نئی شروعات کرنا چاہتے ہیں۔ان کے جذبے کی قدر کی جانی چاہیے لیکن چند معروضات پیش نظررہنی چاہئیں تاکہ کسی امکانی حادثے سے بچا جاسکے۔یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومتوں کی خواہش کے باوجودپاک بھارت تعلقات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہوسکی۔ دونوں ممالک کی اسٹیبلشمنٹ نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر بے پناہ سرمایہ کاری کرکے دونوں طرف ایک ایسا ذہن تشکیل دیا ہے جو بقائے باہمی کے ہر فارمولے کو مستردکرتاہے یا ایسا ماحول پید ا کردیتاہے جو مذاکرات کی میز پر ہونے والی پیش رفت کو روک دے۔ من موہن سنگھ کی سردمہری اسی رویے کی عکاسی کرتی ہے۔ جمہوری ممالک میں کسی بھی نازک اور قومی نوعیت کے مسئلے پر مروجہ پالیسی کی تبدیلی سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جاتاہے۔امریکا ،برطانیہ اور حتیٰ کہ بھارت میں بھی پالیسی سازی کے معاملات میں اسٹیبلشمنٹ بالخصوص دفاعی اداروں کی مشاورت کو اساسی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔چند ہفتے قبل پاکستان اور افغانستان پر امریکا کے خصوصی ایلچی آنجہانی رچرڈ ہالبروک کے مشیر ولی نصر نے ایک مضمون میں انکشاف کیا کہ افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ہر اقدام کو سی آئی اے اور فوج نے ناکام بنایا۔ بھارتی فوج نے سیاچن پر فوجی انخلا کا معاہد ہ نہیں ہونے دیا۔کشمیر میں کانگریس کی مرکزی حکومت اور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ چاہتے ہیں کہ کالے قوانین کا خاتمہ ہو لیکن فوج ایسا نہیں ہونے دیتی۔ پاکستان کے دفاعی ادارے بھارت اور افغانستان کے معاملات پر پالیسی سازی سے لے کر اس پر عمل درآمد تک کے ذمہ دار ہیں۔ان معاملات میںدفتر خارجہ اور حکومت کا کردار ثانوی ہی نہیں بلکہ علامتی ہے ۔ نوا زشریف اس پالیسی کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔ملک کی موجودہ پالیسیاں ہوا میں تشکیل نہیں پائیں بلکہ ان کی بنیادچھ عشروں پر محیط تجربات پر ہیں۔علاوہ ازیں بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا جارحانہ رویہ اور افغانستان میں موجود پاکستان مخالف عناصر کی سرگرمیاں بھی بڑی محرک ہیں جو موجودہ پاکستانی طرزعمل کے پس منظر میں کارفرما ہیں۔ نوازشریف وزارت عظمیٰ سنبھالیں‘ وزیرخارجہ کا تعین کریں‘ اپنی ٹیم کے ہمراہ تمام اداروں کے ساتھ بیٹھ کر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ تمام امور کا جائزہ لے کر اپنی ترجیحات کا اعلان کریں اور ان پر عمل درآمد کا جامع میکانزم وضع کریں۔بھارت اور افغان حکومت کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے آئے تو پیش رفت جاری رکھیں۔یک دم دھماکے کرنے سے وقتی طور پر واہ واہ ہوجاتی ہے لیکن دیرپا کامیابی نہیں ملتی ۔اگر بھارتی وزیراعظم کو حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے کے حوالے سے مشورہ کیا گیا ہوتاتو اس سبکی سے بچا جاسکتا تھا۔ پس تحریر: تین دن قبل قوم پرست کشمیری راہنما سردار عارف شاہد کو راولپنڈی میں پراسرار طورپر قتل کردیا گیا ۔یہ واقعہ ذاتی عناد کا شاخسانہ بھی ہوسکتاہے لیکن یہ پہلو بھی پیش نظر رہے کہ وہ پاکستان کی کشمیر پالیسی کے سخت ناقد تھے اور مسلسل ایسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے جو سرکار کو ناگوار گزرتیںتھیں ۔ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل تھا ۔وزارت داخلہ نے ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کیے رکھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلیٰ سطح پر تیز رفتار تحقیقات کے بعد حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔ دوسرا توجہ طلب ایشو یہ ہے کہ چند ہفتے قبل مظفرآباد شہر کے ایک معروف ہوٹل میں آزادکشمیر یونیورسٹی کی ایک طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کی گئی۔ اس خبر کے عام ہونے پر پورے خطے میں سخت اشتعال پایاجاتاہے ۔ لوگ توقع کرتے ہیں کہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ عام لوگوں میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ انصاف چاہتے ہیں۔