نہ جانے پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی میں کیا خاص کشش ہے کہ مولانا فضل الرحمان ایک بار پھر اس کی جانب راغب نظر آتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق انہوں نے مسلم لیگ نواز سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں وفاق میںوزارتوں کے علاوہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی سونپی جائے۔ نوازشریف کشمیر پر بھارت کے ساتھ سنجیدہ اور نتیجہ خیز مذاکرات چاہتے ہیں‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ پاکستان مذاکراتی عمل میں سنجیدہ ہے اور وہ کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔انہوں نے انتخابات سے قبل فرمایا :کارگل پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے گا اور نتائج سے بھارت کو بھی باخبر کیا جائے گا۔ایک اور بیان میں نوازشریف نے کہا: بھارت مدعوکرے نہ کرے میں بھارت کادورہ کروں گا۔بھارت میں بھی نوازشریف کے لیے نرم گوشہ پایاجاتاہے ۔وہاں کی اشرافیہ میں یہ ثاثر ہے کہ انہیں بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی پاداش میں حکومت سے محروم ہونا پڑاتھا۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ دوستی اور مسائل کے حل کی یہ بیل منڈھے چڑھے گی یا نہیں لیکن کم ازکم نون لیگ کی حکومت کو بھارت کے ساتھ معاملات طے کرنے اورکشمیر یوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایسی شخصیات کو سامنے لانا چاہیے جو سفارت کاری اور خفیہ مذاکرات کا پس منظر اور ضروری استعداد کار رکھتی ہوں اور کشمیر جیسے پیچیدہ مسئلے کا ادراک بھی۔ مولانا فضل الرحمان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ دوستیاں اور دشمنیاں سیاست کا حصہ ہیں۔حالیہ انتخابات میں ان کی تحریک انصاف کے ساتھ زبردست کشیدگی رہی حتیٰ کہ مولانا فضل الرحمان نے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قراردیا۔کشمیر کمیٹی کا منصب ایک ایسی شخصیت کا تقاضا کرتاہے جس کو تمام حلقوں میں یکساں احترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاہو۔ صدر آصف علی زرداری نے مولانا کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقرر کرکے بھارت کو صلح اور دوستی کا پیغام دیا تھالیکن فضل الرحمان گزشتہ پانچ برسوں میں کشمیر یوں کا اعتماد حاصل کرسکے اور نہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ادا کرسکے۔انہیں وفاقی وزیر کے مساوی پروٹوکول اور مراعات حاصل رہی ہیں۔ اے این پی کی بشریٰ گوہر بھی اس کمیٹی کی رکن تھیں ۔غیر رسمی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ اس کمیٹی کے پاس مالی وسائل کی بہتات ہے اور بے دریغ خرچ پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں۔جہاں تک کشمیر پالیسی کاتعلق ہے یہ مولانا کی دلچسپی کا میدان نہ تھا بلکہ ایک جزوقتی ’خدمت ‘تھی۔کبھی کبھار وفود سے ملاقات کرلی یا اخبارات میں بیان جاری کردیا۔ان کی سرگرمیوں اورجدوجہدکا بنیادی محور ملکی سیاست ہے۔ پاکستان میں کشمیر کمیٹی کے قیام کی روایت کا فی قدیم ہے۔صدر ایوب خان کے دور میں ایک کل جماعتی کشمیر کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی سربراہی قائد اعظم محمد علی جناح کے دست راست اور سابق وزیراعظم چودھری محمد علی نے کی ۔ کمیٹی کے ارکان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اور چودھری غلام عباس جیسے جید اکابرین شامل تھے۔اس سے قبل 1931ء کی دہائی میں لاہور میں علامہ محمداقبال کی قیادت میں کشمیر کمیٹی قائم بنائی گئی تھی ۔ کمیٹی نے مہاراجہ ہری سنگھ کے زیرعتاب لوگوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کے علاوہ پنجاب میں کشمیریوں کی حالت زار کی بابت رائے عامہ کو بیدار کیا تھا۔اسی زمانے میں تحریک احرار نے بھی کشمیریوںکی امدادکے لیے بھرپورمہم چلائی تھی۔ حالیہ تاریخ میںپاکستان کے جہاں دیدہ سیاستدان اور بابائے حزب اختلاف نواب زادہ نصراللہ خان کی سربراہی میں قائم ہونے والی کشمیر کمیٹی کی شان وشوکت ہی منفرد تھی۔نواب زادہ ایک سخن فہم اور سیاسی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے سیاستدان تھے جو زندگی بھر حزب اختلاف کا مورچے گرم رکھے رہے۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کا سربراہ بناکر ان کی صلاحیتوں سے حزب اختلاف کو محروم کرنا چاہا۔ نواب زادہ نے جلد ہی کشمیری امورمیں گہری دلچسپی لینا شروع کردی اور وزارت خارجہ کے متبادل اپنا دفتر کھڑا کردیا۔سیاسی اور سفارتی سطح پر کشمیر پر سرگرمیوں کو مسلسل سرپرستی ملنا شروع ہوگئی۔بے نظیر بھٹو بھی مزاجاً جارحانہ مزاج کی حامل کی شخصیت تھیں۔انہوں نے بھی کشمیر کے مسئلہ پر عالمی برادری کو متحرک کرنے اور خود کشمیری قیادت کو ایک کلیدی عنصر کے طورپر متعارف کرانے کی غرض سے متعدد اقدامات کیے۔کاسابلانکا میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں حریت کانفرنس کو مبصر کا درجہ دلایا۔بعدازاں کشمیر پر اوآئی سی نے ایک رابطہ گروپ بھی تشکیل دیاجس کے افتتاحی اجلاس میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ اور ترکی کے صدر سلمان ڈیمرل نے شرکت کی۔ان تمام اقدامات کے پس منظر میں نواب زادہ کا ذہن رساکارفرما تھااور محترمہ کو ان کی سیاسی پشت پناہی حاصل تھی۔ نوازشریف نے نواب زادہ کی طرح کی رعب داب والی شخصیت کے بجائے اپنے دوسرے دور حکومت میں سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے رکن چودھری محمد سرور کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔چودھری سرور ایک سادہ اور درویش منش انسان تھے۔ لکھنے پڑھنے کے کاموں سے اجتناب برتتے حتیٰ کہ انہیں کشمیر کے تاریخ جغرافیہ کی بھی سمجھ نہ تھی۔ایک دفعہ پانچ فروری کو پاکستان ٹیلی وژن پر جلوہ فروز ہوئے۔ ایسی بے سروپا گفتگو کی کہ لوگ آج تک ان کی تقریر پر سر پیٹتے ہیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور میں عمومی طور پرکشمیر ی دکھی اور لاتعلق رہے۔ان کی پرویز مشرف کے ساتھ قربت کا ایک بڑامحرک اس وقت کی حکومت کے غیر سنجیدہ اقدامات بتائے جاتے ہیں۔ نواب زادہ کے بعد کشمیر کمیٹی کا کوئی سربراہ جچاہی نہیں۔ فضل الرحمان مرنجاں مرنج شخصیت کے مالک ہیں۔راستہ کتنا ہی کٹھن او رمنزل کتنی دورکیوں نہ ہو انہیں اپنی راہ بنانا آتی ہے۔وہ پرویز مشرف کے دور حکومت میں پانچ برس تک قائد حزب اختلاف کے منصب پر فائز رہے۔پرویز مشرف کو مشکل کی ہر گھڑی میں بچاتے اور اسٹیبلشمنٹ سے داد پاتے رہے۔ پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی شامل رہے۔ اب نئی حکومت میں اپنا حصہ بقدرِ جثہ پانے کے لیے بے تاب ہیں۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے لیے اس اعتبار سے موزوں شخصیت نہیں کہ وہ ایک ایسی مذہبی جماعت کے امیرہیں جو طالبان اور شدت پسندوں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتی ہے۔ بلوچستان کی جمعیت علمائے اسلام کے لوگوں کے گھروں اور مدرسوں سے طالبان کے سرکردہ لوگ پکڑے گئے ۔وہ آسانی کے ساتھ بیرون ملک سفر نہیں کرسکتے ۔کئی ایک ممالک انہیں ویزا تک جاری نہیں کرتے۔یورپی یونین اور برطانیہ کے قوانین ایسے افراد کے خلاف خودبخود حرکت میں آجاتے ہیں جو تشددکو ہوا دیتے ہوں یا ان تنظیموں سے مراسم رکھتے ہوں جو تشدد کا پرچار کرتی ہیں یا پھر تشدد کے ذریعے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ اس کے علاوہ مولانا انگریزی سے بھی نابلد ہیں جو بین الاقوامی امور میں اظہار خیال کی زبان ہی نہیں کنجی تصور کی جاتی ہے۔ کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے لیے کل وقتی شخصیت کی ضرورت ہے جو غیر ملکیوں کے ساتھ مسلسل تبادلہ خیال کرسکتی ہو۔کشمیر پر نئے آئیڈیاز کا ادراک رکھتی ہو اور انہیں آگے بڑھانے میں بھی معاونت پر آمادہ ہو۔اسٹیبلشمنٹ اور کشمیری قیادت کے مابین پل کا کردار ادا کرسکتی ہو۔ کسی ایسے گروہ سے وابستہ نہ ہوجو عالمی برادری کے لیے نا قابل قبول ہو۔ سینیٹر رضا ربانی اور مشاہد حسین سیّد جیسی شخصیات اگرچہ نون لیگ کا حصہ نہیں ہیں لیکن وہ پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کی قیادت کرسکتے ہیں۔ فضل الرحمان کو اکاموڈیٹ کرنے کے لیے اور کئی منصب موجود ہیں۔ انہیں داخلہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کا سربراہ مقرر کرکے طالبان سے مذاکرات کا انچار ج مقرر کیا جاسکتاہے ۔اس طرح: ع آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک!