اگرچہ نوازشریف نے انتخابات میں کامیابی کے بعد افغانستان سے تعلقات بہتربنانے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن افغان صدر حامد کرزئی کو ان سے زیادہ توقعات نہیں۔وہ جانتے ہیں کہ منتخب حکومت کی افغان پالیسی پر گرفت ہے اور نہ ہی اس میں روایتی اسٹرٹیجک پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی کی استعداد اور سیاسی عزم ہے۔صدر کرزئی پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے عمل سے بری طرح مایوس نظر آتے ہیں۔افغانستان کی حکمران اشرافیہ اور تعلیم یافتہ لوگوںمیں یہ نقطہ نظر راسخ ہوچکا ہے کہ پاکستان کبھی بھی ان کا دوست نہیں بن سکتا۔ افغانستان کے امن اور استحکام سے کھیلنے کا سلسلہ پاکستان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے ۔یہی وہ پس منظر ہے جس میں افغانستان عالمی قوتوں اور بالخصوص بھارت کی مدد سے ایک مضبوط افغان فوج اور اعلیٰ پائے کی خفیہ ایجنسی اور بہترین دفاعی ادارے قائم کرنے کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ڈیڑھ لاکھ سے اوپر فوج کھڑی کی جاچکی ہے جس کو فوجی تربیت امریکی اور یورپی ماہرینِ حرب نے دی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان میںغیر اعلانیہ طور پر پاکستان کو دشمن ملک تصور کیا جاتا ہے۔اسی پس منظر میں صدر حامد کرزئی نے طالبان سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف صف آرا ہوں نہ کہ اپنے ملک اور قوم کے خلاف لڑیں۔کرزئی نے پاک افغان سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتاہے‘ کے متنازع ہونے کا ذکر بھی شروع کردیا ہے۔پاک افغان سرحد ی جھڑپیں معمول کی کارروائی بن چکی ہیں۔تحریک طالبان پاکستان سے منسلک کئی ایک گروہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ صدر کرزئی توقع کرتے تھے کہ پاکستان میں موجودہ طالبان کمانڈروں کو ان کے حوالے کیا جائے گا یا پھر انہیں مذاکراتی عمل کا حصہ بنانے میں مدد دی جائے گی۔وہ پاکستان کی مشکلات کا ادراک نہیں رکھتے ۔چند ماہ قبل کابل میں بے شمار لوگوں کے ساتھ ہونے والی گفتگو سے احساس مزید پختہ ہوا کہ وہ طالبان کو پاکستان کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی لاٹھی تصور کرتے ہیں۔ کابل میں ہر کوئی یقین رکھتاہے کہ طالبان پاکستان کی مرضی اور منشا کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے ۔پاکستان سے مایوسی ،طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل میں سست پیش رفت اور امریکی افواج کے انخلاء کے عمل نے کرزئی حکومت پر جھنجھلاہٹ طاری کردی ہے۔ اسے خدشہ ہے کہ امریکی انخلا ء کے بعد کہیں طالبان پاکستان کی مدد سے افغانستان کے پشتون علاقوں پر دوبارہ قبضہ نہ کرلیں۔وہ اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔ افغان صدر کرزئی کے حالیہ دورۂ بھارت کو اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ پہلی بار افغان صدر نے بھارت سے بھاری اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی کی درخواست کی۔اگرچہ پوری تفصیلات معلوم نہیں کہ وہ کس قسم کے ہتھیار حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن میڈیا کے مطابق یہ فہرست کافی طویل تھی جس نے بھارتی حکام کو بھی ششدر کردیا۔بھارت پہلے بھی افغان فوج کو ہتھیار اور گولہ بارود سپلائی کرتارہاہے ۔ اسے ہمیشہ صیغۂ راز میں رکھا جاتارہا تاکہ پاکستان اور بھارت کے مابین افغانستان میں جاری غیر اعلانیہ سرد جنگ میں شدت نہ آئے۔ 2011 ء میں افغانستان نے بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک معاہدے پر دستخط کیے۔بھارت نے افغان فورسز کی ضروریات پوری کرنے کی ہامی بھی بھری ۔بھارت نے اپنے فوجی تربیتی اداروں کے دروازے افغان افسروں اور جوانوں کے لیے کھول دیئے۔سات سو کے اوپر سفارت کاروں، اعلیٰ سرکاری افسروں، ججوں، وکیلوں اور جامعات کے اساتذہ کو بھی مختلف تربیتی کورسز سے مسلسل گزاراجارہاہے اور یہ عمل کئی برسوں سے جاری ہے۔ علاوہ ازیں انفراسٹرکچر بالخصوص شاہراہوں کی تعمیر، پن بجلی کے منصوبوں اور شفاخانوں کی تعمیر پر دو بلین ڈالر سے زائد رقم خرچ کی گئی۔ بھارت کا زبردست سافٹ امیج ابھارنے کے لیے ہر شعبۂ زندگی میں سرمایہ کاری کی گئی ۔اکثر سیاستدانوں کے خاندان دہلی میں مقیم ہیں۔ان کے بچے بھارت میں زیر تعلیم ہیں۔ اہلِ ثروت علاج معالجے اور سیاحت کے لیے بھارت جاتے ہیں۔خود حامد کرزئی نے گزشتہ چند برسوں میں ایک درجن سے زائد مرتبہ بھارت یاترا کی۔ سابق افغان وزیرخارجہ عبداللہ عبداللہ نے ایک دلچسپ بات بتائی۔ کہتے ہیں :سابق امریکی صدر جارج بش کے ساتھ پرویز مشرف اور حامد کرزئی کی مشترکہ ملاقات ہورہی تھی۔پرویز مشرف افغان حکومت کی بھارت نوازی کی شکایت کیے جارہے تھے ۔بش کو بات سمجھ نہ آئی۔ انہوں نے گہرائی میں جاکر مسئلہ سمجھنے کی خاطر سوالات شروع کردیئے ۔ صدر مشرف نے جذباتی انداز میں کہا کہ کرزئی کے وزیروں کے دہلی میں گھر ہیں۔اس پر بش نے وزیر خارجہ کونڈالیزا رائس سے پوچھا کہ یہ کس کے بارے میں شکایت کررہے ہیں ؟کونڈالیزا نے عبداللہ عبداللہ کی طرف اشارہ کیا کہ ان کا دہلی میں گھر ہے۔اس پر بش نے قہقہہ لگا یا اور مسکراتے ہوئے کہا:دہلی رہائش کے لیے عمدہ جگہ ہے۔ افغان سرکاری اہلکاروں کے علاوہ عام لوگ بھی بھارت کو مخلص دوست تصور کرتے ہیں جو ان کی فلاح وبہبود اور ترقی کے لیے بے محابا وسائل صرف کرتاہے۔بھارت کو توقع ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد یہ لوگ اس کا سیاسی اثاثہ ثابت ہوں گے جو بھارت مخالف عناصر کو غیر موثر کرنے میں کردار ادا کریں گے۔ نوازشریف افغان پالیسی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں ۔وہ سٹریٹیجک کے برعکس اس کا انسان دوستی اور کاروباری پہلو ابھارنا چاہتے ہیں ۔ان کی خواہش ہے کہ کاروبار اور تجارت کو فوقیت دے کر علاقائی تنازعات کے حل کی راہ نکالی جائے۔خود چین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔چند ہفتے قبل لداخ میں چین کی افواج نے بھارت کے زیرانتظام علاقہ پر قبضہ کرلیا۔دونوں ممالک کی قیادت نے سرحدی جھڑپوں ،تنازعات اور باہمی اختلافات کی موجودگی کے باوجود اعلیٰ سطحی دورے کیے۔ بھارتی وزیرخارجہ سلمان خورشید بیجنگ گئے جبکہ چین کے وزیراعظم لی کی جیانگ نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلادورہ بھارت کا کیا۔ اس بھارت کا جسے مغربی دنیا چین کے خلاف استعمال کرنے کے عزائم رکھتی ہے۔نوا زشریف اس ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں تاکہ کشیدگی کی فضا کم کرکے تجارت اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔ افغانستا ن میں قیام امن سے پاکستانیوں کے لیے حیرت انگیز طور پر کاروبار اور ملازمتوں کے پرکشش مواقع پیدا ہوسکتے ہیں۔پاکستان کے افغانستان میں سفیر محمد صادق کا کہنا ہے :اس وقت افغانستان میں ایک لاکھ پاکستانی شہری برسر روزگار ہیں۔ ان میں اعلیٰ پائے کے بینکار، اکائونٹنٹ اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل افراد شامل ہیں۔دونوں ممالک میں باہمی تجارت کا حجم ڈھائی بلین ڈالر سے تجاویز کرچکا ہے جبکہ غیر رسمی تجارت کو بھی شمار کیا جائے تو تجارتی حجم پانچ بلین ڈالر سے اوپر بتایا جاتاہے۔محمد صادق کہتے ہیں: پاک افغان تجارت کی بدولت 35 لاکھ پاکستانی شہریوں کو روزگار ملاہے۔ بلاشبہ پاکستان کے لیے یہ خوشگوار نہیں کہ صد رکرزئی بھارت کی مدد سے اپنی فوج کی تربیت کرائیںاور دہلی انہیں اسلحہ سپلائی کرے یا چین کے لی کی جیانگ جب اپنے پہلے عالمی دورے پر روانہ ہوں تو ان کا پہلا انتخاب بھارت ہو۔ لیکن کیا کیا جائے کہ زمانے کا چلن ہی یہی ہے؛ البتہ ہمیں خود کو نئے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کرنا ہوگا‘ رونے دھونے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔